Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, September 23, 2019

ٹیپو سلطان شہیدؒ کے شہر میں چند روز !!!.......قسط سوم۔


✏ فضیل احمد ناصری/صداٸے وقت۔
=============================
*گنبدِ سلطانی کا تعارف*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس گنبد میں ٹیپو سلطان شہیدؒ آرام فرما ہیں اسے *گنبدِ سلطانی* کہا جاتا ہے۔ یہ گنبد بڑا ہی پر شکوہ ہے۔ اس کی تعمیر خود شہید مرحوم نے کرائی تھی۔ یہ گنبد جس احاطے میں واقع ہے، اسے لال باغ کہا جاتا ہے۔ یہ جگہ ٹیپو شہید کے والد سلطان حیدر علی کو بہت پسند تھی۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کی قبر یہیں بنے۔ اتفاق یہ کہ جس وقت ان کے والد کا انتقال ہوا، وہ کسی محاذ پر تھے۔ جنازے میں بھی شریک نہ ہو سکے۔ لوگوں نے قریب ہی کہیں دفنا دیا تھا،  چند ماہ بعد ٹیپو مرحوم جب محاذ سے واپس آئے تو ان کا جسدِ خاکی وہاں سے نکلوا کر لال باغ میں دفن کیا۔ اسی قبر پر یہ خوشنما گنبد تعمیر ہوا۔ سلطان حیدر علی کا وصال 1782 میں ہوا تھا۔

1790 میں ان کی والدہ فاطمہ فخرالنسا کی وفات ہوئی تو اسی گنبد میں حیدر علی کے مشرقی جانب ان کی تدفین عمل میں آئی۔ سلطان ٹیپوؒ نے والد کی قبر سے جانبِ مغرب ایک قبر کی جگہ اپنے لیے چھوڑ دی تھی۔ 1799 میں جب ان کی شہادت ہوئی تو ان کی خواہش کے مطابق انہیں اسی جگہ پر دفن کیا گیا۔
یہ تینوں قبریں لوہے کی ریلنگ سے گھری ہوئی ہیں۔ میں نے قبریں دیکھیں تو ان پر رنگین اور منقش چادریں نظر آئیں۔ ریلنگ کے اندر مٹی یا پتھر کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ چادروں سے پوری طرح ڈھکی ہوئی۔ ٹیپوؒ کی قبر پر شیر کی کھال جیسی منقش چادر تھی، جو ان کے لقب *شیرِ میسور* کی طرف اشارہ کر رہی تھی۔ گنبد کا اندرونی حصہ بڑا خوب صورت اور نقش نگاری سے عبارت ہے۔ معماروں نے اس کی تعمیر میں بڑی لطافت سے کام لیا ہے۔ چابک دستی اور فن کاری اس کے ہر نقش سے عیاں ہے۔ گنبد تین منزلہ عمارت کے قد کے برابر ہے۔ اس میں داخلے کے تین دروازے ہیں۔ جب آپ مسجدِ اقصیٰ سے گنبد کی طرف چلیں گے تو سامنے کے دروازے پر سلطان ٹیپو کی قبر ملے گی۔ یہاں باہر کی طرف چوکھٹ کے اوپر یہ قطعہ لکھا ہے، معلوم نہیں کس کا ہے؟

