Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, September 3, 2019

غلط فہمی یا غنڈہ گردی۔؟؟؟

از/ مفتی محمد اجوداللہ پھولپوری/صداٸے وقت۔
=========================
دو دن پہلے ایک حادثہ پیش آیا کریاواں گاؤں میں مدرسہ بیت العلوم کے سفیر ( جوکہ پچھلے چھ سالوں سے مدرسہ کے سفیر ھیں اور اس حلقہ میں ھر مہینہ دو مہینہ میں آناجانا رھتا ھے ) مولانا مسرور احمد صاحب قاسمی پر بچہ چوری کا الزام لگاکر چند اوباشوں نے بھیڑ جمع کرکے دھاوا بول دیا جیسے تیسے معاملہ پولس نے قابو کرکے الزام لگاکر مارنے والوں میں سے چار کو اور مولانا کو اپنی کسٹڈی میں لے لیا ھجومی تشدد کے بعد پولس حراست مزید برآں بچہ چوری جیسا گھناؤنا الزام....مولانا اس قدر گھبرائے ھوئے تھے کہ اپنی بات بھی صحیح طریقہ سے رکھ پانے سے قاصر تھے قانونی چارہ جوئی کے بعد کل بتاریخ دو ستمبر مولانا کو مدرسہ لایا گیا بعد اطمینان کے مولانا سے تفصیل پوچھی گئی جو آپ لوگوں کی خدمت میں حاضر ھے تفصیل کے بعد آپ خود اندازہ لگا سکتے ھیں کہ پیش آمدہ واقعہ غلط فہمی کا نتیجہ ھے یا کچھ اور....؟

