Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, September 23, 2019

بھرے بزم میں راز کی بات کہدی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مسلم قیادت کا مایوس کن اور بزدلانا رویہ۔


✍شمیم خان غازی پوری/صداٸے وقت/عاصم طاہر اعظمی۔

============================
( ۵ اگست ۲۰۱۹ کو یہ فیصلہ لیا گیا تھا ۔آج ۲۱ ستمبر ۲۰۱۹ ہے  دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵ اے کے ختم ہوے46روز گزر گئے ہیں )
                                                                                  
دفعہ 370اور 35اے کیا ہے؟اس کی حقیقت سے تمام ذی شعور بخوبی واقف ہیں باوجود اس کے چند چیزیں قابل ذکر ہیں.

آئین ہند کا دفعہ 370 ایک خصوصی دفعہ ہے جو ریاست جموں و کشمیر کو جداگانہ حیثیت دیتا تھا ۔ یہ دفعہ ریاست جموں و کشمیر کو اپنا آئین بنانے اور اسے برقرار رکھنے کی آزادی دیتا تھا جبکہ زیادہ تر امور میں وفاقی آئین کا نفاذ  جموں و کشمیر میں ممنوع تھا۔ اس خصوصی دفعہ کے تحت دفاعی امور، مالیات، خارجہ امور وغیرہ کو چھوڑ کر کسی اور معاملے میں متحدہ مرکزی حکومت مرکزی پارلیمان اورریاستی حکومت کی توثیق و منظوری کےبغیرہندوستانی  قوانین کا نفاذ ریاست جموں و کشمیر میں نہیں کر سکتی تھی  دفعہ 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو ایک خصوصی اور منفرد مقام حاصل تھا ۔ ہندوستانی  آئین کےجو دفعات و قوانین دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتے ہیں وہ اس دفعہ کے تحت ریاست جموں و کشمیر پر نافذ نہیں کیے جا سکتے تھے ۔
آرٹیکل 370 کے خاتمے کے ساتھ ہی صدارتی حکم کے تحت اس میں شامل کیا جانے والا آرٹیکل 35 اے بھی ختم ہو گیا ہے جس کے تحت ریاست کے باشندوں کی مستقل پہچان ہوتی تھی  اور انهیں خصوصی طور پر شہری حقوق ملتے تھےاس قانون کی رُو سے جموں و کشمیر کے حدود سے باہر کسی بھی علاقے کا شہری ریاست میں غیرمنقولہ جائیداد کا مالک نہیں بن سکتا تھا، یہاں سرکاری نوکری حاصل نہیں کرسکتا اور نہ کشمیر میں آزادانہ طور  پر سرمایہ کاری کرسکتا تھا ۔
تاہم اب کسی بھی انڈین شہری کو یہ تمام حقوق حاصل ہوں گے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے  دفعہ ۳۷۰ میں یہ کہا گیا ہیکہ president (صدر جمہوریہ )سنویدھان کے دھاراوں کو بدل سکتے ہیں.لیکن ریاست جموں کشمیر کے  سرکار کی رضامندی ضروری ہوگی. اور آپ جانتے ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر میں پچھلے کئی مہینوں سے پی ۔ڈی ۔پی اور بی ۔جے ۔پی کی alliance(متحدہ سرکار) ختم ہو گئی ہے اور وہاں  राष्ट्रपति शासन لاگو ہے  اور اس حالت میں سارے اختیارات گورنر کے ہاتھ میں ہوتےہیں اور گورنر یا راجیہ پال مرکزی حکومت کے ترجمان کےطورپر ہوتے ہیں. اور صدر جمہوریہ کے حکم پر یہ فیصلہ ہوا ہے اور صدر جمہوریہ بہی مرکزی حکومت کا ہی نمائندہ ہوتا ہےتومعلوم یہ ہوا کہ یہ فیصلہ ریاست جموں و کشمیر کے سرکار کی مرضی اور رضامندی کے بغیر لیا گیا ہے ۔جو کی असंवैधानिक (غیر قانونی )ہے ۔    
بہرحال جس طرح بھی ہوا سرکار نے اپنے پاور اور عقل کی بنیاد پر اسکو legally پاس کرا دیا ۔
*لیکن*
پچھلے46دنوںسےکشمیر میں جس طرح انسانیت کو پامال کیا جا رہا ہے،قتل وغارت گری کی جا رہی ہے،کشمیریوں کی  عزتیں لوٹی جا رہی ہیں،عورتوں کوبیوہ اوربچوں کو یتیم کیا جا رہا ہے،اور انہیں انسان کی بنیادی ضروریات سے محروم رکھا گیا ہے ۔ communication(گفتگو) کے سارے resources (وسائل )بند کر دے گئے ہیں  حالت یہ ہو گئی ہیکہ اگرکسی کا انتقال ہو رہا ہے تو گھر کے ہی کسی حصے میں تدفین کی جا رہی ہے، اس ظلم و ستم کو دیکھ کر پوری دنیا سے  لوگ دکھ کا اظہار کر رہے ہیں، IAS officer kannan gopinathan ne کشمیریوں پر ہو رہے مظالم کو دیکھ کر یہ کہتے ہوئے استعفی دے دیا کہ مجھ سے پوچھا جایگا کہ جب کشمیر میں بنیادی حقوق کی حق تلفی ہو رہی تھی تو تم کیا کر رہے تھے تو میں کہ دونگا کی میں نے استعفے دے دیا تھا، امریکا اور کئی ملکوں میں اس کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے،وزیراعظم کےخلاف احتجاج ہی نہیں بلکہ امریکا  میں ایف ۔ای ۔اربهی سکھ سماج کے لوگوں نے درج کرایا ہے ۔

