Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, September 26, 2019

بہت کنفیوژن ہے یار !!! ہمارے علمإ دین آخر کس سمت میں جا رہے ہیں؟

بہت کنفیوژن ہے یا ر !!!۔۔۔
شمشیر بے نیام۔۔25 ستمبر۔2019
.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہیں مولانا ارشد مدنی نے سنگھ پریوار سے سٹلمینٹ تو نہیں کرلیا۔
ہمارے علمإ دین آخر کس سمت میں جا رہے ہیں۔
ازقلم : مدثراحمد، ایڈیٹڑ۔ روزنامہ آج کاانقلاب۔ شیموگہ/صداٸے وقت۔
9986437327
=============================

 پچھلا ایک مہینہ ملت کے لئے نہایت سخت ترین اور کنفیوز کرنے والا مہینہ رہا ہے کیونکہ آزاد ی کے بعد سے ملت اسلامیہ نے جن تنظیموں اور تنظیموں کے سربراہان پر اعتماد کیا ہے وہی سربراہان اور تنظیمیں ملت اسلامیہ کو کس راہ پر لئے جارہی ہیں اسکی وضاحت نہیں ہوپارہی ہے ۔ پچھلے سال مولانا سلمان ندوی نے سیاست ، مذہب اور ملت کو الجھن میں پیدا کیا تھا ، بابری مسجد اور تین طلاق کے معاملے کو لیکر انہوںنے تنازعہ پیدا کیا تھا، امت کا ایک بڑا حصہ انہیں اپنا قائد مانتا تھا ، مولانا کے ان تنازعات نے پوری امت مسلمہ کو سوالات کے دائرے میں کھڑا کردیا ہے ۔ ابھی ان تنازعات سے امت مسلمہ باہر نکل بھی نہیں پائی تھی کہ آزادی سے پہلے قائم ہونے والی جمعیت العلماء ہند جیسی تنظیم کے سرپر ست مولانا ارشد مدنی نے اپنےوجودکو ہی مشتبہ بنادیا ہے ، یہ بات اور ہے کہ مولانا ارشد مدنی امت مسلمہ کے ہمدرد رہے ہیں اور انکی نگرانی میں سینکڑوں ایسے لوگ جو جیلوں میں صعوبتیں جھیل رہے تھے وہ رہا ہوئے اورانکی تنظیم کی فلاحی و سماجی خدمات کااعتراف بچہ بچہ کرتاہے ، امت مسلمہ انہیں حکیم الامت کا درجہ دیتی ہے لیکن اسی حکیم الامت اور قائد ملت نے پچھلےدنوں راتوں رات سنگھ پریوار سے جومذاکرات کئے ہیں وہ امت میں یہ شک پیدا کرنے کے لئے کافی ہے کہ کہیں مولانا نے سنگھ پریوار سے سیٹلمنٹ تو نہیں کرلیا؟۔ مولانا ارشدمدنی کے حامیوں کیلئے یہ سوال بھلے ہی چبھتا ہو اور اس سوال کو اٹھانے والوں پر لعن طعن کسنے کا ارادہ ضرورہوتا ہولیکن یہ عام سوال ہے جو لوگوں کے درمیان اٹھایا جارہا ہے۔ مولانا ارشد مدنی ملت اسلامیہ کے سامنے اب تک واضح نہیں کرپائے کہ موہن بھاگوت سے ان کی ملاقات کا کیاراز تھا؟۔دوسری جانب ان کے اپنے بھتیجےمولانا محمود مدنی نے بھی اپنے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دئیے،انہوں نے اچانک آر ایس ایس میں بدلتے نظریات کو دیکھ لیا اور اُمت مسلمہ سے یہ گزارش کردی کہ ہمیں اب حکمت کے ساتھ کام کرنا ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے کشمیر کے معاملےپر بھی بڑی ہی شجاعت کے ساتھ یہ کہہ دیا تھا کہ کشمیر کل بھی ہمارا تھا،آج بھی ہمارا ہے اور کل بھی ہمارا رہے گا۔