Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, September 2, 2019

مرکزالمعارف، ایک انقلابی علمی تحریک!!!


فیصل نذیر: پی ایچ ڈی اسکالر، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی۔/صداٸے وقت۔
=========================
ایک دور وہ تھا جب ہم ہندستانی مسلمان بقول فرید الدین عطارؒ (1145-1220) بس یہی سمجھتے تھے کہ:
علمِ دین فقہ است و تفسیر و حدیث
ہر کہ خـواند غـیـر این گردد خـبیـث
یعنی قرآن حدیث اور فقہ کے علاوہ اگر کوئی انسان دیگر علوم حاصل کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ اسے خباثت اور گمراہی کی طرف لے جائیں گے۔ اور اسی وجہ سے مسلمان عرصہ دراز تک مغربی تعلیم سے دور رہے، انگریزی تعلیم کے خلاف فتوے صادر کئے گئے، اور وہ  قرآن حدیث اور فقہ کوئی ہی تھامے رہے، مگر مرورِ ایام اور حوادثِ دہر نے ہمیں یہ احساس دلایا کہ زبانوں کا کوئی مذہب و مسلک نہیں ہوتا، اور ہمیں دنیا میں ایک پروقار زندگی گزارنے کے لئے صرف انگریزی ہی نہیں بلکہ حالات و جغرافیہ کے اعتبار سے ہر ممکنہ زبان جاننے اور سیکھنے کی ضرورت ہے اور ’امتِ دعوت‘ ہونے کے ناطے ہمارا یہ فرض بھی ہے، اور زبانوں کا اختلاف تو خدا کے عظمت کی نشانی ہے۔

