از/آیاز احمد اصلاحی/صداٸے وقت۔
=============================
پہلے میری یہ *تمھیدی* سطریں ملاحظہ کریں :
..............................................................
۔۔میں یہاں سب سے پہلے آپ کو ایک شخصیت سے متعارف کراتا ہوں:
میری ایک بہن ہیں جن کا نام تزئین حسن ہے،
ان کا تعلق پاکستان سے ہے، اعلی تعلیم یافتہ ہیں، وہ فی الحال امریکہ میں ہیں، ہارورڈ سے تعلیم حاصل کی اور اس وقت وہیں سے صحافت میں پی جی کر رہی ہیں، ایک معروف اسکالر انگریزی کی صحافی اور کالم نگار ہیں ، ان کی اسلام دوستی اور علم دوستی دونوں پر مجھے پورا بھروسہ ہے، وہ چاہتی ہیں کہ امت مسلمہ فکر و تحقیق کے میدان میں آگے بڑھے اور خود ایک طاقت بن کر ابھرے، اور دفاع سے لیکر علمی اکتشافات تک کسی میدان میں بھی وہ ایک پسماندہ قوم بن کر نہ رہے ۔ ان کی نظر میں اس کے بغیر مسلمان یا مسلم ممالک اپنے مخالفین کے خلاف واویلا تو کر سکتے ہیں لیکن زندگی کے مختلف میدانوں میں دنیا کی بڑی قوتوں کا مقابلہ کبھی نہیں کر سکتے ۔ بلکہ اسلام مخالف جدید قوتوں کو شکست دینے کے لیئے مسلم معاشرے کی اصلاح اور اس کے تعلیمی ارتقا کی منصوبہ بندی پہلی شرط ہے، اس کے علاوہ ہمارے معاشرے کو اعتدال اور خاموش جدوجہد کا بھی خود کو عادی بنانا ہوگا، اور اس ماحول سے خود کو باہر نکالنا ہوگا جہاں بات بات پر "اسلام خطرے میں ہے" کا نعرہ لگا کر محض احتجاجی ریلیاں نکالی جاتی ہیں ، تنگ مسلکی و فقہی موشگافیوں کو خدمت دین کا نام دے دیا جاتا ہے اور احکام اسلام کی من مانی تشریح کر کے امت کے اتحاد اور اس کی تعمیری پروگرس دونوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جاتا ہے۔۔۔
تزئیں حسن صاحبہ اپنے مشن میں حیرت انگیز حد تک فعال ہیں ، وہ اپنی گوناگوں مصروفیات اور پیشے سے جڑے اسفار کے علاوہ سوشل میڈیا کے لیئے بھی اچھا خاصا وقت نکال لیتی ہیں ، مختلف اصلاحی موضوعات پرخود لکھتی ہیں ، دوسروں کو لکھنے پر آمادہ کرتی ہیں اور اسی کے ساتھ اصلاحی و تعمیری غرض سے فطری و غیر رسمی طور سے نوجوان نسل کی ذہن سازی میں بھی مصروف ہیں، نوجوانوں کی حوصلہ افزائی میں ذرا بھی بخل سے کام نہیں لیتیں، اس معاملے میں ان کی جوہر شناسی کی صلاحیت بھی بے مثال ہے۔۔۔۔تحریک اسلامی سے ان کا فکری و قلبی تعلق ہے وہ اس سے اتنا ہی قریب ہیں جتنا کوئی تحریکی ایکٹیوسٹ۔
ہماری اس انتھائی قابل احترام بہن کی ایک منفرد خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ اگر کسی ناپختہ و غیر معروف قلم سے نکلنے والی چند سطریں بھی اپنے اعلی تعمیری مقصد کے لیئے مفید پاتی ہیں تو اسے بھی اپنے قیمتی نوٹ کے ساتھ ہم سے شئر کرنے میں کسی دریغ سے کام نہیں لیتیں۔۔۔ یہ سچ ہے کہ پاکستان کے موجودہ معاشرے میں ، جو مختلف سطح پر ابھی تک بڑی حد تک غیر مستحکم ہے اور اب بھی ایک سمت کی تلاش میں ہے، وہاں ان جیسی شخصیات کی بڑی قیمت ہے، دعا ہے کہ اللہ تعالی ان سے زیادہ سے زیادہ اسلام و انسانیت کی خدمت لے اور انھیں ہمیشہ صحت و سلامتی کے ساتھ رکھے۔
۔۔۔ میری اسی بہن نے حال ہی میں ایک پاکستانی نوجوان ( انعام الرؤف) کی وال سے کچھ اچھے اقتباسات لیکر اپنی وال پر اپنے نوٹ کے ساتھ پیش کیا ہے اور اس پوسٹ میں انھوں نے مجھے بھی ٹیگ کیا ہے، میں نے وقت نکال کر ان کی اس پوسٹ پر دو تبصرے کیئے تھے جو جزوی ترمیم و اضافہ کے بعد ذیل میں عام قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔۔۔ امید ہے آپ حضرات اپنی رایوں سے بھی ہمیں مستفید کریں گے۔
=============================
پہلے میری یہ *تمھیدی* سطریں ملاحظہ کریں :
..............................................................
