Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, September 24, 2019

قاٸد جمیعتہ کی خدمت میں مٶدبانہ معروضات۔

از: *سید احمد اُنیس ندوی* /صداٸے وقت
=============================
*محترم جناب مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب حفظکم اللہ*  !!!
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
*مزاج عالی* !!!
پچھلے کچھ عرصے سے آنجناب کے بیانات کا جو رُخ ہے, وہ مسلمانان ہند کے لئے بہت تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔ اب تک تو یہی صورت حال رہی کہ آپ کے صفت "سنبت پاترا" سے متصف "معتقدین"  نے آپ کے ہر اسٹینڈ اور بیان کا دفاع کیا اور ہم جیسے نہ جانے کتنے لوگوں نے آپ سے حسن ظن کی وجہ سے زیادہ تر موقعوں پر سکوت کو ترجیح دی اور بہت سے موقعوں پر تاویل و تائید بھی کی۔ *حسن ظن ہم کو ابھی بھی ہے, اور بلاشبہ اعتماد اور محبت بھی, لیکن آپ مسلسل جو رُخ اختیار کر ہے ہیں وہ ملت اسلامیہ ہندیہ کی اکثریت کے نزدیک قابل 
اطمینان نہیں ہے*۔

*اسلامی مزاج یہ ہے کہ یا تو حسب استطاعت "ظالم" کو "ظلم" سے روکا جائے یا پھر "صبر و تقوٰی" اور "سکوت" کے ساتھ "یقیں محکم" اور "عمل پیہم" کا عمومی مزاج بنانے کی کوشش میں لگا رہا جائے۔ لیکن "ظالم" کے ساتھ "کاندھے سے کاندھا ملانے" یا اُن کے موقف کا ہر جگہ "ترجمان" بننے کی گنجائش کسی صورت نہیں ہے۔  یہ تو مزید حیرانی کی بات ہے کہ ایک "خالص دینی تنظیم" کو آخر یہ ذمہ داری کیوں اوڑھنی پڑی کہ وہ ملک اور بیرون ملک ہر جگہ "ارباب حکومت" کی "ترجمانی" کے فرائض انجام دے, اور پوری دنیا کے سامنے "ظلم" کی جو تصویر آ رہی ہے اُس پر اپنے "اسٹینڈ" کے بار بار اعادہ کے ذریعہ پردہ ڈالے اور اُس کی "خطرناکی" کو بہت ہلکا کر کے پیش کرے*۔
" وادئ کشمیر " کی جو صورت حال ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے, آپ نے ایک بار نہیں بار بار وہی سبق دوہرایا جو خود آپ کے بقول آپ پچھلے پچاس سالوں سے دوہرا رہے ہیں۔ تو یہ کون سا نیا کارنامہ ہوا؟ *کیا آپ نے صرف اتنا کہہ کر کہ "وہ تکلیف میں ہیں" اپنی ذمہ داری پوری کر لی ؟ پوری دنیا میں اب تو "غیر مسلم" تنظیمیں تک بھی کُھل کر "ظالموں" کے چہرے کا نقاب اُتار رہی ہیں۔ لیکن ہم کو حیرت ہے کہ آپ نے کسی ایک جگہ بھی "ظالم" کو "ظالم" نہیں کہا۔ البتہ بعض جہتوں سے "ایفاء عہد" کا سبق بار بار دوہریا۔ آپ "جناب" کی خدمت میں حاضر ہوئے تو وہاں کی کارگزاری سن کر بھی ایسا لگا کہ "ملاقاتوں" کی ہوڑ میں یہ بس ایک اضافہ تھا۔ ہم کو حیرت ہوتی ہے کہ حضرت مدنی رحمہ اللہ تعالی سے نسبتِ خاص ہونے کے باوجود آپ اُس "قلندرانہ شان" کو پیش نہیں کر پا رہے ہیں جو حضرت مدنی کا امتیاز تھی۔ آپ کے بیانات کا رُخ بھی عجیب ہوتا جا رہا ہے, کبھی آپ "نظام مصطفیٰ" کو ریجیکٹ کرنے کی بات کہتے ہوئے احتیاط کی حدود سے باہر نکل جاتے ہیں, کبھی "اٹل بہاری" کی شوک سبھا میں حاضر ہو کر اُس  کو "چمن کا دیدہ ور" بتاتے ہوئے اُس کی شان میں قصیدے پڑھتے ہیں, کبھی "اسد الدین اویسی" کو "وارننگ" دیتے نظر آتے ہیں, کبھی "شیواجی اور اورنگزیب" کا ایسا موازنہ پیش کرتے ہیں جو قابل ترین لوگ بھی ہضم نہیں کر پاتے, سیاسی نیتاؤں کی طرح "پڑوس پڑوس" کی تسبیح پڑھتے ہیں اور اب پوری دنیا میں مسلسل " مسئلہ ہذا" پر بس اتنا کہہ کر کہ "وہ تکلیف میں ہیں, ان کے لئے راحت کا انتظام کیا جائے"  اپنی ذمہ داری سے سبکدوشی اختیار کر رہے ہیں۔ *اور آپ کے اس اسٹینڈ پر تو "اورنگزیب" والے مسئلہ میں نیک جذبے سے آپ کا دفاع کرنے والے فاضل مبصر و تجزیہ نگار "مولانا ڈاکٹر یاسر ندیم الواجدی" بھی خاموش نہیں رہ پائے اور جمعیت کی اس پالیسی پر جائز سوالات کھڑے کر دئیے*۔ 
*کسی ایک جگہ بھی آپ نے "ظالموں" کی نشاندی کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ آپ کی خوش قسمتی ہے کہ آپ کو "سنبت پاترا" صفات سے متصف بعض "اہل قلم" دستیاب ہیں جو آپ کی ہر بات کا نا صرف ڈفینڈ کرتے ہیں بلکہ "دن کو رات" اور "رات کو دن" دکھلانے کی صلاحیت سے بھی آراستہ ہیں۔ اور کسی ایک موقعہ پر بھی وہ آپ کی کسی غلطی کو تسلیم ہی نہیں کر پاتے, حالانکہ معصوم عن الخطاء تو صرف انبیاء کرام علیھم السلام ہیں*۔
بعض موقعوں پر مصلحۃً ہم جیسوں نے بھی آپ کے لئے "بے تکی تاویلات" کی ہیں تاکہ آپ کے ساتھ لوگوں کا جو حسن ظن ہے اُس کے کسی بھی درجے میں مجروح ہونے کا ہم سبب نہ بنیں۔ لیکن "حقائق" سے آپ کی مسلسل چشم پوشی اور "منصہ قیادت" پر جلوہ افروز ہونے کے باوجود نہ صرف "اظہار حق" سے فرار بلکہ "کسی نا کسی درجے" میں "ارباب حکومت" کے لئے آپ کا اتنا "آئیڈیل" بننا ہی ملت کے لئے تشویش کا باعث ہے۔ اور اس میں بڑا کردار آپ کے ان بیانات کا ہے جو آپ اس عرصے میں مسلسل نیشنل اور انٹر نیشنل میڈیا پر دے رہے ہیں۔
*محترم ! آپ کی جو نسبت ہے (آپ کے دادا جان رحمہ اللہ تعالی کی) وہ آپ کو اس کی اجازت نہیں دیتی۔ ہمیں آپ کے خلوص اور نیت پر شبہ نہیں, خدانخوستہ اگر آپ کسی زبرست دباؤ میں ایسا کر رہے ہیں تو خدا کے لئے "سکوت" اختیار کیجئے, اور آپ کی جو ماشاءاللہ "مساعئ جمیلہ" ہیں بس خاموشی کے ساتھ اُس میں اپنی ساری توانائ صرف کر دیجئے*۔