مجھے یہ جان بے حد خوشی ہوئی کہ مرکز المعارف جو مدارس کے فارغین کو دو سال کی انگریزی تعلیم دیتا ہے اس کے قیام کو 25 سال ہوگئے ہیں، 1994 میں اس کا قیام عمل آیا،اور اگلے مہینے دہلی میں سلور جبلی پروگرام کے انعقاد کی مکمل تیاریاں  ہوچکی ہیں۔
مجھے ذاتی طور پراس خبر سے بہت خوشی ہوئی کیونکہ ایک زمانے میں ، میں بھی اس پروگرام کا حصہ ہونا چاہتا تھا، اور ممبئی میں گھر ہونے کی وجہ سے ممبئی کے برانچ سے الحاق چاہتا تھا، مگر قسمت کو یہ منظور نہ تھا۔
لیکن اس ادارے کے فارغین میرے دوستوں اور اساتذہ کی ہیبت سے میں ہمیشہ سہما رہا۔ ان کی انگریزی دانی کے چرچے ہر جگہ گونجتے رہے، اور جس طریقے سے یہ فارغین اور ان کے اساتذہ محنت کرتے اور کراتے تھے اسے بہت سراہا گیا۔
اس نئے کورس کی شروعات نے مدارس پر انگریزی سے نابلد ہونے کے الزام کو بھی دور کر دیا۔ آج درسِ نظامی پڑھ رہے ہزاروں طلبۂ مدارس کا یہ خواب ہے کہ وہ فراغت کے بعد اس ادارے سے وابستہ ہوں۔
اس ادارے کے بانیان کا خلوص، اساتذہ کی بے لوث محنت، طلبہ کی انتھک لگن اور مفت تعلیم نے اس پروگرام کو طلبہ کے لیے ارض موعود اور نعمتِ غیر مترقبہ کا مقام دے دیا ہے۔
25 سال کی قلیل مدت میں یہ ادارہ عالمی شہرت اختیار کر چکا ہے، اس کے فارغین اندرونِ ہند و بیرونِ ہند کامیابی کا پرچم لہراچکے ہیں۔ بڑے بڑے اداروں، یونیورسٹیوں اور اسکولوں میں بطور اساتذہ اپنی صلاحیت کا لوہا منوا چکے ہیں۔ مغربی ممالک کے اداروں میں یہاں کے فیض یافتگاں امام ہیں، مہتمم ہیں اور دیگر عہدوں پر براجمان ہیں۔
اس کورس کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ مدارس کے بچوں کو انگریزی کی تعلیم کے ذریعہ ملک کی ترقی میں شامل کرنے کا کام اولاً ان بزرگوں کے ذہن میں آیا جبکہ یونیورسٹی کے دانشوران کو اس جانب توجہ دینے میں وقت لگ گیا۔ علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر جنرل ضمیر الدین شاہ نے اس معاملے میں پہل کی اور ’برج کورس‘  نامی ایک سالہ پروگرام شروع کیا، ان کی نقل کرتے ہوئے دو سال قبل جامعہ ملیہ اسلامیہ اور مولونا آزاد یونیورسٹی حیدر آباد نے بھی مدارس کے فارغ طلبہ و طالبات کے لئے کورس شروع کیا، مگر ہمارے علماء نے بہت قبل اس ضرورت کو بھانپ لیا تھا۔
اس کورس میں محض انگریزے کے جملے نہیں رٹائے جاتے بلکہ طلبہ کی مکمل شخصیت سازی پر توجہ دی جاتی ہے، کمپیوٹر کا ماہر بنایا جاتا ہے، اہم مراجع و مصادر کے ترجمے کا کام لیا جاتا ہے، ہر طبقے کے ماہرین کو مختلف موضوعات پر لیکچرز دینے کے لیے بلایا جاتا ہے۔
اس پروگرام کی عوام و خواص میں ایسی شہرت اور ہیبت بسی کہ محض دیوبند ہی نہیں بلکہ دیگر نظامِ تعلیم اور دیگر مسلکوں کے طلبہ بھی اس کے امتحانات میں شریک ہونے لگے، اور تعلیم حاصل کرنے لگے۔ جامعہ کے شعبۂ عربی کے استاذ ڈاکٹر نسیم احمد نے گریجویشن میں دورانِ درس ہمیں بتایا کہ مرکز سے جو طلبہ آتے ہیں ان کی انگریزی قابلِ رشک ہوتی ہے، اور ان کی ٹرینیگ آرمی کی ٹرینیگ جیسی ہوتی ہے، ڈسپلن اور مکمل وقار اور محنت ولگن کے ساتھ۔
جامعہ کے ایجوکیشن فیکلٹی میں ایک بار ایک مقابلے میں مجھے جانے کا تفاق ہوا، جیسے ہی میں نے تعارف کراتے ہوئے کہا کہ میں دیوبند سے فارغ ہوں ایک پروفیسر فورا بول پڑے آپ نے انگریزی کا وہ دو سالہ کورس کیا؟
میں نے نفی میں جواب دیا۔
وہ فورا بول پڑے: ’’کیوں نہیں کیا؟ یونیورسٹی تھوڑی تاخیر سے ہی آتے، انگریزی اچھی کر کے آتے تو یہاں ترقی کے اور مواقع ملتے، کیوں کہ یونیورسٹی پڑھاتی نہیں ہے بلکہ آپ میں موجود صلاحیت کو نکھرنے کا موقع اور پلیٹ فارم دیتی ہے‘‘۔
یونیورسٹی اساتذہ کے یہ تاثرات بتاتے ہیں کہ وہ مرکز المعارف کے اس پروگرام  کو کتنی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور یہاں سے نکلنے والا انگریزی ماہانہ پرچہ ’ایسٹرن کریسنٹ‘ کا تذکرہ بھی بار بار ہوتا رہتا ہے۔،
اس ادارے کی کامیابی اور نیک نامی میں یقینا ہمارے اکابرین کی دور رس نگاہوں کو داد دینا ہوگا کہ انہوں حالات حاضرہ کے تغیر کو دیکھتے ہوئے اس ادارے کے قیام کی تجویز پیش کی، جن میں مولانا بدر الدین اجمل صاحب، مولانا اسعد مدنیؒ، شیخ الحدیث مولانا احمد علیؒ، ماسٹر ایس ایچ چودھری قابلِ ذکر ہیں۔  اور ہمارے وہ اکابرین بھی جنہوں نے اس ادارے کی مکمل سرپرستی کی جن میں مولانا حسیب الرحمٰنؒ، مولانا عبد الجلیل راغبیؒ، وغیرہ، خدائے پاک ان کی قبروں کو نور سے بھر دے۔
راقم الحروف کی دلی دعا ہے کہ یہ ادارہ آنے والے دور میں بھی یونہی ترقے کرے اور لوگوں کے حسنِ ظن پر ہمیشہ کھرا اترے، اس ادارے کے طلبہ یونہی ترقی کی منزلیں طے کرتے رہیں اور اسلام کی صحیح تعلیمات کو چہار دانگ عالم میں عام کرتے رہیں، اور سنہرے پچیس سال کے گذرنے پر تمام مراکز کو صمیمِ قلب سے مبارکباد اور سلور جبلی پروگرام کے انعقاد کے لئے بہت ساری نیک خواہشات، اورمرکز کے سابق  ڈائریکٹر استاذ محترم محمد عمر گوتم صاحب اور اس کے موجودہ ڈائریکٹر مولانا برہان قاسمی کی جد وجہد کو صد سلام ۔