Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, August 14, 2019

آزادی کی شہزادی۔۔۔۔۔۔۔

از قلم اجوداللہ پھولپوری / صداٸے وقت۔
=========================
خوشی اور مسرت میں ڈوبا انسان جسے دنیائے رنگ و بو کہتا ھے جب غم و اندوہ سے آشنا ھوتا ھے تو اسے ھی دنیائے فانی کہنے لگتا ھے یہ دنیا،حقیر و ذلیل دنیا، تبدیلویوں کی آماجگاہ ھے تغیرات کا مرکز ھے اسکا رنگ ھر پل ھر آن تبدیلیوں سے دوچار ھوتا ھے اور یہ تبدیلی یہ تغیر دو قسموں پر مشتمل ھے کبھی تو اچھائی اور ترقی سے خرابی اور تنزلی کی جانب تو کبھی خرابی سے اچھائی کی جانب انسان ان تغیرات کو دیکھتا ھے اس پر غور و فکر کرتا ھے ان کے الٹ پھیر میں ڈھیر ھوتا ھے زمانہ کے انقلابات کے طبعی عوامل میں سر کھپاتا ھے اور خارجی اسباب سے سر ٹکراتا ھے پر اپنی ذات کو فراموش کردیتا ھے اپنے اعمال سے نگاھیں تنگ کرلیتا ھے تبدیلیوں کے بکھیڑوں سے خود کو الگ کرکے یہ یقین کرلیتا ھے کہ یہ تغیرات انہیں اسباب و عوامل کی مرھون منت ھیں اسکے اعمال و افعال اور بدنیتی کا 
اسمیں کوئی دخل نہیں.....

٢حالانکہ معاملہ ایسا نہیں ھے تغیرات و انقلابات انسانی نیتوں سے کلی طور پہ مستفید ھوتے ھیں زمانہ کے حالات و حوادث میں انسانی اعمال و افعال کا بڑا دخل ھوتا ھے انسانی احوال و کوائف کی بنیاد پر خالق کائنات کے تصرفات فانی دنیا میں رو نما ھوتے ھیں اور انسانی ارادوں اور نیتوں کا یہ دخل ادنی و اعلی تمام چیزوں میں اثر انداز ھوتا ھے عام حالات میں اسکا مشاھدہ بکثرت ھوتا ھے پر حکومتوں کے بناؤ و بگاڑ نیز ظالم حکمرانوں کے مسلط ھونے میں اسکا خصوصی عمل دخل نظر آتا ھے
آج سے تقریبا ڈھائی سو سال پہلے ملک عزیز ھندوستان میں سفید چمڑی اور سیاہ دل والی ایک قوم داخل ھوئی تھی ظاھرا وہ تاجروں کے بھیس میں محض تجارت کی غرض لئے وارد ھوئے لیکن آھستہ آھستہ ملکی سیاست میں دلچسپی لیتے ھوئے اپنے کریہہ ارادوں کو جسم دینا شروع کردیا کچھ دنوں میں ھی اپنا اصلی رنگ دکھاتے ھوئے اپنی قوت کو طاقت دینا شروع کردی پھر نوبت ایں جارسید کہ ۱۷۵۷ء میں بنگال پر باقاعدہ حملہ کردیا اور نواب سراج الدولہ کو زیر کرکے بنگال کو اپنا زیر نگیں کرلیا بنگال پہ قبضہ کے بعد انکا حوصلہ مزید بلند ھوگیا نصف صدی تک اپنی طاقت کو اور بھی مستحکم کرکے ۱۷۹۹ ء میں سلطان ٹیپو کو شہید کرکے اعلان کردیا کہ "آج سے ھندوستان ھمارا ھے"