آپ کو اللہ تعالی نے جو مقام دیا ہے اُس میں سب سے بڑا دخل آپ کے عظیم دادا جان رحمہ اللہ کی نسبت کا ہے, اللہ کے لئے قدم قدم پر اُس "مرد قلندر" کی مجاہدانہ اور مخلصانہ زندگی کو یاد رکھئے۔ *افسوس کی بات ہے کہ آج کل بڑی بڑی نسبتوں کے حاملین اپنے "دادا" اور "نانا" کی عظیم روایتوں کا پاس و لحاظ نہیں رکھ پا رہے ہیں, اور اپنے طرز عمل سے مسلمانوں کو مطمئن کرنے کے بجائے اُن کو مزید الجھنوں میں ڈال رہے ہیں*۔  اللہ کے لئے اپنے مواقف پر نظر ثانی کیجئے, اور اگر جرأت اور استطاعت ہو تو اُس "ظالم" کو "ظالم" کہئے جس کا ظلم بالکل "عیاں" ہے, *اور اس خوش فہمی میں نا رہئیے کہ یہ آپ سے خوش ہو جائیں گے۔ عالمی پیمانے پر طاغوتی منصوبے بالکل تیار ہیں, "ٹرمپ" ملعون نے اپنے دوست کے سامنے "اسلامی دہشت گردی" کا لفظ یوں ہی نہیں بول دیا* ۔
  " *لتجدن اشد الناس عداوۃ للذین امنوا الیھود و الذین اشرکوا*" کی عملی تشریح سب کے سامنے ہے۔ " *و قال الذین کفروا لرسلھم لنخرجنکم من ارضنا او لتعودن فی ملتنا* " کی تاریخ دوہرائ جا رہی ہے, *ملاقاتوں سے ہو سکتا ہے کچھ وقتی فائدے ہو جائیں لیکن اُن کی "پالیسی" میں کوئ فرق پڑے گا یا "رُخ" میں کچھ نرمی آئے گی یہ بظاہر ناممکن ہے, ماضی کا تجربہ اس پر گواہ ہے۔ جو وقت اِن پالیسی بنانے والوں سے "دعوتی" اور "انسانی" بنیادوں پر ملاقات اور روابط بنانے کا تھا وہ وقت نہ جانے کیوں "کانگریس" کی قربتوں کی نذر ہو گیا*, وہی کانگریس جس کا منفقانہ چہرا سورج کی طرح ظاہر ہے۔
*اس لئے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ "نظمِ عالَم" میں خوشگوار تبدیلی کی ولادت سے قبل یہ دنیا (اور ہمارا ملک) "Labor pain" کے مرحلے سے گزر رہی ہے جس میں بلاشبہ "ماں" کا کردار "امت مسلمہ" کو ہی ادا کرنا ہے, اور اسی ملت کے ذریعہ ہی "عدل و انصاف", "پیار و محبت" پر مبنی "نظام" کو سامنے آنا ہے۔ اس لئے ہم سب کو ان چیلنجیز کے درمیان "خود سپردگی" کے بجائے ملت اسلامیہ کو "صبر و تقوٰی" کے ساتھ ہمہ جہت "صلاحیت و استعداد" سے آراستہ کرنے کی فکر میں لگ جانا چاہئے تاکہ "بلی ان تصبروا و تتقوا و یاتوکم من فورھم, ھذا یمددکم ربکم بخمسۃ آلاف من الملٰئکۃ مسوّمین" کا نمونہ ہم سب دوبارہ دیکھ سکیں۔ اور بلاشبہ آپ اس سلسلے میں بہت سی کوششیں کر بھی رہے ہیں, لیکن اپنے بعض کمزور اور لچر مواقف کی وجہ سے ان کی افادیت کھوتے جا رہے ہیں*۔
امید ہے کہ آپ اپنے اس کمزور  دینی بھائ کی گزارشات پر ضرور غور کریں گے۔ اگر اس تحریر میں کہیں پر کوئ "تیزی" ہے تو اُس کا سبب بخدا صرف ایمانی حمیت ہے۔ باقی معذرت ۔
*فقط و السلام*
*سید احمد اُنیس ندوی*