اتنے بڑے بیان کو دوہرانے کیلئے مولانا محمود مدنی جنیوا کا سفر کردیا۔جب مدنی براردران اس تیزی کے ساتھ کشمیرکشمیراورمودی مودی دوہرانے لگے تو سلفی حضرات نے بھی اپنے آپ کو پیچھے نہیں چھوڑا۔دی لیڈرس نیوز ڈاٹ کام کے مطابق جمیعت اہل حدیث کے قومی جنرل سکریٹری مولانا اصغرعلی امام مہدی سلفی نے بھی کہہ دیاکہ آرٹیکل370 اور این آر سی کے معاملے میں جمیعت اہل حدیث مودی حکومت کی مکمل تائید کرتی ہے۔مودی حکومت کی تائید کرنے والے مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی نے پچھلے دنوں وزیر داخلہ امیت شاہ سے ملاقات کرتے ہوئےکہاکہ جو موقف جمعیۃ علمائے ہند کا آر ٹیکل370 اور این آر سی کے تعلق سے ہے وہی موقف ہمارا بھی ہے۔ ہمارے علمائے دین آخر کس سمت میں جارہے ہیں اور یہ لوگ اُمت مسلمہ کو کیا پیغام دینا چاہ رہے ہیں یہ پور ی طرح سے امت مسلمہ کو کنفیوز کرنے والی باتیں ہیں۔سوال یہ ہے کہ جب صف اول کے علماء کی جانب سے اس طرح کی حرکتیں ہورہی ہیں تو ہمارے اور آپ کے درمیان موجود وہ علماء جن کا تعلق علمائے حق سے ہے وہ کہاں چلے گئے؟کیوں ان علماء کی ان حرکتوں پر سوال نہیں اٹھایا جارہا ہے؟کیا یہی علماء پورے قوم کے موقف کو حتمی شکل دینے والے ہیں؟مولانا محمود مدنی یا ارشد مدنی نے اپنی ملاقاتوں سے قبل کتنی ریاستوں کے جمعیۃ علماء ہند کے عہدیداروں سے اس ضمن میں تبادلہ خیال کیا؟کتنی ریاستوں میں جمعیۃ علماء ہند نے کشمیر کےتعلق سے عام لوگوں کے درمیان بحث کیلئے جلسوں کااہتمام کیا؟آخرجمعیۃ علماء ہنداوران کے جیسی تنظیمیں کیسے ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ پوری اُمت ان کے ساتھ ہے؟۔اُمت مسلمہ کا ایک بڑا حصہ جو ان کی اتباع کرتا رہا ہے تو کیا علماء ان سے سوال نہیں کرسکتے کہ ہمارا موقف کیا ہونا چاہیے،ہمارے جیسے عام لوگ تو جاہل ۓ،انپڑھ و گوار ٹھہرے،دین کی الف ب ہمیں معلوم نہیں ہے،ہمارے چہروں پرسنتیں نہیں ہیں،باوجوداسکے ہم اُن علماء سے سوال کرناچاہیں گے جو اس طرح کے غلط فیصلےلینے والے علماء کے ساتھ ہیں۔جس طرح سے یہ لوگ عالم دین ہیں اُسی طرح سے کئی عالم دین ہمارے او رآپ کے درمیان ہیں،تو کیونکر یہ علماء ان صف اول کے علماء سے سوال نہیں کرپارہے ہیں،کچھ علماء نے خاموشی اختیارکرلی ہے تو کچھ علماء نے مودی حکومت کی تائید کا فیصلہ کیا ہے۔جو لوگ خاموشی اختیار کئے ہیں وہ منافقانہ روش اختیار کررہے ہیں۔پورے ملک میں ایک طرح سے منافرت کی ہوا بڑھنے لگی ہے۔ہر جگہ خبری و پولیس کے دلالوں کا قبضہ ہوچکا ہے تو دوسری جانب ہمارے علمائے ہند اللہ کی ذات پر بھروسہ کرنے کےبجائےمودی پر منحصر ہونے جارہے ہیں جوکہ تشویشناک بات کہی جاسکتی ہے۔