Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, August 5, 2019

ہاں !!میں اعظم خان ہوں۔!!!


مضمون : نازش ہما قاسمی /صداٸے وقت۔
========================
ہاں میں اعظم خان ہوں، جی ہاں اعظم خان ، سینئر سماج وادی لیڈر، چار بار سابق ریاستی وزیر، سابق راجیہ سبھا رکن، رام پور سے موجودہ ایم پی ،جوہر یونیورسٹی کا بانی، بے باک مقرر، حاضر جواب، سنجیدگی ومتانت کی تصویر، دوٹوک لہجے میں اپنی بات رکھنے والا ،آنکھوں میں آنکھ ڈال کر گفتگو کرنے والا، مشہور عوامی نمائندہ، ایڈوکیٹ اعظم خان ہوں۔ میری پیدائش آزادی ہند کے ایک سال بعد ۱۴؍اگست ۱۹۴۸ کو رام پور کے محلہ گھایر میر بازار خان میں ممتاز خان کے گھر ہوئی۔ میری والدہ کا  نام امیرجہاں ہے۔ میری شادی ۱۹۸۱ میں تزئین فاطمہ سے ہوئی جو فی الحال راجیہ سبھا کی ممبر ہیں (انہوں نے طلاق ثلاثہ مسئلے پر واک آئوٹ کرنے کی وجہ سے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا جس کی وجہ 
سے ان پر سوال کھڑے ہورہے ہیں ) ۔ 

