Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, September 30, 2019

بابری مسجد ملکیت کیس۔۔۔سپریم کورٹ میں مسلم فریق کی بحث آج بھی جاری رہی۔

 ،(نئی دہلی۔ /صدائے وقت/ذرائع۔٣٠ ستمبر ٢٠١٩،
=======================
 بابری مسجد مقدمہ کا عدالت میں آج سنوائی کا۴۳ واں دن تھا،چیف جسٹس رنجن گگوئی کی قیادت میں پانچ رکنی بنچ کے سامنے اپنی بحث کو جاری رکھتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سینئرایڈوکیٹ شیکھر نافڈے نے کہاکہ مہنت، مٹھ اور ہندوں کا نمائندہ ہوتا ہے، اگر کوئی یہ کہے کہ میںکسی مٹھ کا مہنت ہوں تو وہ اس مٹھ کا قانونی نمائندہ ہو گا،اور خود بخودوہ پوجا کرنے والے ہندوں کا بھی نمائندہ بن جائے گا، جسٹس بوبڈے نے شیکھر نافڈے کی اس دلیل سے اتفاق نہیں کیا،جس پر ایڈوکیٹ شیکھر نافڈے نے ان کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ قانون قانون ہے، مہنت مٹھ کا نمائندہ ہی ہوتا ہے،۵۸۸۱ءکے مقدمہ میں جو پارٹیاں نمائندگی کر رہی تھیں وہی اس مقدمہ میں بھی پارٹیاں ہیں ، انہی پارٹیوں نے ۵۸۸۱ ءمیں زمین پر ملکیت کا دعوی کیا تھااور اب بھی ان کا ملکیت کا دعوی ہے اور دعوی بھی اس طرح کا ہے کہ وہ زمین پر مندر تعمیر کرنے کا حق مانگ رہے ہیں، لہذا اس مقدمہ پرres judicata کاقانون لاگو ہوگا، (ریس جیوڈیکیٹا کا مطلب ایسا مقدمہ جو ایک بار فیصل ہو چکا ہو جسے دوبارہ نہیں لایا جا سکتا)،اس بات پر شیکھر نافڈے صاحب کی بحث مکمل ہو گئی۔
اس کے بعد مسلم پرسنل لا بورڈ کے دوسرے وکیل ایڈوکیٹ نظام پاشا نے اپنی بحث کا آغاز کیا ،انہوں نے کہا کہ نرموہی کا مطلب ہوتا ہے بغیر موہ کایعنی جسے کوئی لالچ نہ ہو ، اس کیس میں کوئی مٹیریل نہیں ہے، لہذا نظام پاشا نے سوال کیا کہ نرموہی اکھاڑہ کی جو بھی نظریاتی حیثیت ہو وہ اس مقدمہ کو کیسے لڑ سکتا ہے؟ انہوں نے اپنی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک دوسرے پوائنٹ پر کورٹ کی توجہ مبذول کرائی کہ بابر نے جس وقت مسجد تعمیر کروائی تھی اس وقت وہ حاکم تھا اور اقتدار اعلی اس کے پاس تھا، یہ وہ وقت تھا جب کوئی تحریری دستور موجود نہیں ہوا کرتاتھا،قانون وہی ہوتا تھا جو مقتدر اعلی طے کر دے، بادشاہ کے فیصلہ کو شرعی قانون سے موازنہ کرنا صحیح نہیں ہوگا، قرآن کا قانون بادشاہ کا قانون نہیں تھا ،مسجد میں جو مورتیوں کے نقوش تھے اس کے تعلق سے قرآن کی بنیاد پر یہ تو طۓ کیا جا سکتا ہے کہ وہ گنہگار تھا یا نہیں؟ لیکن اس سے اس کام کی قانونی و شرعی بنیاد پر کوئی حرف نہیں آتا،حقیت کا فیصلہ اس وقت کے قانون کے مطابق ہوگا،ایک بار ملکیت اور حقیت کا مسئلہ طے ہو جائے تب وقف جائداد کا انتظام و انصرام وقف قانون کے مطابق ہوگا۔
کھانے کے وقفہ کے بعد ایڈوکیٹ نظام پاشانے اپنی بحث جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بابر نے جو کچھ کیا یعنی مسجد کی دیواروں پر مورتیوں کے نقش ونگار کی موجودگی اسے حرام کہنا غلط ہوگا، زیادہ سے زیادہ اسے مکروہ کے درجہ میں رکھا جا سکتا ہے، اس سے مسجد کی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا ،اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسلام میں مسجد کی ایک ثقافتی اور سماجی حیثیت بھی ہے ،جہاں پر لوگ جمع ہوتے ہیں، اس کے بعد ایڈوکیٹ نظام پاشا نے مسجد کی دیوار پر کندہ تحریر کے ترجمہ کی غلطی واضح کی اور کہا کہ یہ ترجمہ صحیح نہیں ہے ، اس کا صحیح ترجمہ نوٹ کیا جاناچاہئے ، اس کے بعد انہوں نے کہا کہ ۸۵۸۱ میں جو عرضی مسجد کے متولی نے فارسی زبان میں دی تھی اس کاترجمہ بھی غلط ہے ،اس پر عدالت نے کہا کہ اس کا آپ آفیشیل ترجمہ داخل کریں۔
اس کے بعد ہندو فریق کی طرف سے سینیر ایڈوکیٹ پاراسرن نے رام للاکی طرف سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ قانونی شخصیت (JURISTIC PERSONALITY)کو ہندو قانون کی روشنی میں ہی دیکھا جائے گا ،ہندو قانون کی مثالوں اور نظیروں کی روشنی میں قانون کی تعبیر کی جاتی ہے اور اسی بنیاد پر وہ پھیلتا اور نشو و نما پاتا ہے ،ایڈوکیٹ پاراسرن نے بطور مثال انور علی سرکار کے کیس میں جسٹس وپن بوس کے فیصلہ کو پیش کیا، اس کے بعد ایڈوکیٹ پاراسرن نے ہندو مذہب کی فطرت پر گفتگو کی اور کہا کہ ہندو مذہب میں خدا کا تصور ایک اعلی ہستی کا تصور ہے ،البتہ اس کی پوجا الگ الگ مندر میں الگ الگ پیرائے میں ہوتی ہے ،ایڈوکیٹ پاراسرن سے جسٹس بوبڈے نے سوال کیا کہ کیا مند رکی زمین JURISTIC PERSONALITY ہوگی؟ اور کس طرح ہوگی؟ اس کا جواب دیجئے، پاراسرن نے کہا کہ اس کا جواب میں کل دوں گا ، اس پر آج بحث ختم ہو گئی ۔

آج کی بحث کے دوران مسلم فریقوں کی طرف سے ڈاکٹر راجیودھون کے علاوہ آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈ کی سینئر ایڈوکیٹ میناکشی اروڑہ ، سینئر ایڈوکیٹ جناب شیکھر نافڈے ،بورڈ کے سکریٹری سینئر ایڈوکیٹ ظفریاب جیلانی صاحب اور ایڈوکیٹ نظام پاشاموجود تھے ، اسی طرح بورڈ کے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ کے طور پر ایڈوکیٹ شکیل احمد سید، ایڈوکیٹ ایم آر شمشاد، ایڈوکیٹ اعجاز مقبول ، ایڈوکیٹ ارشاد احمد اور ایڈوکیٹ فضیل ایوبی بھی موجود رہے، ان کے علاوہ ان کے جونیئر وکلاءبھی موجود تھے۔