آں سیدِ شہدائے عرب سبطِ نبیؑ
لختِ جگر فاطمہؓ و جانِ علیؓ
از فاطمہ و حیدرِ دکنی ٹیپو
سلطانِ شہیداں شدہ از جانِ دلی
وہ (سیدنا حضرت حسینؓ) سیدالشہدا تھے، نبیﷺ کی نسل میں اور حضرت علیؓ و فاطمہؓ کے فرزند۔ (ہندوستان میں) فاطمہ اور حیدرِ دکنی کے فرزند سلطان ٹیپو بھی قلبی خواہش سے شہیدوں کے سلطان بنے۔
اس دروازے کے دائیں طرف دیوار پر یہ اشعار بھی کندہ ہیں جو سلطان کے والد حیدر علی کی وفات پر میر حسین علی کرمانی نے خونِ جگر سے لکھے تھے:
زہے گنبدے کز شکوہے بنا
فلک زیرِ دستش بود در علو
تو خواہی مہ و خواہ خورشید خواں
فلک داغ گردید از رشکِ او
بود شمسہ اش نورِ چشمِ فلک
قمر یافتہ ضوءِ تعلیم ازو
تراوش کناں بحرِ رحمت زخاک
گروہے ز کرّوبیاں کرد او
سحرگہ پئے کسبِ فیض و شرف
گزشتم ازیں خواب گاہِ نکو
چوں ایں مضجعِ تازہ آمد بچشم
نمودم چوں روحانیاں جست جو
کہ ایں شاہِ آسودہ را چیست نام
چہ تاریخِ رحلت نمودہ است او
یکے زاں میاں گفت تاریخ و نام
کہ حیدر علی خاں بہادر بگو
ترجمہ: یہ گنبد کیا ہی خوب ہے! اس کی تعمیر کی بلندی سے آسمان بھی اس کے نیچے آ گیا۔
حیدر علی کو تو چاہے چاند کہہ یا سورج کہہ، اس پر رشک نے آسمان کو داغ دار تو کر ہی دیا۔
اس کی روشنی آسمان کی آنکھ کی روشنی تھی۔ چاند نے روشنی بکھیرنے کی تعلیم اسی سے پائی۔
اس نے زمین میں رحمت کا سمندر جاری کیا۔ ایک جماعت اسے فرشتوں میں سے مانتی ہے۔
صبح کے وقت فیض و فضیلت حاصل کرنے کے لیے میں اس بہترین خواب گاہ سے گزرا۔
جب یہ تازہ خواب گاہ میری آنکھوں کے سامنے آئی تو میں اہلِ دل کی طرح اس جستجو میں پڑ گیا۔
کہ اس آرام فرما بادشاہ کا نام کیا ہے اور اس کی تاریخِ وفات کیا ہے؟
اسی درمیان ایک صاحب نے مجھے اس کا تاریخ اور نام بتایا کہ اسے حیدر علی خاں بہادر کہو!
*دروازے کے بائیں طرف*
جب دروازے کے دائیں یہ خوب صورت، معنیٰ آفریں اور درد ناک اشعار پڑھ لیے تو بائیں طرف کے ان اشعار نے بھی اپنی توجہ کھینچ لی:
ٹیپو سلطاں شہید شد ناگاہ
خونِ خود ریخت فی سبیل اللہ
بود ذی قعدہ بست و ہشتم آں
شدہ در روزِ شنبہ حشر عیاں
میر سالش بہ نیم آہ بگفت
نورِ اسلام و دیں ز دنیا رفت
تاریخ گشتہ کشتنِ سلطانِ حیدری
ٹیپو بوجہِ دینِ محمد شہید شد
چوں آں مردِ میداں نہاں شد ز دنیا
یکے گفت ‌‌" ‌‌تاریخِ شمشیر گم شد"
روحِ قدسی بہ عرش گفت کہ آہ
نسلِ حیدر شہیدِ اکبر شد
ٹیپو سلطان اچانک شہید ہو گئے۔ انہوں نے اپنا خون اللہ کے راستے میں بہا دیا۔
یہ محشر جیسا منظر سنیچر کے دن اور 28 ذی قعدہ کو دیکھا گیا تھا۔
میر حسین علی نے سرد آہ کھنیچ کر ان کی تاریخِ وفات لکھی۔ کہ اسلام اور دین کا نور دنیا سے چلا گیا۔
سلطان حیدری کی تاریخِ شہادت اس مصرعے سے نکلتی ہے:
ٹیپو بوجہِ دینِ محمد شہید شد
یعنی ٹیپو نے دینِ محمد کی خاطر جامِ شہادت نوش کیا۔
جب وہ مردِ میدان دنیا سے روپوش ہو گیا تو ایک شخص نے اس کی تاریخِ وفات اس طرح لکھی:
تاریخِ شمشیر گم شد
یعنی تلوار کی تاریخ ہی گم ہو گئی۔
جبریلِ امین نے اللہ سے کہا کہ آہ! حیدر کی اولاد شہیدِ اکبر ہو گئی۔
یہ اشعار بھی میر حسین علی کرمانی کے ہیں اور ٹیپو سلطان کی شہادت پر کہے گئے ہیں۔ ان اشعار میں کتنا درد ہے! کتنا کرب پوشیدہ ہے! اسے وہی شخص محسوس کرے گا جس نے ٹیپو شہیدؒ کی مجاہدانہ زندگی کا مطالعہ کیا ہو۔ میں تو جتنی بار انہیں پڑھتا ہوں رو دیتا ہوں۔ باپ بیٹوں کی تاب ناک داستان آگے بیان کروں گا۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔
[اگلی قسط میں پڑھیں: گنبد کے دوسرے دروازوں کا معائنہ]