Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, September 24, 2019

ٹیپو سلطان شہیدؒ کے شہر میں چند روز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قسط چہارم۔

✏ فضیل احمد ناصری /صداٸے وقت۔
=============================
*مزار کے دائیں دروازے پر*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گنبدِ سلطانی کا دوسرا دروازہ دائیں طرف ہے۔ یہاں برآمدے میں پانچ قبریں بھی ہیں۔ ان میں ٹیپو شہیدؒ کے جاں باز سپاہی اور کئی رشتے دار دفن ہیں۔ دروازے کی پیشانی پر دیکھا تو اس پر یہ قطعہ درج تھا:

در ملکِ حجاز از علیِّ حیدر
مفتوح شدہ ہفت قلاعِ خیبر
زیں حیدرِ دکنی دُوَلِ کرناٹک
گشتند مطیع یک خدیوِ کشور
ترجمہ:
ملکِ حجاز میں حضرت علیؓ کی کوششوں سے خیبر کے سات قلعے فتح ہوئے تھے۔
اس دکنی حیدر کے ہاتھوں کرناٹک کے علاقے ایک ملک کے سلطان کے اطاعت گزار ہوگئے۔
*مشرقی دروازے پر*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب ہم گنبد کے مشرقی دروازے پر تھے۔ یہاں برآمدے میں تین قبریں تھیں، ان میں سلطان ٹیپو کی رضاعی ماں کی قبر بھی تھی۔ دروازے کی جبین پر یہ قطعہ لکھا تھا:
از فاطمہؓ زوجۂ علیؓ شیرِ خدا
شد سبطِ نبیؑ سیدِ شہدا پیدا
ایں فاطمہ زاد از علیِّ حیدر
ٹیپو سلطاں کہ گشت شاہِ شہدا
ترجمہ: شیرِ خدا حضرت علیؓ کی بیوی حضرت فاطمہؓ سے نبی ﷺ کی اولاد سیدِ شہدا حضرت حسینؓ پیدا ہوئے۔
اور اِس فاطمہ نے علی حیدر کے توسط سے ٹیپو سلطان کو جنم دیا، جو شہیدوں کے 
سلطان بنے۔

*جنوب کی طرف*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب ہم نے جنوب کا رخ کیا ۔ یہاں کوئی دروازہ تو نہیں تھا، مگر دروازہ نما ضرور تھا۔ ایک بڑا سا تراشا ہوا پتھر دروازے کے قد کا لگا تھا۔ پتھر کالا تھا، مگر پرکشش۔ سنگ تراش نے اپنی فن کاری کے جوہر خوب خوب دکھائے تھے۔ یہاں سے اندر کے سارے مناظر دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی پیشانی پر اولاً قرآنِ کریم کی یہ آیت درج تھی، جو دنیا کی فنائیت کو خوب اجاگر کرتی ہے:
*کلّ من علیہا فان و یبقیٰ وجہ ربک ذو الجلال و الاکرام*
اور اس کے نیچے یہ شعر:
نہ شادی داد سامانے، نہ غم آورد نقصانے
بدیں جاں باز سلطانے کہ آمد شد چو مہمانے
ترجمہ: نہ تو خوشی نے کوئی سامان دیا اور نہ غم نے کوئی نقصان پہونچایا۔
اس بہادر سلطان جیسا مہمان یہاں کون بنا ہے؟
یہ اشعار اللہ جانے کس نے لکھے؟ مگر ان میں معنویت کا ایک جہان آباد ہے۔ گنبد کے تینوں دروازے اس طرح کھلے ہیں کہ مشرق کی طرف سے آئیں تو سلطان شہیدؒ کی 
والدہ کی قبر پہلے پڑے گی۔ 

شمالی دروازے سے داخل ہوں تو ان کے والد کا مزار پہلے نظر آئے گا اور مغربی دروازے سے داخل ہوں تو پہلی تربت ٹیپو مرحوم کی پڑے گی۔ ان دروازوں پر اشعار کی تختی بھی کچھ اس طرح لگی ہے کہ اسے پڑھنے والا سمجھ جاتا ہے کہ اس کے سامنے کس شخصیت کی پہلی قبر پڑ رہی ہے۔
*گنبد کے 36 ستون*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گنبدِ سلطانی کے برآمدے پر چاروں طرف کل 36 ستون ہیں۔ یہ سارے ستون کالے پتھر کے ہیں۔ ان کی تراش و خراش اس ڈھب سے ہوئی ہے کہ سیاحوں کی نظر کھینچ ہی لیتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ حال ہی میں انہیں تیار کیا گیا ہو۔ تعارف کرانے والے نے بتایا کہ یہ 36 ستون حیدر علی اور سلطان ٹیپو کی مدتِ بادشاہت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ان باپ بیٹوں نے ریاستِ میسور پر 36 سال حکومت کی ہے۔ لیکن میری تحقیق کے مطابق یہ تجزیہ غلط ہے، کیوں کہ یہ ستون سلطان ٹیپو کے دور میں لگے ہیں۔ انہیں کیسے معلوم ہوا کہ ان کی حکومت اتنے ہی برس چلے گی؟ دوسری بات یہ کہ دونوں کی کل مدت 36 برس نہیں، بلکہ 38 یا 39 بنتی ہے۔ سلطان حیدر علی نے 1761 سے 1782 تک میسور پر حکومت کی، جب کہ ٹیپو سلطان نے 1782 سے 1799 تک۔
*قریۂ خموشاں*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گنبدِ سلطانی کے چاروں طرف صحن والے حصے قبروں سے آباد ہیں۔ آپ مسجدِ اقصیٰ سے مشرق کی طرف منہ کریں تو صحن کے دائیں کونے میں 13 قبریں نظر آئیں گی اور اس کے بالمقابل مشرقی جانب 27 قبریں۔ بائیں طرف دیکھیں تو صحن کے بائیں گوشے میں 27 قبریں ہیں اور ان کے بالمقابل مشرقی جانب 29 لحدیں۔ یہ ساری قبریں سمنٹیڈ ہیں اور زینے دار۔ یہ سب سلطان شہید کی فوج کے لوگ تھے۔ ان میں کچھ افرادِ خاندان بھی ہیں۔ اہلیہ اور بیٹے بھی یہیں آسودۂ خواب ہیں۔
مسجدِ اقصیٰ اور گنبدِ سلطانی کے درمیان زمین کا ایک ٹکڑا کھلا ہوا ہے۔ اس میں مختلف قسم کے چھوٹے چھوٹے اور خوش نما پودے کھڑے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ٹیپو شہید کا جنازہ رکھا گیا تھا۔ یہیں ان کے بیٹے اور ارکانِ دولت صف بستہ اپنے شہید کا مسکراتا منظر دیکھ رہے تھے۔ میں اس مقام کو یاد کر کے جب بھی دیکھتا تو پڑتا۔ سارے درد ناک مناظر سامنے آ جاتے۔
[اگلی قسط میں پڑھیں: ڈاکٹر اقبال مرحوم نے گنبد کی زیارت کی تو ان پر کیا بیتی؟ ]