Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, September 22, 2019

”جیل“کشمیر کے تناظر میں ایک سبق آموز تحریر۔

جیل/از رضی الاسلام ندوی۔/صداٸے وقت۔
=============================
       'جیل' کا لفظ سنتے ہی ذہن میں ایک ایسی جگہ کا تصوّر آجاتا ہے جس میں آزادیاں مسلوب ہوتی ہیں _ اختیارات پر پابندی ہوتی ہے _ ہاتھوں اور پیروں میں بیٹریاں ہوتی ہیں _ نہ بھی ہوں تب بھی آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت نہیں ہوتی _ انسان مجبورِ محض اور لاچاری و بے بسی کی مجسّم تصویر ہوتا ہے _

       عموماً جیل کے ساتھ سزا کا تصّور وابستہ ہے _ کسی جرم کے ارتکاب کے بعد اس کی سزا کے طور پر انسان کو داخلِ زنداں کیا جاتا ہے _ یہ سزا پانے والے کبھی واقعی مجرم ہوتے ہیں ، جیسے چور اُچکّے ، زانی و بدکار ، لوٹ کھسوٹ اور کرپشن کرنے والے ، کبھی کم زور اور بے قصور افراد ہوتے ہیں ، جو جرمِ بے گناہی میں جیل کی کال کوٹھریوں میں بند کیے جاتے ہیں ، کبھی حق کی آواز بلند کرنے والے اور عدل و انصاف کا مطالبہ کرنے والے ہوتے ہیں ، جنھیں پابجولاں کیا جاتا ہے اور  ان کی آزادی پر پہرے بٹھائے جاتے ہیں _ جیلوں کی چہاردیواری کے اندر سب طرح کے افراد پائے گئے ہیں _
        ایک جیل کا تذکرہ قرآن کریم میں آیا ہے _ یہ جیل سرزمینِ مصر میں پائی جاتی تھی _ یہ آج سے چار ہزار برس پہلے کا واقعہ ہے _ ایک نوجوان کو اس جیل میں ڈال دیا گیا _ اصلاً اس کا کوئی قصور نہ تھا _ وہ تو بہت صالح ، ہوشیار ، محنتی اور اپنے مالک کا منظورِ نظر تھا _ ہوا یہ کہ مالک کی بیوی نے اس پر بُری نظر ڈالی اور اس کو ورغلانا چاہا ، لیکن اس نے صاف منع کردیا _ بس اس جرمِ پارسائی کی سزا کے طور پر اسے جیل میں ڈالنے کا فیصلہ سنادیا گیا _ طاقت اور اقتدار کے مالک اس سے جو گناہ کروانا چاہتے تھے اس کے مقابلے میں جیل کی تنگ و تاریک کوٹھری کی سزا اسے ہلکی محسوس ہوئی _ اس نے گناہ سے اپنا دامن بچالیا اور کئی برس جیل میں کاٹ دیے _ بعد میں حالات نے پلٹا کھایا اور جیل سے اس کے باہر آنے کے اسباب پیدا ہوگئے ، لیکن اس نے جیل بھیجنے والوں سے اس کے بے قصور ہونے کا اعتراف کروائے بغیر وہاں سے نکلنا گوارا نہ کیا _ پھر بعد میں تو قدرتِ الٰہی سے وہ مصر کے سیاہ و سفید کا مالک بن گیا _
      دوسری جیل کا تذکرہ سیرتِ نبوی میں ملتا ہے _ یہ سرزمینِ عرب میں مکہ کی جیل تھی _ اس کا زمانہ آج سے چودہ سو برس پہلے کا ہے _ اس کا نام 'شعب ابی طالب' تھا _ کہنے کو تو اس کی چہار دیواری نہ تھی ، لوہے کا بڑا اور مضبوط گیٹ نہ تھا ، جس پر تالے لٹک رہے ہوں ، لیکن آبادی سے ہٹی ہوئی یہ گھاٹی جیل ہی کا کام دے رہی تھیں _ جن لوگوں کو اس میں محبوس کردیا گیا تھا وہ دانے دانے کو محتاج ہوگئے تھے _ انھوں نے انتہائی کَس مَپُرسی کے عالم میں دو چار دن یا دو چار ماہ نہیں ، بلکہ تقریباً تین برس کا طویل عرصہ کاٹا تھا _ ان پر ایسے دن بھی گزرے کہ زندہ رہنے کے لیے انھیں درختوں کی چھال اور پتّے تک کھانے پڑے _ لیکن انھوں نے اپنے دین اور عقیدے کا سودا نہیں کیا _ صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا _ بالآخر آزمائش اور اذیّت کے بادل چَھٹے ، انھیں کھلی ہوا میں سانس لینے کا موقع ملا اور وہ اقتدار کے مالک بنے _
      تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ ہے کہ مذکورہ بالا دونوں واقعات میں جن لوگوں نے طاقت اور اقتدار کے نشے میں چور ہوکر کم زوروں کو ستایا تھا ، ان کی آزادی چھینی تھی اور ان پر جبر کیا تھا وہ ناکام و نامراد ہوئے اور جن لوگوں کو جیلوں میں ٹھونسا گیا تھا وہ مسندِ اقتدار تک پہنچے اور اپنی مرضی کے مالک بنے _
        آج ہم اپنی آنکھوں سے ایک تیسری جیل دیکھ رہے ہیں _ یہ کشمیر کی جنّت نظیر وادی ہے ، جسے جیل میں تبدیل کر دیا گیا ہے  _ یہ جیل سابقہ دونوں جیلوں سے زیادہ کشادہ اور زیادہ بھیانک ہے _

