Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, August 20, 2019

مدرسہ منظر اسلام بریلی کے طلبہ کی دردناک داستان۔!!!

از/ نعیم احمد ایڈوکیٹ۔۔۔/صداٸے وقت۔
=========================
عید قرباں جس میں مسلمان چھک کر گوشت کھاتے ہیں مگر مرکز ایلسنت کے منظر اسلام  کے طلبہ اور رضا مسجد کے امام و موذن اس مقدس دن میں بھی بھوکے رہتے ہیں۔۔سنئے دردناک کہانی اور مرکز اہلسنت کے بے حس پیروں کی اخلاقی و غیر انسانی حرکت کی داستان ایمان سوز۔۔
عید قرباں مورخہ ۱۲ اگست کو دن کے  دو بجے میرا گذر بریلی شریف کے پرانے روڈ بیز بس اڈے سے ہوا۔۔۔۔ایک ہندو کے ہوٹل پر دیکھا کہ کرتہ پائجامہ اور ٹوپی لگائے دو بچے اس ہوٹل پر کھڑے ہیں۔عمر یہی کوئی سترہ سے بیس سال رہی ہوگی۔اس ظالم ہوٹل والے نے ایک گانا لگایا ہوا تھا کہ "ٹوپی والا بھی کہے گا جئے شری رام" اس گانے کے ساتھ ہی وہاں کچھ شرپسند ہندو لڑکے بھگوا کپڑوں میں کھڑے ناچ رہے تھے اور ان دونوں بچوں کا مذاق اڑا رھے تھے۔مجھے بہت غضہ آیا کہ یہ کرتے ٹوپی والے کیوں یہاں کھڑے ہیں؟حمیت دینی میں میں آگے بڑھا اور ان دونوں کو اپنی بائک کے پاس بلاکر خوب کھری کھری سنائیں۔کہ تم جیسے لوگ ہی مسلمانوں کا مذاق بنواتے ہو۔۔
میری ڈانٹ سن کر ان غریب طلبہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور کینے لگے کہ آپ کا پیٹ تو بھرا ہوا ہے اس لئے یہ سب کہہ رہے ہیں۔ہمیں تو یہاں پیٹ کی آگ لائی ہے۔ہم رات سے بھوکے ہیں۔

صبح ناشتہ بہی نھیں کیا۔مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا اور اپنے رویہ پر شرمندگی۔میں نے ان سے پوچھا کہ آج کے دن اور بھوکے؟تمہارا گھر نھیں ھے؟تم کہاں رہتے ہو؟تب انہوں نے بتایا کہ ہم درگاہ اعلیحضرت کے مدرسہ منظر اسلام میں پڑھتے ہیں ۔۔عید کی چھٹی کی وجہ سے مطبخ بند ہے۔ہم دوسرے صوبہ کے ہیں۔مآب لیچنگ کی خبروں اور کانوڑیوں کی خرافات سے ڈر کر سفر کرنے کی ہمت نہ ہوئی سوچا چار پانچ دن کی چھٹیاں ہیں یہیں رک جاتے ہیں۔مگر ہماری یہ بہت بڑی بھول تھی۔عید کی وجہ سے سارے مسلم ہوٹل بند ہیں۔درگاہ پر چائے کی دوکانیں تک بند ہیں۔امید تھی کہ میاں حضرات کے یہاں سے قربانی کا گوشت مل جائے گا تو پکا لینگے لیکن وہاں شاید ان کی قربانیوں کے گوشت کے مستحق ہم سے زیادہ تھے اس لئے ہم محروم رھے ۔مجبورا اس ھندو ھوٹل پر کھانا خریدنے آنا پڑا۔۔یہ سن کر مجھے بہت حیرانی ہوئی۔۔میں نے کہا کہ تمھیں میاں حضرات کے یھاں سے کھانا نھیں ملا؟ اس پر انھوں نے کہا کہ ھمیں ان کے گھروں سے کھانا کیا ملے گا وھاں تو رضا مسجد کے امام اور موذن کو بھی نھیں ملتا۔۔آج کے دن تو وہ بھی بھوکے ھیں ۔۔ہم ان کے لئے بھی کھانا لینے آئے ہیں۔۔میں نے کہا کہ تم لوگ تو کھانے کی فیس بھی دیتے ھو؟
تب تو انھیں تمھارے پیسے ہی سے کھانا دینا ذمہ داری ہے۔۔
میں نے کہا کہ تم نے کسی سے وہاں گوشت مانگا تھا؟انہوں نے جوا ب دیا کہ ہم نے حضرت سبحانی میاں صاحب جو مدرسہ کے مھتمم ہیں ان سے رابطہ کی کوشش کی تو ان کے خادم معین چپراسی نے کہا کہ وہ  بیمار ہیں اور دوا کھا کر سو گئے ہیں۔۔پھر ہم سجادہ نشین حضرت مفتی احسن میاں کے یھاں گئے تو ایک خادمہ نے جواب دیا کہ وہ سو رھے ہیں ۔۔۔

