✏ فضیل احمد ناصری / صداٸے وقت۔
=============================
*ڈاکٹر اقبال مرحوم اور گنبدِ سلطانی*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گنبدِ سلطانی پر جب بھی میری نظر پڑتی، مجھے شاعرِ مشرق ڈاکٹر اقبال مرحوم کی یاد آ جایا کرتی۔ انہیں سلطان ٹیپو سے بڑی عقیدت تھی۔ شہید کے تئیں ان کے خیالات بڑے جذباتی تھے۔ 1929 میں جب وہ مزارِ ٹیپو پہ گئے ہیں تو ایک گھنٹے تک روتے رہے اور روتے ہوئے ہی باہر نکلے۔ شہید ٹیپو کی محبت ان کی رگ و پے میں کس طرح سرایت کناں تھی، اسے سمجھنا ہو تو فارسی کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں، اقبال کہتے ہیں:
آں شہیدانِ محبت را امام
آبروئے ہند و چین و روم و شام
آبروئے ہند و چین و روم و شام
نامش از خورشید و مہ تابندہ تر
خاکِ قبرش از من و تو زندہ تر
خاکِ قبرش از من و تو زندہ تر
از نگاہِ خواجۂ بدر و حنین
فقرِ سلطاں وارثِ جذبِ حسین
فقرِ سلطاں وارثِ جذبِ حسین
ترجمہ:
وہ شہیدانِ محبت کے امام اور ہندوستان، چین، اسی طرح روم و شام کی عزت تھے۔
ان کا نام سورج سے زیادہ چمک رہا ہے۔ ان کی قبر کی مٹی میرے اور تیرے سے زیادہ زندہ ہے۔
خواجۂ بدر و حنین ﷺ کی نگاہِ کرم سے سلطان ٹیپو کا فقر جذبۂ حسینؓ کا وارث تھا۔
وہ شہیدانِ محبت کے امام اور ہندوستان، چین، اسی طرح روم و شام کی عزت تھے۔
ان کا نام سورج سے زیادہ چمک رہا ہے۔ ان کی قبر کی مٹی میرے اور تیرے سے زیادہ زندہ ہے۔
خواجۂ بدر و حنین ﷺ کی نگاہِ کرم سے سلطان ٹیپو کا فقر جذبۂ حسینؓ کا وارث تھا۔
فارسی میں ڈاکٹر مرحوم نے خراجِ عقیدت تو پیش کیا ہی، اردو میں بھی انہوں نے ٹیپو کو فراموش نہیں کیا۔ ضربِ کلیم میں *سلطان ٹیپو کی وصیت* کے عنوان سے ان کی یہ نظم ٹیپو کے نام کی طرح ہی اپنی چمک بکھیر رہی ہے:
تو رہ نوردِ شوق ہے منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
اے جوئے آب! بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول
کھویا نہ جا صنم کدۂ کائنات میں
محفل گداز! گرمئ محفل نہ کر قبول
محفل گداز! گرمئ محفل نہ کر قبول
صبحِ ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے
جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول
جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول
باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے
شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول
شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول
*مسجدِ اقصیٰ بریلوی کے قبضے میں*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مغرب کا وقت ہو چکا تھا۔ میں نے ایک صاحب کو مسجد کے برآمدے میں دیکھا کہ وہ ہاتھ میں کوئی چیز لے کر اسے دیکھ رہے ہیں۔ ان کے سر پر برکاتی ٹوپی تھی۔ یہ وہ ٹوپی ہے جس کا بالائی حصہ بھی اتنا ہی وسیع ہوتا ہے، جتنا اندرونی حصہ۔ یہ ٹوپی نئی نئی متعارف ہوئی ہے اور ایک خاص فرقے کی خصوصی پہچان بن چکی ہے۔ میں نے انہیں دیکھا تو سمجھا کہ کوئی سیاح ہوں گے اور نماز کا انتظار کر رہے ہوں گے۔ مغرب کی اذان ہوئی، پھر نماز ہوئی ۔ میں یہی سمجھ رہا تھا کہ میرا امام دیوبندی ہے۔ سلام پھیرنے کے بعد بآوازِ بلند دعا کی تو مجھے خیال آیا کہ بعض دیوبندی ائمہ بھی اسی طرح دعا مانگتے ہیں۔ پھر دیکھا کہ اختتامِ دعا کے وقت یہ آیت پڑھ رہے ہیں: *سمعنا و اطعنا غفرانک ربنا و الیک المصیر* ۔ جب یہ پڑھا تو مجھے کھٹک پیدا ہوئی کہ شاید یہ رضاخانی ہیں۔ دعا سے فراغت ہوئی تو دیکھا کہ یہ صاحب مغرب سے مڑ کر جنوب کی طرف ہو گئے اور زور زور سے پڑھنے لگے: صلی اللہ علی النبی الامی و آلہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم، صلوۃ و سلاماً علیک یا رسول اللہ ﷺ ۔ بس مجھے یقین ہو گیا کہ یہ بندہ بریلوی ہے۔ پوری مسجد میں صرف امام ہی بریلوی تھا، باقی جتنے تھے، سب دیوبندی تھے اور ہماری طرح ہی محفلِ ذکر میں آئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مغرب کا وقت ہو چکا تھا۔ میں نے ایک صاحب کو مسجد کے برآمدے میں دیکھا کہ وہ ہاتھ میں کوئی چیز لے کر اسے دیکھ رہے ہیں۔ ان کے سر پر برکاتی ٹوپی تھی۔ یہ وہ ٹوپی ہے جس کا بالائی حصہ بھی اتنا ہی وسیع ہوتا ہے، جتنا اندرونی حصہ۔ یہ ٹوپی نئی نئی متعارف ہوئی ہے اور ایک خاص فرقے کی خصوصی پہچان بن چکی ہے۔ میں نے انہیں دیکھا تو سمجھا کہ کوئی سیاح ہوں گے اور نماز کا انتظار کر رہے ہوں گے۔ مغرب کی اذان ہوئی، پھر نماز ہوئی ۔ میں یہی سمجھ رہا تھا کہ میرا امام دیوبندی ہے۔ سلام پھیرنے کے بعد بآوازِ بلند دعا کی تو مجھے خیال آیا کہ بعض دیوبندی ائمہ بھی اسی طرح دعا مانگتے ہیں۔ پھر دیکھا کہ اختتامِ دعا کے وقت یہ آیت پڑھ رہے ہیں: *سمعنا و اطعنا غفرانک ربنا و الیک المصیر* ۔ جب یہ پڑھا تو مجھے کھٹک پیدا ہوئی کہ شاید یہ رضاخانی ہیں۔ دعا سے فراغت ہوئی تو دیکھا کہ یہ صاحب مغرب سے مڑ کر جنوب کی طرف ہو گئے اور زور زور سے پڑھنے لگے: صلی اللہ علی النبی الامی و آلہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم، صلوۃ و سلاماً علیک یا رسول اللہ ﷺ ۔ بس مجھے یقین ہو گیا کہ یہ بندہ بریلوی ہے۔ پوری مسجد میں صرف امام ہی بریلوی تھا، باقی جتنے تھے، سب دیوبندی تھے اور ہماری طرح ہی محفلِ ذکر میں آئے تھے۔
مسجد کا اندرونی حصہ میں نے نماز سے پہلے ہی دیکھ لیا تھا۔ مجھے کہیں سے بھی مسجد کا بریلویت زدہ ہونا محسوس نہیں ہوا۔ جب امام کی بریلویت کھل گئی اور مسجد کا پھر سے غائرانہ مطالعہ کیا تو دو علامتیں نظر آ گئیں۔ ایک تو یہ کہ محراب کے بالائی حصے میں قمقمے کی تین دھاریاں تھیں۔ پہلی دھاری سبز تھی، دوسری نیلی، جب کہ تیسری پیلی۔ پھر محراب کے بائیں طرف ایک دیوار گھڑی بھی دکھائی دی، قدیم طرز کی گھڑی، جس میں کرچھل کی طرح کا گھنٹہ دائیں بائیں متحرک رہتا ہے۔ گھڑی کے بالکل بیچوں بیچ وہی سلام لکھا تھا، جسے بریلویت کا شعار کہا جاتا ہے: *الصلوۃ و السلام علیک یا رسول اللہ*
نماز کے بعد میں امام صاحب سے ملا۔ ان سے تعارف ہوا۔ بڑے نرم خو معلوم ہوئے۔ اپنا نام انہوں نے عنایت الرحمن بتایا۔ ان کی یہ ادا میرے لیے ایک سبق بن گئی کہ بھرے مجمع میں اکیلے ہونے کے باوجود اپنا شعار نہیں بھولے۔ کاش کہ ہم بھی اپنا شعار کسی بھی حال میں نہ بھولیں!
میں بریلوی امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا، اس لیے یہ سب دیکھ کر میں چونک گیا۔ اس کے بعد پھر کوئی نماز ان کے پیچھے نہیں پڑھی۔ فجر میں تو وہ آئے بھی نہیں تھے۔
[اگلی قسط میں پڑھیں: مسجدِ اقصیٰ کا تعارف]