یہ قوم انگریز تھی جو پرتگال سے ھندوستان شکار کی تلاش میں آئی تھی ارادہ خطرناک تھا نیت پر فتور کا سایہ تھا حکومت کرنا نشانہ نہیں تھا بلکہ ملک عزیز کو لوٹنا عوام الناس کا خون بہانا اور قتل و غارت کا بازار گرم کرنا تھا ارادہ برا پر مضبوط تھا سو رنگ لایا ھندوستانی عوام پر بھوکے بھیڑیئے کی طرح ٹوٹ پڑے ملک کی عزت تار تار کی عوامی مال پر سانپ بن کر بیٹھ گئے جسموں سے لہو کو چوس چوس کر عوام کو بے حال کردیا دنیا لوٹ لی پھر بھی صبر نہ آیا دین و مذھب کے دامن تک ھاتھ دراز کردیا قریب تھا کہ اسے بھی تباہ برباد کردیتے پر یہ ظلم کی گرم بازاری کب تک.؟
صبر اپنے پیمانہ سے باھر آگیا پھر وہ تہی دست قوم جو قہر و غضب کی مار سے ادھ مری ھوچکی تھی وہ انگڑائی لیکر اچانک اٹھ کھڑی ھوئی ظالم قوم سے آزادی حاصل کرنے کیلئے اکٹھی ھوکر جد وجھد کرنے لگی جگہ جگہ انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کر محاذ قائم کرنے لگی انگنت معرکہ ھوئے کہیں شکست نے مایوسی دی تو کہیں فتح نے حوصلوں کو بلند پرواز دی پھر ۱۸۵۷ ء کی جنگ نے پورے ملک میں نئی روح پھونک دی ملک کا ھر گوشہ مجاھدوں کے نعروں سے گونج اٹھا انگریزوں کی نیندیں ان سے کوسوں دور جا کھڑی ھوئیں یہ سخت اور صبر آزما دور نوے سال تک جاری و ساری رھا اس درمیان انسانیت سسکتی بلکتی آہ و زاری کرتی رھی کسی نے اپنا سہاگ کھویا تو کسی کی عزت تار تار ھوئی کسی کا بھائی شہید ھوا تو کسی نے اپنے باپ کو کھو کر یتیمی کو گلے لگالیا سب کچھ ھوا پر آزادی کی آگ کہیں سے بھی کم نہ ھوئی بلکہ اور بھی شدت اختیار کرگئی باالآخر وہ وقت آھی گیا جس کا شدت سے انتظار تھا گورے اپنا منھ کالا کرکے اس ملک سے راہ فرار اختیار کرگئے پندرہ اگست ۱۹۴۷ ء کو سونے کی چڑیاں شکاریوں کے چنگل سے آزاد ھوگئی
ملک آزاد ھوئے بہتر سال ھوچکے ایک نسل گئی دوسری جانے کی کگار پہ ھے تیسری بھی جوانی کی دھلیز کو پار کرنا چاھتی ھے پر حقیقی آزادی آج بھی حاصل نہیں اقلیتی طبقات آج بھی انہیں ظلم و زیادتیوں کا شکار ھورھے ھیں جو انگریزوں کی ایجاد کردہ ھیں آزادی کا وہ خواب جو ھمارے بزرگوں نے کھلی آنکھوں دیکھا تھا اب بھی شرمندۂ تعبیر نہ ھوسکا ھم ھر سال آزادی کی خوشیاں مناتے ھیں پورا ملک مسرت و شادمانی کا گیت گاتا ھے لیکن بدنیتی کے وہ اثرات جو انگریزوں کے دور میں پیدا ھوئے تھے آج بھی پوری شدت سے جوان ھیں فرقہ پرست طاقتیں اسکو زندہ کئے ھوئے ملک کو انارکی کی طرف لے جانا چاھتی ھیں
مذھبی آزادی انگریزوں کے خودساختہ پیروکاروں کے نشانہ پہ دن بہ دن چڑھتی جارھی ھیں ملک کی آزادی میں سب سے زیادہ قربانیاں پیش کرنی والی قوم آج سوالیہ نشان کے دائرہ میں ھے ملک بدری کا طعنہ آئے دن سننا اور اسکو برداشت کرنا لازمی ھوچکا ھے موب لنچنگ ( Mob Lynching ) کے زریعہ پلانڈ ( Planned ) قتل روز مرہ کا حصہ بن چکا ھے آج مسلمان ملک کے حاشیہ پہ کھڑا ھے قائدوں کی بہتات رکھنے والی قوم