لیکن ایسے وقت میں جبکہ امت کا ایک بڑا طبقہ پریشانیوں سے دوچار ہے.کشمیر جیسے جنت نما حسین مناظر میں دوزخ جیسے ہولناک عذاب میں مبتلا ہے.
اس صورت حال میں ہم مسلم قیادت پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں.
کروڑوں کروڑ کے جلسے جلوس کرنے والے، براک اوباما اور ٹرمپ اور شیخ حسینہ اور عمران خان کے اسٹیٹمنٹ پر بیان دینے والے،   بظاہراخوت و محبت کی بات کرنے والے، قومی یکجہتی کے پروگرام کرکے لالی پاپ دینے والے، ظالم حکومت کی غلط پالیسیوں پر تائید کرنے والے، ظالم کے ظلم و ستم سے ڈر کر اسکے سامنے گھٹنے ٹیکنے والے،
بتاؤ تمہیں کشمیریوں پرہورہے مظالم نہیں دکھتے؟
کشمیریوں کی  چیخ و پکار نہیں سنائی دیتی؟
کشمیری ماؤں بہنوں کی عزتیں داغدار کی جا رہی ہیں تمہیں یہ ساری چیزیں نہیں دکھتیں؟
کیا تم سے قیامت کے دن نہیں پوچھا جایگا کہ جب کشمیر پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے تو تم کہاں تھے؟
ارے ہم سے اچھے تو وہ ہمارے غیر مسلم بهائی ہیں جو انسانیت کے لیے مذہب سے اوپر اٹھ کر دنیا کے الگ الگ حصوں میں احتجاج کررہے ہیں، جو کشمیریوں کے حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں ،
ہماراایمان اس قدر کمزور ہو گیا ہے یا ہماری غیرت اس قدر مرگئی ہے کہ ہمیں اپنے بهائیوں پر ہو رہے مظالم نہیں دکھتے؟
ہم تو اس نبی کے ماننے والے ہیں جنهونے ظالم کے سامنے حق بیانی کی؛
ہم اس قوم وملت سے تعلق رکھنے والے ہیں جو صرف اللہ سے ڈرتی ہے؛
یاد رکھو جب مؤرخ تاریخ لکھیگا تو اس بات کاذکرضرور کریگا کہ جب کشمیر جل رہا تھا تو مسلم قیادت احتجاج اور بھوک ہٹتال آور دھرنا پردرشن  تو دور سرکار کی غلط پالیسیوں کی تائید کر رہی تھیں اور آرام پر سکون نیند لے رہی تهیں،پریشان حال کشمیریوں کے زخم پر جب مرحم رکهنے کا وقت آیا تو حکومت اور آر ایس ایس کے تلوے چاٹ کر مظلوم کشمیریوں کے زخم پر نمک چهڑک رہی تهیں.    
                                                   
میرا سوال ہے انلوگوں  سے جو کہتے تھے  ہاں میں کانگریسی تها اور ہوں اور رہونگا اور عرصہ دراز سے معاشرے کو بی ۔جے ۔پی سے ڈرا کر  کانگریس کے پرچار کرتے رہے ۔
بتاؤ سچر کمیٹی کی رپورٹ کب آئ؟
کندو کمیٹی کی رپورٹ کب آئ؟
رنگناتھ مشرا کمیٹی کی رپورٹ کب آئ؟
محمود الرحمان کمیٹی کی رپورٹ کب آئ؟
نیشنل سیمپل سروے کب آیا ؟
اور متعدد رپورٹ آئ جسمیں یہ کہا گیا ہیکہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بہی بدتر ہے ۔یہ ساری رپورٹیں یو ۔پی ۔اے ون اور یو ۔پی ۔اے ٹو میں آئی تهیں.
اس وقت یہ کانگریسی قائد کہاں تهے؟ کہتے کانگریس سے کہ مسلمانوں کو ریزرویشن دیا جائے کیونکہ ہندوستانی آئن کےدفعہ ۱۵ میں اس بات کا ذکر ہے کہ مملکت پسماندہ طبقات کی ترقی کے لئے خصوصی انتظام کر سکتی ہے ۔آپنے اپنی چہیتی پارٹی سے مطالبات کیے نہیں اور اگر کیے اور اسکو نہیں مانا گیا تو کبھی بھی اس بات کا اظہار نہیں کیا کہ سرکار میری بات یا میرے مطالبات نہیں مان رہی ہے ۔اور اب ایک ایسی ظالم حکومت سے مطالبات کر رہے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں جس پارٹی کی آپنے کھل کر مخالفت کی تهی ۔اس سے کیاسمجھا جائے ۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ گجرات کے فسادات کو نہیں بهلایا جا سکتا تو اچهی بات ہے ماضی کو نہیں بهلایا جا سکتا. لیکن آپکو ملیانہ ہاشم پورہ بهی یاد کرنا ہوگا، مرادآباد بهی یاد کرنا ہوگا، بھاگلپور بھی یاد کرنا ہوگا، مظفر نگر بھی یاد کرنا ہوگا، بٹلہ ہاؤس بھی یاد کرنا ہوگا، اور ان لاکھوں لوگوں کو یاد کرنا ہوگاجن کو کانگریس کی سرکار نے غلط مقدمات میں پهنسا کر سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا ۔
*پولس کا کردار*
نا صرف ہندوستان بلکہ تمام جمہوری ملکوں میں فسادات کے وقت سب سے اہم کردار پولس کا ہوتا ہے پولس میں مسلمانوں کی فیصد کیا ہے آپ نے اس کے بارے میں کیا کیا ؟

