از/ذاکری اعظمی/صداٸے وقت۔
============================
============================
فی زمانہ فکر سرسید رح کی عصری معنویت سے انکار کرنا دانستہ جہالت اور تاریکی کی کھائی میں چھلانگ لگانا ہے۔ لاکھ اختلافات کے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سر سید جیسی عظیم، اولو العزم اور باہمت شخصیت تاریخ میں مشکل سے ہی ملیں گی۔ سر سید نے ایک شکستہ ومنتشر قوم کو مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے سے نکال کر عزم وحوصلے کی کامیاب شاہراہ پر گامزن کیا اور ملت کے سامنے حصول علم کا ایک آفاقی تصور پیش کیا، خود انہیں کی زبان سے سنئے:
‘'میری تمنا ہےکہ میری ملت کے ہر شخص کے ایک ہاتھ میں ادب وفلسفہ ہوتو دوسرے ہاتھ میں سائنس وٹیکنالوجی اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے سرپر
کلمہ طیبہ کا تاج ہو’’۔
یہ وہ فطری صدائے انقلاب تھی جسے سرسید نے جب ڈیڑھ سو سال قبل لگایا تو ہر طرف سے مخالفت کا ایک نہ تھمنے والا طوفان کھڑا کردیا گیا، روح رسید آج خوشی سے جھوم رہی ہوگی کہ آج ان ایوانہائے پاکیزگی میں انکی فکری معنویت کے صدائے بازگشت سنائی دے رہی ہے جہاں سے ان کو دہریہ، نیچری، اور نہ جانے کن کن القابات سے سے نوازا گیا تھا۔
جمعیۃ العلماء م گروپ مبارکباد کی مستحق ہے کہ ڈیڑھ سو سال دیر سے سہی عصری علوم کی اہمیت اس پر آشکارا ہوئی۔ جو قومیں ڈیڑھ سو سال پیچھے سوچتی ہیں انکا حشر وہی ہوتا ہے جو آج بر صغیر میں ہمارا ہے۔