بقول مولانا رات میں مدرسہ علوم القرآن کریاواں پر قیام کے بعد صبح کریاواں گاؤں میں چندہ وصولی کیلئے پہونچے اور گاؤں کے دو چھوٹے بچوں کو ساتھ لیا ( جیسا کہ عام طور پر سفراء کرتے ھیں چھوٹے بچے گھروں میں جاکر اطلاع دیدیتے ھیں کہ فلاں مدرسہ کے سفیر آئے ھیں اور گھر والے حسب سہولت امداد کردیا کرتے ھیں) گیارہ بجے کے آس پاس کام ختم ھوتا ھے اور مولانا مسجد میں آرام کرنے چلے جاتے ھیں جسمیں دو لوگ پہلے سے بیٹھے ھوئے تھے جوکہ شاید بارات کے ساتھ اس گاؤں میں آئے ھوئے تھے بہر حال بچوں کو مولانا نے پانچ پانچ روپیہ دیا کہ کام ختم ھوگیا تم لوگ جاؤ کھیلو بچوں نے مطالبہ کیا کہ بسکٹ منگوایئے مولانا نے انہیں دو بچوں سے بسکٹ منگوایا اور انہیں اس میں سے کھلایا بھی بچے بسکٹ کھا کر چلے گئے
اسکے کچھ دیر کے بعد ایک چھوٹی بچی آتی ھے اور مولانا اس بچی کو بسکٹ دیتے ھیں ( مولانا نے بچی کو ایک بھی پیسہ نہیں دیا) بچی بسکٹ لیکر چلی جاتی ھے اور کچھ دیر بعد پھر آتی ھے اور مولانا سے پوچھتی ھے کہ مولی صاب جاتھیا ( مولانا صاحب جارھے ھیں) مولانا نے اس سے کہا کہ ھاں ھم جارھے ھیں اسی درمیان گاؤں کا کوئی آدمی (جو بعد میں مارنے میں بھی تھا ) مولانا کے قریب آتا ھے اور ان سے سوال کرتا ھے کہ آپ کون ھیں؟ مولانا نے بتایا کہ وہ بیت العلوم کے سفیر ھیں اس آدمی نے کہا کہ آپ کئی مدرسہ کی رسید لیکر گھوم رھے ھیں تو مولانا نے کہا کہ نہیں وہ صرف مدرسہ بیت العلوم کی ھی رسید لئے ھیں وہ آدمی ایک رسید لاتا ھے جو کسی اور جگہ کی تھی تو مولانا نے کہا کہ آپ تاریخ دیکھ لیں دو دن پہلے کی ھے اور دستخط بھی میرے نہیں ھیں (وھاں موجود اور لوگوں نے اسکی تصدیق بھی کی) تو اسنے کہا کہ آپ اس علاقہ میں دو تین دن سے گھوم رھے ھیں آپ نے پہلے بناکر دی ھے جس پر مولانا نے کہا کہ میں اس علاقہ میں دو دن سے ضرور گھوم رھا ھوں پر یہ رسید میری نہیں ھے اس پر وھاں موجود لوگوں نے مولانا کی بیگ کی تلاشی لی جسمیں مدرسہ بیت العلوم کی تین چار جلد رسیدیں تھیں اور ایک دو جلد رسید رسالہ فیضان اشرف کی تھی چیکنگ کے بعد بات ختم ھوگئی مولانا وھاں سے چلے گئے (یہ بات تقریبا گیارہ بجے کے آس پاس کی ھے)
مولانا وھاں سے دوبارہ مدرسہ علوم القرآن کریاواں واپس آگئے کھانا وغیرہ کھانے کے بعد وھیں آرام کرنے لگے ظہر کی نماز کے بعد ( جوکہ دو - ڈھائی بجے کے آس پاس تھی) مدرسہ کے باھر ڈھائی تین سو کی بھیڑ جمع ھوجاتی ھے ( جسمیں اچھی خاصی تعداد غیروں کی بھی تھی اور ان میں دو تین کیلو میٹر تک کے لوگ تھے) اور مولانا کو وھاں سے زبردستی مارتے اور گھسیٹتے اور بچہ چور کا نعرہ لگاتے ھوئے کریاواں گاؤں میں واپس لاتی ھے ( اس میں بچی کا والد پیش پیش تھا) اسکے بعد گاؤں میں بھی مولانا کو مارا جاتا ھے جبکہ گاؤں کے بہت سے لوگ مولانا کو بچاتے بھی ھیں خود لڑکی کے باپ کا چچا (جوکہ بیت العلوم کے مدرس بھی رہ چکے ھیں) بار بار کہتا رھا کہ اسے مت مارو یہ مدرسہ کا سفیر ھے میں اسے جانتا ھوں پر جنونی بھیڑ اور لڑکی کا باپ کسی کی بات سننے کو تیار نہیں ھوا وہ تو شکر ھیکہ نوناری گاؤں میں موجود ایس ڈی ایم اور نائب دروغہ کو اسکی اطلاع پہونچ گئی اور وہ لوگ بروقت حادثہ کی جگہ پہونچ گئے ورنہ مخلوط بھیڑ کہاں رکتی اللہ بہتر جانتا ھے خیر اسکے بعد قانونی معاملات کو سلجھا کر مولانا کو مدرسہ لایا گیا .... اللھم لک الحمد کلہ ولک الشکر کلہ
.....................................................
ایک دو سوال ھیں جنکا جواب آپ خود طے کرسکتے ھیں اور بآسانی معاملہ کی تہ تک پہونچ سکتے ھیں
نمبر ۱...جب مولانا کی تفتیش اور تلاشی لی جاچکی تھی تو دوبارہ مدرسہ جاکر مولانا پہ حملہ کس کے اشارہ پر کیا گیا.....؟
نمبر ۲..... اگر دوبارہ کچھ سمجھنا ھی تھا تو چند لوگ جاکر سمجھ لیتے ڈھائی تین سو کی بھیڑ لے جانے کی ضرورت کیوں پیش آئی.....؟
نمبر ۳....... یہ بھیڑ کہاں سے آئی کس نے انہیں جمع کیا اور بھیڑ جمع کرنے کا مقصد کیا تھا....؟
....................................................
میں نہیں جانتا قانون اس میں کیا قدم اٹھائیگا اور عدالت کون سی سزاء دیگی مجرمین اپنے بچاؤ میں کیا کرینگے اور اس جرم پہ انکا ضمیر کتنا مطمئن ھے گاؤں والوں کا رویہ انکے ساتھ کیا ھوگا اور وہ اس پر کتنا شرمندہ ھیں اعزہ و اقارب انکی کتنی حوصلہ افزائی کرینگے اور کتنی حوصلہ شکنی کرینگے
پر ایک ڈر جو مجھے کل سے مولانا سے ملنے، بات کرنے اور انکے ٹوٹ کر رودینے سے لگا ھوا ھے کہ اللہ کی طرف سے مجرمین پر کہیں بہت سخت گرفت نہ آجائے اسلئے کہ ماضی کے چند واقعات بڑے بھیانک گزرے ھیں مجھے لگتا ھیکہ اس کیس کا فیصلہ چاھے جو بھی ھو قانونی سزاء ملے یا نہ ملے پر وہ تمام مجرمین جنہوں نے ایسا گندا عمل کیا ھے اور وہ مسلمان ھیں تو انہیں اپنے کئے پر شرمندگی ظاھر کرتے ھوئے اللہ کے دربار میں آہ و زاری کرنی چاھئے کہیں خدا نخواستہ اللہ کی طرف سے سخت گرفت آگئی تو لینے کے دینے پڑ جائینگے
اللہ تعالی ھم سبکو فھم سلیم عطاء فرمائے نیز اپنی مرضیات پر چلنے والا بنائے اور نامرضیات پر چلنے سے ھم سب کی حفاظت فرمائے.....آمین
ajwadullahph@gmail.com
مفتی محمد اجوداللہ پھولپوری نائب ناظم مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائمیر اعظم گڈھ.