Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, September 23, 2019

تو پھر عوام ان پر اندھا اعتماد کیوں کریں ؟

از/ابو فہد/صداٸے وقت۔
=============================
جب چچا بھتیجوں کی نہیں بن سکی اور وہ دونوں اپنے اپنے حواریوں کے لے کرایک دوسرے سے  الگ ہوگئے۔ جب مسند درس  پر بیٹھے ہوئے لوگوں کی آپس میں نہیں بن سکی اور ان میں سے ایک گروہ نے اپنی الگ کٹیا بنالی یا اسے بنانے پر مجبور کردیا گیا۔ جب بورڈ تین ٹکڑوں میں بٹ گیا اور جب اللہ کی راہ میں  ہزاروں کلومیٹر چلنے پھرنے اور اللہ کے سامنے کھڑے ہوکر رات رات بھر رونے دھونے والوں کی آپس میں نہیں بن سکی اور محض سو سال کے عرصے میں ہی دو متوازی اور ایک دوسرے کے حریف بلکہ شدید مخالف گروہ بن کر ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوگئے.............. یعنی جب  امت کے  پوائینٹ 2 پرسنٹ بلکہ اس سے بھی  کم افراد ایک ساتھ نہیں رہ سکتے، چل سکتے تو پھر امت کے باقی افراد یعنی بیس پچیس کروڑ افراد سے جن میں بیشتر  پڑھے لکھے بھی نہیں  ہیں ، ان سے یہ توقع کیوں کی جاتی ہے کہ وہ متحد ہوجائیں ، ایک ساتھ کھڑے ہوں اورمل 
جل کر رہیں۔
اور جب  ہمارے سیاسی رہنما اور خاص طور پر مذہبی رہنما اس طرح کی  شدید جھگڑالونفسیات کے ساتھ جیتے ہیں کہ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے ہیں، کرسیوں اور عہدوں کے لیے دوڑ دھوپ کرتے ہیں اور جو کرسیوں تک پہنچ گئے ہیں وہ تاحیات ان سے چپکے رہنا چاہتے ہیں ، جب  یہی لوگ محبت کی راہ اور الدین النصیحہ کی نصیحت پر نہیں چلتے، جب خود انہی کے اندر معاصرانہ چشمک ہے بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ لوگ ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھال رہے ہیں تو پھر امت سے یہ توقع کیوں کی جاتی ہے کہ وہ ان کی رہنمائی قبول کرے گی اور ان سے عقیدتیں وابستہ رکھے گی۔ایسی صورت حال میں امت اِن کی طرف کیوں دیکھے، اِن کی طرف کیوں آئے اور کیوں ان سے عقیدت رکھے؟  دشمن کا خوف اپنی جگہ اور دشمن کی یہ کوشش اپنی جگہ کہ وہ امت کو منتشر کرنا چاہتا ہے، امت اور قیادت کے درمیان گہری کھائی کھودنا چاہتا ہے  اور خود قیادت کو اس سطح پر دیکھنا اور رکھنا چاہتا ہے کہ وہ کئی ٹکڑوں میں منقسم رہے اور اس طرح رہے کہ ہر گروہ دوسرے کا مخالف ہو اور سب کے سب ایک دوسرے کے ساتھ برسر جنگ ہوں .. دشمن کی یہ خواہش اور کوشش اپنی جگہ مگر پھر بھی امت  ان  رہنماؤں پر اندھا اعتماد کیوں کرے۔ آخر ان رہنماؤں کی بھی تو ذمہ داری تھی  کہ یہ امت میں اعتماد اور بھروسے کی فضا پیدا کرنے کے لیے کچھ عملی کوششیں  کرتے۔ یہ خود متحدکیوں نہیں ہیں،آخرکہیں نہ کہیں سے تو یہ نمونہ سامنے آتا کہ فلاں مذہبی لیڈر نے محض امت میں انتشار پھیل جانے کی خوف سے، ادارہ برباد ہوجانے کے ڈر سےاور جماعت کے حصے بکھرے ہوجانے کے اندیشے سے اپنی ضد اور انا چھوڑ دی اور وہ کرسی سے الگ ہوگیا۔ آخر کہیں نہ کہیں  اور کسی نہ کسی درجے میں تو یہ نمونہ سامنے آنا چاہئے تھا۔آخر کہیں تو شبلی کے کردار کو نبھایا گیا ہوتا۔ آخر کہیں سے تو یہ آواز آتی کہ مجھے عہدے کی فکر نہیں مجھے ادارے کی فکر ہے، مجھے اپنے مسلک کی فکر نہیں مجھے امت کی فکر ہے۔آخر جب ہمارے قائد ین عام لوگوں کی نفسیات کی سطح پر جیتے ہیں، بلکہ ان سے بھی گزر کر عہدے اور کرسی کے لیے لڑتے ہیں ، تو پھر عوام  ان کے ساتھ  وابستگیاں کیوں رکھے،کیوں انہیں لیڈر مانے اور کیوں ان پر اندھا اعتماد کیوں کرے۔؟؟
ابوفہد