کون سی پالیسی بنائی؟
کیا مسلم قیادت صرف اسلیے ہیکہ فسادات کے بعد ریلیف کیمپ لگائے؟
یا سلاخوں کے پیچهے دیش دروہی کے جهوٹے الزام میں گرفتار ہزاروں مسلمانوں میں سے چند کے کیس لڑ کر واہ واہی لوٹی جائے؟
کیا اسی کو قیادت کہتے ہیں؟ اس سے اپکی ذمےداری ختم نہیں ہو جاتی ۔ حضرت مولانا علی میاں ندوی کا قول یاد آتا ہے جسمیں حضرت فرما تے ہیں کہ ہندوستان کےسارےمسلمانوں کو نمازی ہی نہیں تہجد کا پابند بنا لو لیکن اگر تمہارے اندر سیاسی لیاقت نہیں ہے تو آ نے والے وقت میں فرض نماز سےبهی روک دیا جایگا ۔لہذا ضرورت اس بات کی ہیکہ ایک اپنا لائحہ عمل تیار کریں اپنی پالیسی بنائیں کیونکہ پچھلے ۷۰ سالوں سے جو so called secular بننے کی کوشش کی گئی وہ ناکام رہی جو پالیسی اپنائی گئی وہ آخری درجے کی ناکام پالیسی تهی .جیساکہ ایک طرف یہ اعلان کی جاتاکہ ہمارا سیاست سے کوئ تعلق نہیں ہے خود کی تنظیم میں عہدے کے لیے اتنی گندی سیاست رچی جاتی ہے کہ سیاست بهی شرما جائے.
اس لیےہمیں غور و فکر کرنے اور اپنے ایمان کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا ایمان کس درجہ کا رہ گیا ہے اگر ہم اپنے ہاتھوں سے ظلم کو نہیں روک سکتے تو زبان سے بول تو سکتے ہیں بیان تو دے سکتے ہیں سوشل میڈیا پر لکھ تو سکتے ہیں.ایمان کا تقاضا تو یہ ہیکہ اگردنیا کے کسی حصے میں کسی خطے میں ایمان والوں پر ظلم ہوتا ہے تو ہمیں اسکا احساس ہونا چاہئے کشمیری تو ہمارے وطنی ایمانی اسلامی بهائی ہیں۔
ابهی کل کی بات ہے کشمیر اور nrcکو لیکر کچھ لوگوں نے امت شاہ سے ملاقات کی ہے .اس ملاقات کی رپورٹ سے یہ صاف ظاہر ہورہا هیکہ کشمیر مدے کو لیکر قوم کی جاگرکتا کو دیکهتے ہوئے امت شاہ سے سمجهوتے جیسی ملاقات کرکے صرف ملت کو تهپتهپی دی جارہی ہے.
اگرواقعتا یہ کشمیریوں کے لیے ملاقات کرتے تو وہاں کشمیر میں قید بچوں کے بارے میں سوال کرتے.
کشمیریوں سے اتنے بڑے فیصلے پر رائے کیوں نہیں لی گئ اس پر سوال کرتے.
کشمیر میں 25لاکه لوگ تقریبا 40لاکه موبائل اور فون استعمال کررہے تهے .اتنی بڑی تعدادکا صرف 1000 فون لگوانے سے کیسے حل نکل سکتاہے؟
بہت سے ایسے بنیادی سوال تهے جو فیس ٹو فیس ہونے چاہیے تهے .تو صرف جی حضوری ہوئ ہے .اس ملاقات سے کشمیریوں کا کیا بهلا ہوگیا ہے کوئ بتادے.
*شمیم احمد*