میرےدوبیٹے ادیب اعظم خان اور عبداللہ اعظم خان ہیں ۔ عبداللہ اعظم خان ریاست اترپردیش میں ممبراسمبلی ہیں۔ میری تعلیم وتربیت اپنے علاقے میں ہوئی اعلیٰ تعلیم کےلیے دنیا کی بڑی یونیورسٹیوں میں سے ایک بڑی یونیورسٹی’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل ہوا اور وہاں سے ۱۹۷۴ میں بیچلر آف لا کی ڈگری حاصل کی۔ سیاست کے میدان میں آنے سے پہلے بطور وکیل کام کیا۔ میں نے اپنی سیاسی زندگی دور طالب علمی سے ہی شروع کی جب میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تھا تو۱۹۷۶ میں جنتا پارٹی سے منسلک ہوا اور ضلعی طور پر سیاسی خدمات انجام دی۔ ۱۹۹۸۰، ۱۹۸۵، ۱۹۸۹، ۱۹۹۱، ۲۰۰۲، ۲۰۰۷ اور ۲۰۱۲ میں راجیہ سبھا کا ممبر رہا۔ ۵؍دسمبر ۱۹۸۹ سے لے کر ۲۴ جون ۱۹۹۱ تک روزگار، مسلم وقف بورڈ اور حج کے کام کو دیکھا، ۱۳؍میں ۲۰۰۲ سے ۲۹ اگست ۲۰۰۳ تک اترپردیش اسمبلی میں بطور اپوزیشن لیڈر منتخب رہا۔ ۶؍ستمبر ۲۰۰۳ سے ۱۳ مئی ۲۰۰۷ تک  ریاستی وزیر تھا۔ ۲۰۰۹ میں سماج وادی سے جیا پردہ کو ٹکٹ دینے کی وجہ سے میں ناراض ہوگیا اور پارٹی سے بغاوت کردی تھی اس انتخاب میں میں جیا پرد سے ہار گیا تھا۔ ۱۷؍مئی ۲۰۰۹ کو میں نے پارٹی جنرل سکریٹری کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور ۴؍دسمبر ۲۰۱۰ کو پارٹی نے مجھے دوبارہ بلالیا۔ ۲۰۱۲ میں اکھلیش یادو کی سرکار میں ریاستی وزیر رہا۔ ۲۰۱۹ کے لوک سبھا انتخاب میں میں نے بی جے پی کی امیدوار جیا پردہ کو کراری شکست دی اور ممبرپارلیمنٹ منتخب ہوا۔ہاں میں وہی ہوں جس پر پارلیمنٹ رکن رما دیوی پر نازیبا جملے کہنے کا الزام عائد ہوا حالانکہ میں  مشہور شعر ’"تو ادھر ادھر کی نہ بات کر‘ کسی اور کو مخاطب کرکے کہہ رہا تھا؛ لیکن وہ اس وقت بطور اسپیکر موجود تھیں اور اپنی طرف دیکھنے کی ہدایت کی جس کے بعد میں نے ان کی طرف دیکھا اور کچھ جملے کہے جو شاید پارلیمانی زبان کے خلاف تھے اس پر تنازعہ ہوا اور اس پارٹی کے ممبران جن کی فحش ویڈیو وائرل ہورہی ہیں ، جن کے ممبراسمبلی عصمت دری میں ماخوذ ہیں عورتوں کے سمان کی مجھے تعلیم دی خیر میں نے اپنے اس کیے پر شرمندہ ہوکر ایوان میں صدق دل سے محترمہ رما دیوی سے ’چھما‘ چاہ  لی۔ 
ہاں میں وہی اعظم خان ہوں جس نے پارلیمنٹ میں اپنی پہلی ہی تقریر میں مسلمانوں کی وکالت کی اور اپنے آبائو اجداد کے کارنامے گنوائے، وندے ماترم پر جواب دیتے ہوئے میں نےانتہائی سنجیدگی ومتانت بھرے لہجے میں کہا تھا ’’میری پوری سیاسی زندگی میں اگر سوئی کے نوک کے برابر کہیں بے ایمانی، رشوت، اور کوئی بھرشٹا چار یا کسی کے ساتھ کوئی زیادتی سرکار ی قلم کے ساتھ ہو تو میں ابھی اسی وقت پارلیمنٹ چھوڑنے کا اعلان کرتا ہوں، میں نے بہت صاف ستھری زندگی گزاری ہے؛ ورنہ اتنا لمبا سفر کرنے کے بعد ملک کی سب سے بڑی عدالت میں کھڑا نہ ہوتا، میں اُٹھنے والی ان آوازوں سے بھی کہناچاہتا ہوں ۱۹۴۷ میں بٹوارے کے وقت ہمیں حق تھا پاکستان جانے کا آپ کو نہیں تھا؛ لیکن ہمارے آباء و اجداد نے یہ طے کیا کہ یہ وطن ہمارا ہے، ہمارے اجداد کی قبریں ہیں یہاں، ہمارے بزرگوں کے مزارات ہیں یہاں، جامع مسجد ہے دہلی کی، تاج محل ہے، قلعے ہیں ہمارے، بزرگوں کی یادیں ہیں اور یہی یادیں سرمایہ ہے ہمارے بھارت کی، وہی لوگ غدار ہوگئے؟ ان ہی کا نام لے کر سڑکوں پر مارا جانے لگا، ہم اپنی مرضی سے رکے تھے، ہمیں کسی نے زبردستی نہیں روکا تھا جو اپنی مرضے سے رکے ان کےلیے آج اس پارلیمنٹ میں کہا گیا کہ جو وندے ماترم نہیں کہے گا اسے بھارت میں رہنے کا حق نہیں ہوگا۔ بحث وندے ماترم کی نہیں ہے، اگر قانون کی بات کروں تو سپریم کورٹ کہتا ہے وندے ماترم کےلیے مجبور نہیں کیاجاسکتا، سب سے بڑی عدالت وہ بھی ہے۔ لیکن اگر آپ نے تاریخ پڑھی ہو، ریشمی رومال تحریک ، ہندوستان کو آزاد کرانے کے لیے کتنے علماء کرام نے پھانسی کے تختوں کو چوما تھا ، کتنے لوگ مارے گئے تھے، ملک میں نہ جانیں مٹی کی کتنی پہاڑیاں ہیں جس میں ہماری لاشیں سڑگئی ہوں گی؛ لیکن آج بھی دفن ہیں ۔ ریشمی رومال تحریک میں ریشمی رومال کی تصویر دیکھیں گے اس میں آپ کو بھارت ماں کی تصویر چھپی ہوئی ہے‘‘۔اس تقریر میں میں نے ہندوستان کی خوبصورتی اور گنگا جمنی تہذیب سے روشناس کرایا۔ وزیر اعظم نریندر مودی کو ان کارناموں پر گھیرا، تعلیمی حقوق کی پامالی پر سوال کیا۔ اس تقریر کے بعد میں ملک دشمن عناصر کے زد پر آگیا ، فرقہ پرستوں میں کھلبلی مچ گئی، میرا جو سیاسی سفر بے داغ تھا اس پر داغ لگایا جانے لگا، مجھے زمین مافیا کے طور پر متعارف کروایا گیا، چور کے طور پر میری شبیہ سامنے لائی گئی، میری مجاہد آزادی مولانا محمد علی جوہر کے نام پر قائم کردہ عظیم الشان جوہر یونیورسٹی پر چھاپہ ماراگیا، میرے لڑکے کو گرفتار کرلیاگیا۔ میں نے خون پسینہ ایک کرکے یونیورسٹی اس لیے تعمیر کرائی کہ قوم کے بچے اعلیٰ تعلیم سےآشنا ہوں ، لیکن اس یونیورسٹی پر آج خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں،وہاں کی ممتاز لائبربری میں چھاپہ مارکر کتابیں ضبط کی جارہی ہیں، مجھ پر یونیورسٹی بنانے کےلیے کسانوں کی زمین کو ہڑپنے کا  الزام عائد کیاجارہا ہے ۔زمین کے ریکارڈ میں ہیرا پھیری کرکے یونیورسٹی میں 
شامل کرنے کا الزام لگایاجارہا ہے ۔ 
جوہر یونیورسٹی کا ایک منظر


