Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, September 2, 2019

کشمیر کا بحران اور ہندوستان کی مذہبی قیادت۔

از/ظہور وانی/صداٸے وقت۔
=========================
مسلم جماعتوں و قائدین کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ جب تک کوئی قدم نہیں اٹھاتے جب تک کہ پانی سر سے اوپر نہ جائے اور ان کو بار بار غیرت نہ دلائی جائے۔ 

اب کشمیر کا مسئلہ لے لیجئے۔ آج تقریبا ایک مہینہ ہوگیا کشمیر مکمل بند ہے، لیکن کیاکروڑوں و عربوں کا بجٹ رکھنے والی ان جماعتوں نے صرف انسانیت کے ناطے ہی سہی کوئی قدم اٹھایا؟کیا کسی بھی نام نہاد جماعت وقائد نے یہ کوشس کی کہ وہ جاکر دیکھے کہ کیا حالات ہیں؟ کشمیری مسلم بھائیوں کو ہماری مدد کی ضرورت تو نہیں؟ ویسے تو جلسوں کے لئے  کشمیرخوب جاتے ہیں۔ مان لیا کہ آج ڈر لگ رہا ہوگا کہ حکومت ان کی وزٹ کو کوئی دوسرا رنگ نہ دے، کم سے کم یہاں ہندوستان میں جو کشمیری فیملیز یا طلبہ ہیں ان کی خبر گیری تو کرسکتے تھے نا؟ کشمیر ی ہندوستانی نہ سہی گلوبل امت کا حصہ تو ہیں نا؟ تقریروں میں کہتے نہیں تھکتے ہیں کہ المسلمون کجسد واحد اذا اشتکی عینہ اشتکی کلہ، "محمد بن قاسم صرف ایک مجبور مسلم خاتون کی آہ و پکار سن کر یہاں آئے اور ہند وسندھ کو فتح کیا"۔
کشمیر ایک مہینہ سے بند ہے، وہاں کے لوگوں کے کیا احوال ہیں؟ کھانا پینا دوسری بنیادی ضروریات کیسے پوری ہورہی ہیں، جو کشمیری ہندوستان کے مختلف حصوں میں ہیں ان کا کیا حال ہے، جو کشمیری طلبہ یہاں ہندوستان کے مختلف حصوں میں ہیں وہ کیسے گذارا کر رہے ہیں؟ کسی مسلم جماعت نے سوچا؟
اس کے برعکس ہو یہ رہا ہے کہ یہ حضرات کشمیریوں سے دوری بنانے لگے ہیں کہ مبادا کشمیریوں پر جو آزمائش چل رہی ہے اس میں یہ لوگ گرفتار نہ ہوجائیں۔ یہ کوئی الزام نہیں ہے بلکہ صداقت ہے۔ جمعیت اور اس کے زیر اثر اداروں نے ماضی میں بھی یہ پالیسی اپنائی تھی، خود دارالعلوم نے ۹۵ سے تقریبا ۲۰۰۵ تک یہ پالیسی اپنائی تھی کہ کشمیری طلبہ کو حتی الامکان دارالعلوم سے دور رکھاجائے۔ یہی رویہ اب یہ جماعتیں پھر سے اپنارہی ہیں۔
خود میرا اپنا واقعہ ہے کہ چند دن  پہلے میں کشمیر سے دہلی آیا اور یہاں مجھے ایک تعلیمی پروگرام سے منسلک ہونا تھا۔ ہر اعتبار سے میں اس پوسٹ کے لئے اہل تھا اور جتنے انٹرویو وغیرہ کے مراحل تھے میں نے سارے طے کئے تھے کہ کشمیر میں حالات خراب ہوگئے۔ میں صرف اسی کام کے لئے دہلی آیا کہ پتہ کروں کہ میری اپلیکشن کا کیااسٹیٹس ہے۔ میں ان صاحب سے ملا تو ان کا کہنا تھا کہ آپ کی پرفارمنس وپروفائل سب اطمینان بخش ہے لیکن ہم مجبور ہیں آپ کا کشمیری ہونا آپ کے لئے گناہ بن گیا ہے ۔ آپ کو کشمیری ہونے کی وجہ سے نہیں لے سکتے۔ آپ جانتے ہیں کہ کشمیر کے کیسے حالات ہیں، ایسے حالات میں ہم یہ خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ یہ ہے ہماری قوت ایمانی۔
ان سے زیادہ تو سکھوں میں ہمت، انسانی جذبہ و ہمدردی ہے کہ ان کی فلاحی تنظیمیں پہلے دن سے صرف انسانیت کے ناطے لگے ہوئے ہیں۔ در در جاکر پتہ کررہے ہیں کہ یہاں کوئی کشمیری فیملی یا طالب علم پریشان تو نہیں ہے۔ ہم ان کے ساتھ ہیں۔ جگہ جگہ گروسری، نقد وغیرہ پہنچا رہے ہیں، خود میرے فلیٹ پر خالصہ کمیٹی کے لوگ آئے، نیٹ سے ہمارے نمبرات نکالے اور ہمارے کچھ ساتھیوں کو فون کرتے ہیں کہ کھانے پینے کے سامان یا مکان کا کرایہ نہ ہو تو پریشان مت ہونا ہم ادا کریں گے(ہمارا مکان مالک مسلم ہے، خود پرائیوٹ نوکری میں اچھی تنخواہ ہے اور بیوی سرکاری ٹیچر، دو ہی لوگوں کی فیملی اور ایک سالہ چھوٹی بچی، اس سے ہم نے ایڈوانس دو مہینے کی رینٹ دینے کا وعدہ کیا تھا، چوں کہ حالات خراب ہوگئے تو اس سے ہم نے کہا کہ اس ماہ آپ اسی مہینہ یعنی ستمبر کا رینٹ لے لو، ہمارا گھر سے رابطہ ہوجائے گا تو اگلے مہینے آپ کو اکتوبر ونومبر کا رینٹ ساتھ دیں گے، نہیں تیار ہوا )۔ یہ تو بیچ میں ضمنی بات یاد آگئی۔ خیر جب کشمیری بھی اپنے گھروں سے گھر کے گیٹ تک نکلنے کی ہمت نہیں کرپارپے تھے ان سکھ جماعتوں کے افراد اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر کچھ کشمیری بچوں کو بحفاظت ان کے گھر پہنچا آئے۔
کیا اسی کو ایمانی اخوت کہتےہیں؟ کیا یہی اسلام کی انسانیت کے متعلق تعلیم کا اثر ہے؟ اور کیا یہی مسلم غیرت ہے کہ ایک مجبور کشمیری لڑکی ایک سکھ سردار کی نگرانی میں ہزاروں کلومیٹر سفر کرے اور ہمیں کوئی فرق نہ پڑے؟
ظہور وانی