۔۔میں یہاں سب سے پہلے آپ کو ایک شخصیت سے متعارف کراتا ہوں:
میری ایک بہن ہیں جن کا نام تزئین حسن ہے،
ان کا تعلق پاکستان سے ہے، اعلی تعلیم یافتہ ہیں، وہ فی الحال امریکہ میں ہیں، ہارورڈ سے تعلیم حاصل کی اور اس وقت وہیں سے صحافت میں پی جی کر رہی ہیں، ایک معروف اسکالر انگریزی کی صحافی اور کالم نگار ہیں ، ان کی اسلام دوستی اور علم دوستی دونوں پر مجھے پورا بھروسہ ہے، وہ چاہتی ہیں کہ امت مسلمہ فکر و تحقیق کے میدان میں آگے بڑھے اور خود ایک طاقت بن کر ابھرے، اور دفاع سے لیکر علمی اکتشافات تک کسی میدان میں بھی وہ ایک پسماندہ قوم بن کر نہ رہے ۔ ان کی نظر میں اس کے بغیر مسلمان یا مسلم ممالک اپنے مخالفین کے خلاف واویلا تو کر سکتے ہیں لیکن زندگی کے مختلف میدانوں میں دنیا کی بڑی قوتوں کا مقابلہ کبھی نہیں کر سکتے ۔ بلکہ اسلام مخالف جدید قوتوں کو شکست دینے کے لیئے مسلم معاشرے کی اصلاح اور اس کے تعلیمی ارتقا کی منصوبہ بندی پہلی شرط ہے، اس کے علاوہ ہمارے معاشرے کو اعتدال اور خاموش جدوجہد کا بھی خود کو عادی بنانا ہوگا، اور اس ماحول سے خود کو باہر نکالنا ہوگا جہاں بات بات پر "اسلام خطرے میں ہے" کا نعرہ لگا کر محض احتجاجی ریلیاں نکالی جاتی ہیں ، تنگ مسلکی و فقہی موشگافیوں کو خدمت دین کا نام دے دیا جاتا ہے اور احکام اسلام کی من مانی تشریح کر کے امت کے اتحاد اور اس کی تعمیری پروگرس دونوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جاتا ہے۔۔۔
تزئیں حسن صاحبہ اپنے مشن میں حیرت انگیز حد تک فعال ہیں ، وہ اپنی گوناگوں مصروفیات اور پیشے سے جڑے اسفار کے علاوہ سوشل میڈیا کے لیئے بھی اچھا خاصا وقت نکال لیتی ہیں ، مختلف اصلاحی موضوعات پرخود لکھتی ہیں ، دوسروں کو لکھنے پر آمادہ کرتی ہیں اور اسی کے ساتھ اصلاحی و تعمیری غرض سے فطری و غیر رسمی طور سے نوجوان نسل کی ذہن سازی میں بھی مصروف ہیں، نوجوانوں کی حوصلہ افزائی میں ذرا بھی بخل سے کام نہیں لیتیں، اس معاملے میں ان کی جوہر شناسی کی صلاحیت بھی بے مثال ہے۔۔۔۔تحریک اسلامی سے ان کا فکری و قلبی تعلق ہے وہ اس سے اتنا ہی قریب ہیں جتنا کوئی تحریکی ایکٹیوسٹ۔
ہماری اس انتھائی قابل احترام بہن کی ایک منفرد خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ اگر کسی ناپختہ و غیر معروف قلم سے نکلنے والی چند سطریں بھی اپنے اعلی تعمیری مقصد کے لیئے مفید پاتی ہیں تو اسے بھی اپنے قیمتی نوٹ کے ساتھ ہم سے شئر کرنے میں کسی دریغ سے کام نہیں لیتیں۔۔۔ یہ سچ ہے کہ پاکستان کے موجودہ معاشرے میں ، جو مختلف سطح پر ابھی تک بڑی حد تک غیر مستحکم ہے اور اب بھی ایک سمت کی تلاش میں ہے، وہاں ان جیسی شخصیات کی بڑی قیمت ہے، دعا ہے کہ اللہ تعالی ان سے زیادہ سے زیادہ اسلام و انسانیت کی خدمت لے اور انھیں ہمیشہ صحت و سلامتی کے ساتھ رکھے۔