حالانکہ اس زمین کا ریکارڈ شیعہ وقف بورڈ میں ہے اور اسے بورڈ نے تعلیمی کاموں میں استعمال کرنے کےلیے لیز پر دے رکھا ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ سے مجھے اسٹے بھی ملا ہوا ہے؛ لیکن میر جعفر ومیر صادق کی نسل سے تعلق رکھنے والوں نے اس کی شکایت درج کروائی جس کی شکایت پر کارروائی شروع ہے۔ میں اس لیے فرقہ پرستوں کے نشانے پر پر ہوں کہ تنازعات میں پھنسا کر مجھے کمزور کیاجائے ، میری آواز کو دبایا جائے، مجھے سیاسی طور پر بے بس کیا جائے، مجھے پارلیمانی الیکشن جیتنے کے جرم میں پریشان کیا جارہا ہے، اسلئے یونیورسٹی کو نشانہ بنایا جارہا ہے، حالانکہ میں نے جمہوریت کے سب سے بڑے مندر میں یہ بات ببانگ دہل کہی ہے کہ میرا پورا سیاسی کیریئر بے داغ اور انتہائی صاف شفاف رہا ہے اگر کوئی سوئی کے ناکے کے برابر بھی میرا دامن داغ دار دکھادے تو میں اس سب سے بڑی عدالت کی ممبر شپ چھوڑ دونگا، ممبر آف پارلیمنٹ سے استعفیٰ دیدوں گا اسکے باوجود بھی مجھے نشانہ بنایا جارہا ہے اور یونیورسٹی کی لائبریری میں چوری کی کتابوں اور یونیورسٹی کی زمین کے  غیر قانونی ہونے کا بہانہ تراشا جارہا ہے، تعلیم کے دشمنوں کی یہ دیرینہ خواہش ہے کہ کوئی ایسا تعلیمی ادارہ نہ پھلے پھولے جہاں اقلیتوں کے بچے بعد میں فرقہ پرستوں کو آنکھیں دکھائیں ، ان سے دو ٹوک دولہجے میں بات کریں ، اس لیے یونیورسٹی کا ناطقہ بند کرنے کی مکمل کوشش کی جارہی ہے،  میری سب سے بڑی غلطی غالباً یہ ہے کہ میں نے شوچالیہ بنانے کے اس دور میں یونیورسٹی بنوادی، فرقہ پرستوں اور تعلیم کے دشمنوں کو یقینا یہ یونیورسٹی ہضم نہیں ہورہی ہے، علم دوستوں سے میری درخواست ہے کہ آپ مجھ سے لاکھ اختلافات رکھتے 

ہوں،ہوسکتا ہے میں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا ہو جس کی وجہ سے آپ میرا ساتھ دیں؛ لیکن اس یونیورسٹی کی خاطر میرا تعاون کریں، ، قوم کی امانت کو، قوم کو آگے بڑھانے والے تعلیم کے مندر کو بچالیں یہی آپ سے میری التجا ہے۔ اگریہ یونیورسٹی خدانخواستہ بند ہوگئی تو پھر شاید کوئی دوسری ایسی یونیورسٹی کی تعمیر کبھی ممکن نہیں ہوگی۔