جب پوری دنیا ننگی ہوکر گھومے گی!
از/شکیل رشید / صداٸے وقت۔
=============================
خبر ہے کہ اب امریکہ کی چھ ریاستوں میں خواتین ’ٹاپ لیس‘ ہوکر گھوم سکیں گی! ’ٹاپ لیس‘ یعنی اوپر کے دھڑ سے عریاں۔
اس خبر پر بہت زیادہ چونکنے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ ان دنوں دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کے نام سے جو تحریکیں چھڑی ہوئی ہیں ان میں سے اکثر کا مقصد خواتین کو عریاں کرنا ہی ہے۔ اور یہ تحریکیں چھیڑنے والوں میں صف اول پر عورتیں ہی ہیں، یعنی بالفاظ دیگر یہ کہ امریکہ اور یوروپ سمیت ساری دنیا میں عورتوں کی ایک بہت بڑی تعداد عریاں یا ننگے ہوکر گھومنے کو اپنا حق سمجھتی ہے۔ امریکہ میں عرصے سے ’فری دی نپل‘ نام سے ایک تحریک جاری تھی۔ ہم ’فری دی نپل‘ کا اردو ترجمہ اگر مہذب انداز میں کریں تو ’سینے کو آزاد کریں‘ کرسکتے ہیں۔ اس تحریک کے تحت خواتین سڑکوں پر اترتی تھیں، ان کے ساتھ ان کے ’ہمدرد‘مرد حضرات بھی ہوتے تھے اور یہ سڑکوں پر اتر کر اس مطالبے کے ساتھ مظاہرہ کرتی تھیں کہ ا نہیں ’ادھ ننگا‘ ہونے کا حق دیاجائے۔ اس تعلق سے امریکی سپریم کورٹ میں بھی ایک درخواست دائر کی گئی تھی جس پر عرصے سے شنوائی جاری تھی اب سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے کہ امریکی خواتین ’ادھ ننگی‘ ہوکر سڑکوں پر گھوم پھرسکتی ہیں۔ فی الحال یہ آزادی یا حق چھ ریاستوں کو لوراڈو، یونا، کین ساس، نیومیکسکو اور اوکلاہوماکی خواتین کےلیے ہے۔ وہ خواتین جو اس تحریک سے جڑی ہوئی ہیں ان کی دلیل یہ تھی کہ ان کا جسم صرف جنسی حظ کےلیے نہیں ہے، لہذا انہیں یہ حق حاصل ہے کہ جس طرح مرد اپنے جسم کے اوپری دھڑ کو بے لباس کرکے گھومتے پھرتے ہیں کم از کم انہیں بھی اسی طرح گھومنے پھرنے کی آزادی دی جائے۔ مطلب یہ کہ ان خواتین کی نظروں میں ان کے اور مردوں کے جسم میں کوئی فرق نہیں ہے لہذا اگر مرد ادھ ننگے سڑکوں اور گلیو ںمیں ٹہل سکتے ہیں تو وہ کیو ںنہیں!
’فری دی نپل‘ کی تحریک میں ایسا نہیں ہے کہ ساری ہی عورتیں شریک تھیں، بہتو ںنے اس کی مخالفت بھی کی ، اس تحریک کو ناکام بنانے کےلیے کولوراڈو شہر میں دو کروڑ روپئے تک خرچ کیے گئے، مگر سپریم کورٹ نے فیصلہ ’فری دی نپل‘ تحریک کے حق میں ہی دیا۔ کولوراڈو شہر کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ عورتیں اگر ’ٹاپ لیس‘ ہوکر گھومنا چاہتی ہیں تو گھومیں ہمارا کیا بگڑتا ہے! اس سے قبل امریکہ میں صرف دس سال کی بچیوں کو ’ٹاپ لیس‘ ہونے کی چھوٹ تھی۔
از/شکیل رشید / صداٸے وقت۔
=============================
خبر ہے کہ اب امریکہ کی چھ ریاستوں میں خواتین ’ٹاپ لیس‘ ہوکر گھوم سکیں گی! ’ٹاپ لیس‘ یعنی اوپر کے دھڑ سے عریاں۔
اس خبر پر بہت زیادہ چونکنے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ ان دنوں دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کے نام سے جو تحریکیں چھڑی ہوئی ہیں ان میں سے اکثر کا مقصد خواتین کو عریاں کرنا ہی ہے۔ اور یہ تحریکیں چھیڑنے والوں میں صف اول پر عورتیں ہی ہیں، یعنی بالفاظ دیگر یہ کہ امریکہ اور یوروپ سمیت ساری دنیا میں عورتوں کی ایک بہت بڑی تعداد عریاں یا ننگے ہوکر گھومنے کو اپنا حق سمجھتی ہے۔ امریکہ میں عرصے سے ’فری دی نپل‘ نام سے ایک تحریک جاری تھی۔ ہم ’فری دی نپل‘ کا اردو ترجمہ اگر مہذب انداز میں کریں تو ’سینے کو آزاد کریں‘ کرسکتے ہیں۔ اس تحریک کے تحت خواتین سڑکوں پر اترتی تھیں، ان کے ساتھ ان کے ’ہمدرد‘مرد حضرات بھی ہوتے تھے اور یہ سڑکوں پر اتر کر اس مطالبے کے ساتھ مظاہرہ کرتی تھیں کہ ا نہیں ’ادھ ننگا‘ ہونے کا حق دیاجائے۔ اس تعلق سے امریکی سپریم کورٹ میں بھی ایک درخواست دائر کی گئی تھی جس پر عرصے سے شنوائی جاری تھی اب سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے کہ امریکی خواتین ’ادھ ننگی‘ ہوکر سڑکوں پر گھوم پھرسکتی ہیں۔ فی الحال یہ آزادی یا حق چھ ریاستوں کو لوراڈو، یونا، کین ساس، نیومیکسکو اور اوکلاہوماکی خواتین کےلیے ہے۔ وہ خواتین جو اس تحریک سے جڑی ہوئی ہیں ان کی دلیل یہ تھی کہ ان کا جسم صرف جنسی حظ کےلیے نہیں ہے، لہذا انہیں یہ حق حاصل ہے کہ جس طرح مرد اپنے جسم کے اوپری دھڑ کو بے لباس کرکے گھومتے پھرتے ہیں کم از کم انہیں بھی اسی طرح گھومنے پھرنے کی آزادی دی جائے۔ مطلب یہ کہ ان خواتین کی نظروں میں ان کے اور مردوں کے جسم میں کوئی فرق نہیں ہے لہذا اگر مرد ادھ ننگے سڑکوں اور گلیو ںمیں ٹہل سکتے ہیں تو وہ کیو ںنہیں!
’فری دی نپل‘ کی تحریک میں ایسا نہیں ہے کہ ساری ہی عورتیں شریک تھیں، بہتو ںنے اس کی مخالفت بھی کی ، اس تحریک کو ناکام بنانے کےلیے کولوراڈو شہر میں دو کروڑ روپئے تک خرچ کیے گئے، مگر سپریم کورٹ نے فیصلہ ’فری دی نپل‘ تحریک کے حق میں ہی دیا۔ کولوراڈو شہر کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ عورتیں اگر ’ٹاپ لیس‘ ہوکر گھومنا چاہتی ہیں تو گھومیں ہمارا کیا بگڑتا ہے! اس سے قبل امریکہ میں صرف دس سال کی بچیوں کو ’ٹاپ لیس‘ ہونے کی چھوٹ تھی۔
یہ تحریک صرف امریکہ تک ہی محدود نہیں ہے، یہ یوروپ میں بھی زوروشور سے جاری ہے۔ بلکہ اگر یہ کہاجائے کہ اب ساری دنیا ہی اس تحریک کی زد میں ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ وہ جو ’مغربی تہذیب ‘ کا گن گان کرتے ہیں شاید اس خبر سے ان کی آنکھیں کھل جائیں۔ شاید اب لوگوں کو یہ اندازہ ہوجائے کہ فحاشی کا طوفان پوری رفتار سے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے کےلیے آزاد ہوچکا ہے۔ نہ ہی تو حکمرانوں کو کوئی فکر ہے اور نہ ہی قانون دانوں کو۔ بلکہ اب تو ساری دنیا میں قانون ہی کے ذرائع فحاشی کے طوفان کی تیزی میں اضافہ ہورہا ہے۔ ابھی کچھ پہلے ہمارے ہندوستان میں سپریم کورٹ نے جو فیصلے کیے وہ بھی فحاشی کے طوفان کے ہی زمرے میں آتے ہیں۔ ’ہم جنسی کی آزادی‘ دے دی گئی ہے کیو ںکہ ’ہم جنسوں‘ کا دعویٰ ہے کہ یہ ان کا حق ہے۔ یہ آزادی دے دی گئی ہے کہ اگر کسی شخص کی بیوی کسی دوسرے سے جسمانی تعلق بنانا چاہے تو بناسکتی ہے! اس سے قبل قانون یہ چھوٹ دے چکا ہے کہ اگر کوئی شادی شدہ مرد کسی عورت کو رکھنا چاہے (بغیر شادی کے) تو رکھ سکتا ہے۔ اگر مذکورہ عدالتی فیصلوں کو مدنظر رکھ کر مستقبل میں جھانکا جائے تو یہ بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ جلد ہی وہ دن آجائیں گے جب ساری دنیا ننگی ہوکر گھومے گی۔ ننگے پن کو معیوب نہیں سمجھا جائے گا۔ یعنی انسان جانور میں تبدیل ہوجائے گا۔