ھر قسم کی قیادت سے محروم ھے محرومیوں کی یہ داستان ھماری اپنی لکھی ھوئی ھے اور اس میں رنگ بھرنے کا کام کانگریس نے کیا پچھلے ستر سالہ دور اقتدار میں سب سے زیادہ حکمرانی والی پارٹی کانگریس ھی ھے اور مسلمانوں کی موجودہ زبوں حالی اسی پارٹی کی طرف سے گفٹڈ ( Gifted ) ھے ملک کی آزادی کے بعد علماء کرام سب کچھ کانگریس کے حوالہ کر گوشہ نشینی اختیار کرگئے اور اسی محبت کا پھل آج ھمارے سامنے موجود ھے قوم مسلم کو جتنے نقصانات کانگریس کی منافقانہ ذات سے اٹھانے پڑے شاید ھی کسی اور نے اتنا نقصان پہونچایا ھو کانگریس پر بھروسہ کرنا روز اول سے ھی نقصاندہ رھا پر افسوس ھم نقصان تو اٹھاتے رھے لیکن اسکی بھرپائی کی کوئی مثبت تدبیر اختیار نہ کرسکے اسی کا نتیجہ ھیکہ فرقہ پرست طاقتیں آج بآسانی ھمیں نشانہ بنا لیتی ھیں ظلم و تعدی کا سابقہ دور ایک بار پھر اپنا کریہہ چہرہ دکھانا چاھتا ھے اللہ تعالی ھم سبکو اپنی حفظ و امان میں رکھے
وقت رھتے ھمیں بھی آنکھیں کھولنی ھوگی نہ یہ کہ انفرادی طور پہ ھوش کے ناخن لینے ھونگے بلکہ اجتماعی لحاظ سے بھی بیدار مغزی کا ثبوت دینا ھوگا اور
خصوصا ھمارے خصوصی طبقے کو بھی بیدار ھونا ھوگا اسے خواب غفلت سے باھر نکلنا ھوگا عوام کو صحیح رخ دکھلانا ھوگا مصلحت پسندی کا مخول اتارنا ھوگا میدان عمل میں پنجہ آزمائی کرنی ھوگی تنظیموں کو باضابطہ منظم کرنا ھوگا زمینی سطح پہ اتر کر کام کرنا ھوگا اکابرین کی قربانیوں کو واضح کرنا ھوگا نسل نو کو اسلاف آشنا کرنا ھوگا
تعزیرات ھند کی روشنی میں خود کا دفاع سکھلانا ھوگا انڈین قانون کے تحت اقدام بازی کا حوصلہ دینا ھوگا مصلحت کے نام سے قوم کو بزدل بنانے سے باز آنا ھوگا قوم کے زخموں پہ مرھم رکھنے کے بجائے اسے زخم خوردہ ھونے سے بچانا ھوگا سیاست کا جواب سیاست سے دینا ھوگا سیاسی گروہ بندی کرنی ھوگی نام نہاد جمہوری پارٹیوں کی منافقت کو سمجھنا ھوگا اسکی سرابی دنیا سے خود کو باھر نکالنا ھوگا
یاد رھے یہ افعال قربانیاں بھی وصول کرسکتے ھیں فرقہ پرست طاقتیں اور تنظیمیں اپنا شکنجہ اور بھی سخت کرسکتی ھیں پر یہ قربانیاں بامقصد ھونگی آنے والی نسلیں سکون کی فضاء میں سانس لینگی اپنا بھی ایک سیاسی وجود ھوگا ایجنسیوں میں امن و سلامتی والے افراد ھونگے
پھر وہ وقت آئیگا جب پورا ملک امن و سلامتی کا گہوارہ ھوگا ملک کا ایک ایک گوشہ جنت نشاں ھوگا آزادی کی شہزادی اپنے روئے انصاف کی نقاب کشائی کریگی اے کاش! ھم بھی اس وقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ پاتے اسکے حصول کیلئے خود کو تیار کرپاتےجس وقت کی تمنا ھمارے بڑوں نے اپنے سروں کے عوض کی تھی
ajwadullahph@gmail.com