Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, August 5, 2019

مجدد تھانوی کے دیارمیں ....قسط اول۔

*مجدد تھانویؒ کے دیار میں*
قسط ⑴
✏ فضیل احمد ناصری /صداٸے وقت۔
=========================
*تھانہ بھون حاضری*
..................................................
تھانہ بھون حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کا وطن ہے۔ یہ ان کے عہد میں مظفرنگر میں پڑتا تھا۔ ادھر آٹھ دس برسوں سے شاملی میں شامل ہے۔ یہ اولیاء اللہ کی سرزمین ہے۔ یہاں ماضی میں ایک سے بڑھ کر ایک اربابِ فضل و کمال اٹھتے رہے اور عالمِ اسلام پر ابر بن کر برستے رہے۔ حضرت حافظ ضامن شہید، حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ، مولانا محمد فاروقی محدث تھانوی، علامہ ظفر احمد عثمانی، ان جیسے اور نہ جانے کتنے ہی علوم و کمالات کے آفتاب یہاں کے افق سے طلوع ہوئے اور دنیا کو منور کر دیا، مگر اس کی شہرت حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے نام و نسبت سے زیادہ ہوئی۔ صورتِ حال یہ ہے کہ تھانہ بھون کا نام آتے ہی حضرت تھانویؒ اور حضرت تھانویؒ کا نام آتے ہی تھانہ بھون کی طرف ذہنی تبادر ہوتا ہے۔


حضرت تھانویؒ سے میری عقیدت کی کئی وجہیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ علمائے دیوبند کے اساطین میں آتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ دارالعلوم کے فرزند ہیں۔ تیسرے یہ کہ میرے پردادا کے پیر بھائی ہیں۔ چوتھے یہ کہ میرے پردادا اور حضرت تھانوی میں تعلقات بڑے گہرے رہے، بلکہ بعض مواقع پر انہیں کی کوششوں سے تھانوی مرحوم کو صراطِ مستقیم ملا، تفصیل آئندہ۔ پانچویں یہ کہ وہ میرے دادا پیر بھی ہیں، شاہ ابرارالحق ہردوئی میرے مرشد تھے اور ان کے مرشد یہی پیر تھانوی۔ ان وجوہات نے میرا قلبی جھکاؤ ان کی طرف ہمیشہ زیادہ رکھا۔ کئی بار میری خواہش ہوئی کہ خانقاہ کی زیارت کو جاؤں۔ دارالعلوم میں میں نے اپنی طالب علمی کے تین برس گزارے۔ تدریس کا دور آیا اور کئی برس نکل گئے، مگر تھانہ بھون نہ جا سکا تھا۔ تین برس قبل ایک مہمان کے ساتھ یہ زریں موقع ہاتھ آیا تو م گیا ضرور، مگر یاد داشت قلم بند نہ کر سکا۔ خواہش تھی کہ دوبارہ جاؤں اور بار بار جاؤں اور یاد داشت لکھوں ۔ کوئی تقریب سمجھ میں نہیں آتی تھی ۔ چند دنوں پیش تر میرے ایک شناسا مولانا سید حفظ القدیر ندوی جلال آبادی کا پیغام ملا، جس میں ان کے ولیمے میں شرکت کی دعوت تھی۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور پختہ ارادہ کر لیا۔
مجھے بتایا گیا تھا کہ دیوبند سے چار پانچ افراد پر مشتمل ایک کارواں جائے گا، جس میں آپ بھی شریک ہوں گے، اس طرح سفر آسان بھی ہوگا اور بامزا بھی، لیکن روانگی کے دن پتہ چلا کہ میرے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ میں نے سوچا: خیر اسی میں ہے۔ میں اپنے ایک عزیز کے ہمراہ وین سے تھانہ بھون کے لیے روانہ ہو گیا۔ دیوبند سے نانوتہ پہونچا تو میں نے مولانا سید حذیفہ نجم تھانوی کو فون ملایا کہ اب اگلا مرحلہ کس طرح طے ہو؟ ان کا جواب آیا کہ: میں اس وقت تھانہ بھون میں ہی ہوں۔ آپ یہیں تشریف لے آئیں، ایک آدھ گھنٹے کے بعد جلال آباد جائیں گے ۔ میں بس اسٹیشن پر انتظار کروں گا۔ میں نے کہا: بہت اچھا!
مولانا سید حذیفہ نجم تھانوی میرے بڑے مخلص دوست ہیں۔ دارالعلوم کے ابنائے جدید میں سے ہیں۔ میرے رفیقِ درس مولانا سعدان جامی ابن حضرت مولانا ریاست علی بجنوریؒ کے برادرِ نسبتی ہیں۔ حضرت تھانویؒ کے ایک خلیفہ مولانا سید ظہور الحسن تھانوی تھے، جو مجدد تھانوی کے بھتیجے مولانا شبیر علی کے بعد خانقاہ امدادیہ اشرفیہ کے ناظم بھی رہے۔ حضرت مولانا سید نجم الحسن تھانوی انہیں کے بیٹے ہیں، اپنے سعادت مند  والد کے بعد خانقاہ کی نظامت و تولیت 43 سالوں سے انہیں کے ہاتھ میں ہے۔ مولانا سید حذیفہ نجم انہیں مولانا نجم الحسن تھانوی صاحب کے فرزند ہیں۔



ہم تھانہ بھون کے لیے بس سے روانہ ہوئے ۔ بس جلال آباد ہوتی ہوئی تھانہ بھون پہونچی۔ ہم اترے تو دیکھا کہ مولانا حذیفہ صاحب گاڑی لیے ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔ علیک سلیک کے بعد گاڑی پر چڑھے اور سیدھے خانقاہ کی راہ لی۔
مشکل سے پانچ منٹ گزرے ہوں گے کہ گاڑی خانقاہ پہونچ گئی اور ہم اس سے اتر کر احاطے میں داخل ہو گئے۔
[اگلی قسط میں پڑھیں: خانقاہ کے اندرونی مناظر ]