Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, September 27, 2019

مسلم سلاطین ہمارے اجداد اور ہمارے لٸیے سرمایہُ افتخار تھے!!

از/طارق ایوبی /صداٸے وقت
============================

*ہاں ہم نے آٹھ سو سال حکومت کی ہے ، ہمیں اس پر فخر ہے ، اور ہم پھر وہی تاریخ رقم کرنا چاہیں گے* ۔ (یہ بقول آپ کے تقریر کا جوش نہیں زبان ہوشمند کا نعرہ ہے ) ۔ہاں وہ ہمارے اجداد تھے جن کی تلواروں کے سایہ میں خواجہ و پیر سبھی تسبیح و ثنا خوانی کے عمل میں سکون و اطمینان سے مصروف تھے ، ہاں وہ ہمارے ہی اجداد تھے جن کی سلطنت میں اعلی دماغ مصنفین و مترجمین سکون سے اپنا کام کر رہے تھے۔ ادبا شعرا فلاسفہ و علماء سب اپنی اپنی مہم میں مگن تھے۔ علم و فکر اور دین و دعوت کی تحریکیں ان بزرگوں کی تلواروں کے سایہ میں جس  قدر پروان چڑھی ہیں وہ ہماری تاریخ کا لافانی حصہ ہے ہم ایک لمحہ کے لیے اس سے انکار نہیں کر سکتے ۔ان ہی کی تلواروں کی جھنکار کے سایہ میں فقہ و فتاوی بھی مرتب ہو رہے تھے کلمہ حق کی ترویج کا کام بھی ہو رہا تھا اور دعوت دین کے تقاضے بھی پورے ہو رہے تھے۔ اورنگ زیب کا دین دیوبند اور ان بزرگوں کے دین سے مختلف نہ تھا ، اورنگ زیب کی مرتب کروائی گئی کتاب فتاوی دیوبند کے مصادر میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے ، اس سے انکار و مفر سوائے سیاسی شعبدہ بازی اور چاپلوسی یا مجبوری کے کچھ نہیں ۔ ہاں یہ درست ہے کہ ان ہی سلاطین میں سے بعض فکری انحراف کا شکار ہوئے اور کچھ ظلم و عیش کوشی میں بھی مبتلا ہوئے مگر استثناءات سے کوئی طبقہ بھی بری نہیں،  بحیثیت مجموعی نہ ان کے کارناموں اور افادیت سے انکار ممکن ہے اور نہ مجموعی طور پر متہم کرنا اور دامن جھاڑنا درست۔  
              آج خلجی و عالمگیر کا سایہ نہیں رہا تو پیر خواجہ کے نام لیواوں نے ان کی قبروں اور ہڈیوں کو بھی مرکز تجارت بنا ڈالا، ان کی طرف نسبت بھی کی برائے چاپلوسی، کیونکہ وہ سایہ ہی نہ رہا جس میں ان کے پیغام کو عام کرتے اور ان کے کام کو لے کر آگے بڑھتے ۔ نظام الدین کا سلسلہ کفر کے در پر جبہ سائی اور خندہ پیشانی کی تعلیم کہاں دیتا ، در در ہاتھ پھیلانے کی تعلیم کہاں دیتا، ظالم کی ہاں میں ہاں ملانا کہاں سکھاتا؟ اس سلسلہ میں تو مظلوموں کی فریادرسی کی جاتی ہے ، تاج وکلاہ کو جوتیوں کی ٹھوکر میں رکھنے   اور جبابرہ وقت کو حقارت سے دیکھنے کی تعلیم ملتی ہے ، دربار اکبری میں سجدہ ریز ہونے کے بجائے اس کا نقشہ بدل دینے کی حکمت و جرات ملتی ہے ۔