 مصر کی جیل میں واقعی مجرموں کے ساتھ ایک بے قصور کو رکھا گیا تھا _ مکہ کی جیل میں ایک خاندان کو محبوس کردیا گیا تھا _ جب کہ کشمیر کی جیل میں پوری ایک قوم کو بَندی بنا کر رکھا گیا ہے _ جیل میں آزادانہ نقل و حرکت پر پابندی ہوتی ہے _ کشمیر میں بھی آزادانہ نقل و حرکت پر پابندی ہے _ جیل میں قیدیوں کو ایک دوسرے سے رابطہ کی اجازت نہیں ہوتی _ کشمیر میں بھی ذرائع مواصلات کاٹ دیے گئے ہیں _ جیل میں پولیس کا پہرہ رہتا ہے _ کشمیر میں بھی پولیس اور نیم فوجی دستوں کے ساتھ بڑی تعداد میں فوج لگا دی گئی ہے _ جیل میں قیدی حکومتی کارندوں کے رحم و کرم پر رہتے ہیں _ وہ جن بنیادی سہولیات سے چاہیں محروم کردیں اور جن انسانی حقوق کو چاہیں چھین لیں _ کشمیری بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور ان کے انسانی حقوق دھڑلے سے پامال کیے جا رہے ہیں _ پچاس روز ہونے کو ہیں ، کشمیر کی جنّت نما سرزمین جہنم زار بنی ہوئی ہے _ بیرونی دنیا سے ان کا رابطہ منقطع ہے اور کچھ خبر نہیں کہ ان کے ساتھ کیا بیت رہی ہے اور ظلم و جبر کی یہ رات ابھی اور کتنی دراز ہوگی _
        بہر حال تاریخ کا یہ فیصلہ ہے کہ انسانوں کی آزادیوں پر قدغن لگانے والے کبھی کام یاب نہیں ہوئے ہیں _ دیر سویر ان کے جبر کی بساط لپیٹ دی گئی ہے _  قید و بند کی مشقت جھیلنے والے طاقت و قوت کے مالک بنے ہیں اور مسندِ اقتدار تک پہنچے ہیں _ بس شرط یہ ہے کہ وہ اپنے موقف پر جمے رہیں اور ظالموں سے کسی مصالحت پر آمادہ نہ ہوں _ طاقت و قوت ، عزت و سربلندی اور اقتدار کا مالک اللہ تعالیٰ ہے _ وہ جسے چاہتا ہے اس سے نوازتا ہے اور جسے چاہتا ہے ، اس سے محروم کردیتا ہے _ ظالموں کو یہ نوشتۂ تاریخ پڑھ لینا چاہیے ، اس سے پہلے کہ اس کا وقت نکل جائے اور وہ ہاتھ ملنے کے علاوہ اور کچھ نہ کرسکیں _
( محمد رضی الاسلام ندوی )