۔۔۔ میری اسی بہن نے حال ہی میں ایک پاکستانی نوجوان ( انعام الرؤف) کی وال سے کچھ اچھے اقتباسات لیکر اپنی وال پر اپنے نوٹ کے ساتھ پیش کیا ہے اور اس پوسٹ میں انھوں نے مجھے بھی ٹیگ کیا ہے، میں نے وقت نکال کر ان کی اس پوسٹ پر دو تبصرے کیئے تھے جو جزوی ترمیم و اضافہ کے بعد ذیل میں عام قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔۔۔ امید ہے آپ حضرات اپنی رایوں سے بھی ہمیں مستفید کریں گے۔
اب میری تحریر پیش ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسانی فطرت سے قریب رہیں۔
جو دینی جماعتیں اپنے لیئے احتساب کا دروازہ بند کر لیتی ہیں اور ہر تنقید کرنے والے کو اپنے دشمنوں کی فہرست میں ڈال دیتی ہیں وہ ایک مدت کے بعد اپنے ہی خول میں گھٹ کر مر جاتی ہیں ، وہاں سے خلق خدا کو نہ تو کبھی فکر کے تازہ جھونکے ملتے ہیں، نہ بالیدہ قیادت اور نہ ہی حالات میں انقلاب پیدا کرنے والے خاص فیصلے اور اقدامات ، دینی جماعتوں کے کارکنوں کا اس پہلو سے چوکنا رہنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا اسلامی کاز کے لیئے آگے بڑھنا۔ بر صغیر کی جماعتوں میں جماعت اسلامی کی خصوصیات میں سے ایک بڑی خصوصیت یہ بھی رہی ہے کہ اس نے اپنے یہاں بغیر کسی فرق مراتب کے بے لاگ احتساب کا نظام ہمیشہ چست و درست رکھا ہے اور یہاں چھوٹے بڑے کسی قائد کو مولانا محمود مدنی کی طرح اپنی ذاتی یا مداہنتی خواہشات کو تحریک اسلامی کی پالیسی بنانے کی اجازت نہیں ہے۔۔یہ میں اس لیئے کہ رہا ہوں کیونکہ میری معلومات کی حد تک الحمد للہ جماعت اسلامی میں دیگر جماعتوں کے بالمقابل نقد و احتساب کی روایت آج بھی زیادہ پائیدار ہے، جماعت کا یہ داخلی محاذ نہ صرف اس کے ارکان بلکہ عام واپستگان کے لیئے بھی ہمیشہ کھلا رکھا جاتا ہے اور جماعتی قیادت اسے کبھی برا نہیں مانتی اور نہ کسی تحفظ کا اظہار کرتی ہے، بلکہ یہی صحت مند روایت اس کے استحکام و توانائی کی اصل وجہ ہے۔۔