             بس کیجئے صاحب!! ہم اپنی تاریخ کے ایک باب سے بھی انکار کے لیے تیار نہیں،  اب مزید قوم کو میٹھی گولیاں دے کر احساس کمتری میں مبتلا کرنا بند کیجئے، خوف کا کاروبار کر کے قیادت کرنا بند کیجئے ، آج اورنگ زیب سے انکار ہے کل شاملی کی جنگ میں امام نانوتوی کی قربانیوں پر بات آئے گی، پھر ۱۸۵۷ کی کوششوں پر پانی پھیرا جائے گا پھر سید احمد شہید کی کوشش سے دامن جھاڑا جائے گا اور بات چلے گی تو پھر کل عمر بن عبد العزیز سے انکار ہو گا پھر سلسلہ چلے گا تو حسین سے ہوتا ہوا جانے کہاں تک پہنچے گا ، ہم آپ کو یہی سمجھا ئیں گے يشترون باياتى  ثمنا قليلا  میں مت شامل ہوئیے اور یاد رکھیے ولن ترضى عنك اليهود ولا النصارى حتى تتبع ملتهم .... اگر روش یہی رہی تو اسلاف کی تمام قربانیوں سے پلو جھاڑنا ہو گا ۔ قوم سے یہ کہیے" تھے تو آباء وہ تمہارے ہی تم کیا ہو" ۔ بتائیے کہ ۸۰۰ سو سال صرف ہند نہیں بلکہ ۱۰۰۰ دنیا کے تمام بر اعظموں پر مسلمانوں کی حکومت رہی، ان کی روش پہ چلو اور پھر تعلیم و ایجاد اور اخلاق کی دھار سے دنیا کو فتح کر کے یک قطبی طاقت بن جاو۔ انکار مت کیجئے کہ وہ ہمارے بزرگ نہیں تھے۔ ہمارا ان سے تعلق نہیں،  آپ کے انکار سے تاریخ نہیں بدلے گی اور نہ اورنگ زیب کے دشمن آپ کو چھوڑ دیں گے،  البتہ محکومیت اور غلامی بلکہ ذہنی درماندگی کا داغ لگ جائے گا،مورخ لکھے گا کہ اکیسویں صدی کے مسلم قائدین اس قدر ذہنی پسماندگی میں مبتلا ہو گئے تھے کہ اپنی تاریخ سے ہی انکار کر رہے تھے ، ان مسلم سلاطین کی اہمیت اسی سے سمجھ لیجئے کہ آج ان کا سایہ ہی نہیں ہے تو مصر و سعودیہ سے بھارت تک  علمائے ملت اسلامیہ یا تو سلاخوں کے پیچھے ہیں یا خاموش ہیں،  ان ہی میں سے کچھ کو وعدہ معاف گواہ بننے پر مجبور کر دیا گیا ہے، یہ حکومتوں کا پرانا طریقہ ہے ، مگر وعدہ معاف گواہ کا انجام بہر اعتبار بہت برا ہوتا ہے ، ہمارے سلاطین مندر و مسجد کو جاگیریں دیتے تھے، ان سلاطین کی اہمیت اور ان سے ہمارا تعلق سمجھنا ہے تو یوں سمجھیے ان کے زمانے میں بزرگوں کے دسترخوان شاہان وقت سے زیادہ وسیع ہوتے تھے دن رات لنگر چلتے تھے، مگر نہ ان کے اکاونٹ چیک کیے جاتے تھے اور نہ ان پر الزامات رکھے جاتے تھے اور نہ ایف سی آر اے کے حسابات کا مطالبہ ہوتا تھا ، وہ مرجع خلائق ہوتے تھے اور شاہان وقت ان کے فرمانبردار محافظ ۔ آج وہی ہمارے اجداد اور ان کی منصفانہ حکومت نہیں ہے تو بہت سے علماء بھی کفر کی کاسہ لیسی پر مجبور ہیں، بہت سے کفر کی زد پر ہیں،  بہت سوں کو مشکوک قرار دے دیا گیا اور بہتوں کی شبیہ خراب کر دی گئی  ۔۔۔۔۔۔ ہم اپنی تاریخ سے دستبردار ہونے اور کاسہ لیسی کرنے اور قوم کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ۔ ایک لمحہ کے لیے نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طارق ایوبی