Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, September 27, 2019

ٹیپو سلطان شہیدؒ کے شہر میں چند روز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قسط ششم (6دیں).


از/فضیل احمد ناصری /صداٸے وقت۔
=============================
*مسجدِ اقصیٰ کا تعارف*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گنبدِ سلطانی سے مغرب کی طرف تقریباً 25 قدم کے فاصلے پر ایک مسجد ہے۔ یہی مسجدِ اقصیٰ ہے۔ اس کی تعمیر کا سلسلہ اگرچہ سلطان حیدر علی نے جاری کرایا تھا، مگر تکمیل ٹیپو شہید کے ذریعے ہوئی۔ اس کے اندرونی حصے میں کل چھ صفیں ہیں اور ہر صف میں کم و بیش 35 نمازیوں کی گنجائش۔ پوری مسجد چھ انتہائی موٹے اور چوکور ستونوں پر کھڑی ہے۔ اندر کی چھت گنبد دار ہے۔ مسجد کا برآمدہ زیادہ کشادہ نہیں۔ یہاں دو صفیں لگ سکتی ہیں۔ ستون بھی اندر کی طرح چھ ہی ہیں، مگر ایک موٹے آدمی کی مانند ۔ اندر کی بہ نسبت بہت پتلے اور کشیدہ قامت۔ 

دروازے اتنے اونچے کہ میرے جیسے دو آدمی تلے اوپر کھڑے ہو جائیں تب بھی وہ اونچے ہی رہیں۔ تقریباً آٹھ ہاتھ کے۔ برآمدہ ختم ہوتے ہی صحن کا حصہ شروع ہوتا ہے۔ یہ صحن مشترک ہے۔ آپ اسے گنبد کا صحن کہیں یا مسجد کا، بات ایک ہی ہے۔ مسجد کے عقب میں کافی جگہ چھوٹی ہوئی ہے۔ اس کی چوڑائی 56 قدم ہے۔ عقب میں ایک بڑا سا حوض بھی ہے، نمازی کسی زمانے میں یہیں وضو کرتے رہے ہوں گے، اب مسجد کے دائیں طرف چھوٹے چھوٹے وضو خانے بنائے گئے 
ہیں، یہی نمازیوں کے کام آتے ہ مسجد کا محراب گنبدِ سلطانی کے 
مشرقی اور مغربی دروازوں کے بالکل سامنے ہے۔ آپ گنبد کے مشرقی دروازے پر کھڑے ہوں تو محراب بالکل سیدھ میں نظر آئے گی۔ سلطان ٹیپو کا ایک محل گنبد سے مشرق میں پانچ چھ سو قدم کے فاصلے پر تھا۔ اب کھنڈر کی شکل میں معمولی سی دیوار ہی یادگار رہ گئی ہے۔ محل کا کوئی نشان باقی نہ رہا۔ روایت ہے کہ سلطان شہیدؒ اس محل سے مسجد کی طرف آتے تو گنبد کے مشرقی دروازے پر آ کر محراب پر نظر ڈالتے کہ آیا امام صاحب موجود بھی ہیں یا نہیں؟ اگر موجود نہ ہوں تو وہیں سے گنبد ہو کر اس کے مغربی دروازے سے نکل جاتے اور مسجد میں پہونچ جاتے۔ اور اگر امام صاحب محراب میں نظر آ جائیں تو گنبد کے دائیں طرف سے مسجد کو نکل جاتے۔ اس سے سلطان شہیدؒ کی خدا دوستی اور اہتمامِ نماز کا پتہ چلتا ہے۔ مسجدِ اقصیٰ 1784 میں تعمیر ہوئی۔
*لال باغ کی سیر*
..........................