پھر ہم نے منظر اسلام کے ایک مدرس صاحب سے کہا تو انہوں نے سبحانی میاں کے خادم زبیر سے کہہ دیا کہ انہیں قربانی کا گوشت دے دو۔۔زبیر نے کہا کہ ابھی گھر سے لاتا ہوں۔ھم ایک گھنٹے انتظار کرتے رہے مگر وہ نہ آیا۔تو بھوک سے پریشان ہوکر ھم ھندو ھوٹل پر کھانا لینے آئے ہیں۔
ان کی کہانی سن کر مجھے بہت افسوس ہوا۔۔غصہ بھی آیا۔میں نے ان سے منظر اسلام کے پرنسپل مولانا عاقل کا نمبر لیا۔ کافی کال کرنے پر فون اٹھا۔بیزاری بھرے انداز میں جھنجلا کر ہیلو کہا۔۔میں نے ان سے کہا کہ آپ غریب طلبہ سے کھانے کی قیمت لیتے ہو۔۔دس بارہ لاکھ تو فیس جمع ہو ھی جاتی ھوگی۔پھر بھی بچوں کو کھانا نھیں دیتے۔۔جنابنے تڑخ کر جواب دیا کہ ھم چھٹیوں میں کھانا دینے کا پیسہ نھیں لیتے۔۔میں نے کہا کہ کیا فیس کے اعلان میں یہ وضاحت ہوتی ہے کہ ایام تعطیل میں کھانا نھیں ملے گا؟ تو اس پر انھوں نے عربی میں کچھ پڑھا اور کہا ہاں یہ عرفی شرط ہے۔۔میں نے کہا جناب میں جائز و ناجائز نھیں معلوم کررھا ھوں بلکہ صرف ان طلبہ کے بھوکے رھنے کی بات کررھا ھوں۔۔جناب نے غصہ میں فرمایا کہ آپ نے ٹھیکہ لے رکھا ھے۔۔۔؟ میں نے کہا کہ یہ ٹھیکہ تو آپ نے لیا ہے زکات لے کر۔ صدقہ لے کر۔۔اس سے بھی دوزخ نہ بھرا تو غریب طلبہ کا فیس کے نام پر دس بارہ  لاکھ کا خون چوس کر۔۔تو انھیں بھوکا تو مت مارو۔۔؟
اب تو اغصہ میں جلال میں فرمایا کہ ھم نے چھٹیوں میں کھانا دینے کا ٹھیکہ نھیں۔لیا۔۔ان سے کس نے کہا تھا کہ چھٹی میں یھاں پڑے رھیں ۔۔یہ کہہ کر فون کاٹ دیا۔۔۔
طلبہ یہ سب سن کر پریشان ھوگئے۔۔اسی درمیان ایک میرا جاننے والا اخبار رپورٹر بھی وہاں آگیا۔۔میں نے سوچا کہ میڈیا سے ان طلبہ کو روبرو کرادوں۔۔مگر طلبہ ادارے کے خیر خواہ اور وفادار تھے۔۔رونے اور گڑگڑانے لگے کہ مرکز کی بدنامی ہوگی۔۔
میں نے کہا کہ یہی دھائی دے کر تو ان مرکز کے پیروں کو تم لوگوں نے جرائم کرنے اور شریعت کی دھجیام اڑانے پر جری کردیا ہے۔۔مرکز کی عزت نہ اچھل جائے اس کی وجہ سے تم جیسے علما و طلبہ خاموش رھتے ھو اور یہ لوگ دن بدن مذھبی اور اخلاقی جرم کررھے ہیں۔۔کیا مرکز ان موجودہ میاں لوگوں کا نام ہے کہ ان کی پول پٹی کھلنے سے مرکز کی بے عزتی ھوگی؟سنو مرکز صرف سیدنا اعلیحضرت کی ذات کا نام ھے جن کا طریقہ یہ تھا کہ عید کے دن سارے طلبہ کے کپڑے اپنے گھر کے افراد کی طرح بناتے۔۔عیدی کے نام پر جتنے پیسے اپنے بچوں کو دیتے اتنے ھی طلبہ کو دیتے۔۔جوکھانا گھر میں بنتا وھی طلبہ کو بھی کھلاتے۔۔۔
یہ تھی مرکزی شخصیت۔۔۔آج کے ان کے موجودہ اخلاف کی طرح وہ نھیں تھے۔۔یہ تو اتنے ظالم ہیں کہ اپنی مسجد کے امام و موذن تک کو کھانا نھیں دے سکتے پھر ان کی رعایت کیوں؟ ان کے جرائم سے پردہ اٹھ جانے سے ذات اعلیحضرت یا مرکز کی عزت پر کون سا فرق پڑے گا؟اعلیحضرت کا وھی ھے جو ان کے طریقہ۔ان کے فتاوی پر عمل کرے ۔۔صرف خون اعلیحضرت ھونے سے یہ واجب التعظیم نھیں ہوجائینگے۔۔خونی رشتہ صرف نبی کا  معتبر ھے اور کسی کا نھیں۔۔۔
ان کا یہ گھناونا چہرا اس قوم کے سامنے آنا چاھئے جو اپنی زکات و صدقات کا ان طلبہ کے لئے انھیں امین بناتی ہے۔۔
یہی سوچ کر اس مقدس دن جس میں اھل زمین اللہ کے مہمان ھوتے ھیں ان غریب طلبہ کا یہ بھوک نامہ لکھ کر عام کررھا ھوں کہ نشتر لگانے والے کو قاتل نہ سمجھا جائے۔۔
نعیم احمد ایڈووکیٹ
سید پور عمریا
بریلی شریف
بروز عید قرباں ۲۰۱۹