یوں تو گنبد اور مسجد دونوں احاطۂ لال باغ میں ہیں۔ مگر ان کی زیارت کے بعد پورے احاطے کی زیارت کا اشتیاق پیدا ہوا۔ آپ مسجد کے صحن میں جانبِ مغرب رخ کر کے کھڑے ہوں تو دائیں ہاتھ پر کم و بیش 300 قدم کے فاصلے پر لال باغ کا صدر دروازہ ہے۔ اس احاطے میں آنے کا یہی ایک راستہ ہے۔ اس دروازے سے آپ جوں ہی احاطے میں داخل ہوں گے، دیکھیں گے کہ ایک صاف شفاف سیدھا راستہ مسجد اور گنبد کو چلا جا رہا ہے۔ اسی راستے کے دونوں طرف وسیع و عریض باغات ہیں۔ جگہ جگہ مور پنکھڑی پودے بھی ہیں۔ درخت کافی اونچے اور خوب موٹے موٹے۔ دو چار درخت سلطان ٹیپو کے ہم عصر بھی۔ دونوں طرف چند قبریں بھی ہیں۔ دونوں طرف کے مناظر بڑے دل کش اور جاں فزا ہیں۔ دیکھنے میں مزا تو آتا ہے، مگر جوں ہی سلطان کی یاد آتی ہے سارا مزا کافور ہو جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ باغات ٹیپو شہید کا غم اب تک نہیں بھول سکے۔
*صدر دروازہ*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صدر دروازے کی بات آ گئی تو ذرا اس پر بھی کچھ تبصرہ ہو جائے۔ یہ دروازہ تین منزلہ عمارت کے قریب اونچا ہے۔ اس کے بالائی حصے میں ایک بڑا سا ہال بھی ہے۔ یہی نوبت خانہ ہے۔ یہاں صبح و شام نقارہ بجتا۔ اس دروازے پر ایک جھنڈا بھی نصب ہے۔ معلوم نہیں کب کا ہے؟ 1799 میں ٹیپو جب شہید ہوئے اور جنازہ و تدفین کے لیے لال باغ لایا گیا تو اسی دروازے سے انہیں لے جایا گیا تھا۔ انگریز فوج نے دروازے کے اندر دونوں جانب صفیں لگائیں اور انہیں کے درمیان سے سلطان کی میت گزاری گئی۔ دروازہ اب بھی کھڑا ہے اور پوری آن بان سے، مگر اس پر اداسی کا رنگ بھی غالب ہے۔ شاید وہ یہی سوچ رہا ہے کہ سلطان کب آئیں گے!!
*کمان دار بارہ دریاں*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لال باغ کے احاطے میں چار بارہ دریاں بھی ہیں۔ احاطۂ مسجد اور گنبد کے چاروں طرف۔ انہیں بھی حیدر علی کے حکم پر تعمیر کیا گیا، مگر تکمیل ٹیپو شہید کے ہاتھوں ہوئی۔ یہ چاروں عمارتیں کمان دار ہیں۔ کئی کئی کمروں پر مشتمل۔ یہ دراصل خانقاہ تھی، جہاں مسافرین بھی ٹھہرا کرتے۔ مسجد اور گنبد کے ساتھ ان عمارتوں کی موجودگی کسی بڑے ادارے کا تصور دیتی ہے۔ کوئی خالی الذہن شخص لال باغ کے یہ مناظر دیکھ لے تو اسے محسوس ہوگا کہ کسی درگاہ نہیں،بلکہ مدرسے میں اس کی آمد ہوئی ہے۔ سلطان کی شہادت کے بعد جب سری رنگا پٹنم کے حالات دگرگوں ہوئے اور عوامی بغاوت نے سر ابھارا تو انگریز فوج انہیں عمارتوں میں خیمہ زن رہی اور سات برسوں تک مسلسل۔
اب یہ بارہ دریاں بھی اپنی افسردگی چھپانے سے قاصر ہیں اور ہر آنے جانے والوں کو غور سے دیکھتی ہیں کہ ہمارا جدید ٹیپو کہیں یہی تو نہیں!! مگر اداسی ہے کہ سکڑنے کا نام نہیں لیتی۔
[اگلی قسط میں پڑھیں: سلطان ٹیپو کی شہادت گاہ کی زیارت]