لیکن یہاں اس تحریر کے حوالے سے جس میں منصورہ ( جماعت اسلامی، پاکستان) کے ایک اقدام کی طرف اشارہ ہے، میرے کہنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ کسی ایک مثال کی بنیاد پر یا کسی ایک جماعت کو جس سے ہمارا مثبت یا منفی سابقہ پڑتا یے، بطور مثال سامنے رکھ کر اخذ کیا جانے والا نتیجہ اور اس پر مبنی تجزیہ کبھی کبھی یکرخے پن یا افراط و تفریط کا شکار ہوجاتا ہے۔۔۔ اس پہلو سے بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔۔۔ گو کہ اس نوجوان نے جس پس منظر میں ایک عارضی مھم کی افادیت کے تعلق سے اپنی تحریر میں سوال کیا ہے وہ بالکل غلط بھی نہیں ہے، کیونکہ کسی کام کا مقصد کے لحاظ سےصحیح ہونا ایک بات ہے اور اس کا طریقہ کار اور اس کی ترجیحاتی توجیہ ایک دوسری بات ہے، جس پر کوئی بھی اپنے اطمئنان یا عدم اطمئنان کا اظہار کر سکتا ہے، لیکن میں نے جو یہ سوال اٹھایا ہے کہ ایک عام معاشرتی رجحان کے تجزیہ میں صرف منصورہ( یعنی اس کے ایک اقدام) کو ہی مثال میں کیوں پیش کیا گیا تو اس کا مقصد صرف مسئلے کے دوسرے پہلو کو بھی روشنی میں لانا ہے نہ کہ مذکورہ نوجوان کی ذاتی رائے کی تردید؟ ( واضح رہے کہ یوم خواتین کے موقع سے جماعت اسلامی پاکستان نے اس بار حجاب ڈے منایا تھا اوراس نوجوان نے جس کا تعلق ایک تحریکی خانوادے سے ہے، حجاب ڈے کی ضرورت و افادیت پر سوال اٹھایا ہے اور یہ لکھا ہے کہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں عام طور سے واضح شرعی احکام کے باوجود لڑکیوں کو وراثتی حصے سے محروم رکھا جاتا ہے وہاں "حجاب ڈے" سے پہلے ہمیں ان کے حقوق کے لیئے مھم چلانی چاہیے اور ان کے حقوق کی بات کرنے والوں کو شک کی نظر سے نہیں دیکھناچاہیئے ۔ ۔ )
میری معلومات کے مطابق وراثت کی بلا تفریق جنس منصفانہ تقسیم اور ازدواجی و سماجی تعلقات میں ذات پات کی رکاوٹوں سے مسلم معاشرے کو نجات دلانے کی مھم کا آغاز بھی بر صغیر میں سب سے پہلے اسی جماعت نے شروع کیا ہے اور اس کے ارکان کی ایک قابل لحاظ تعداد نے تمام مشکلات کے باوجود اس پر انقلابی طور سے عمل کر کے بھی دکھایا ہے اور آج بھی ضرورت ہے کہ تحریک اسلامی ان مسائل کو اپنے مستقل ایجنڈے کا حصہ بنائے کیونکہ ان خرابیوں کو دور کیئے بغیر ایک آئیڈیل مسلم معاشرے کا قیام ممکن نہیں ۔۔۔ بے شک قیادت کے معیار میں فرق کی وجہ سے ہماری کوششوں اور ترجیحات میں کبھی کبھی غیر مطلوب فرق آجاتا ہے یا آ سکتا ہے لیکن اس سے اس طرح کی مخصوص تحریک کی اساسیات میں کبھی فرق نہیں آتا الا آنکہ اس کا پوری طرح فیس وولاٹائل ہی ہو جائے۔۔۔ اللہ کا شکر ہے تحریک اسلامی بحیثیت مجموعی ابھی اس قسم کی اندرونی بیماریوں سے پاک ہے اور معاشرے میں ذہن سازی کے بل پر اسلامی بنیادوں ہر مثبت تبدیلی آج بھی اس کا اصل ہدف ہے۔
ہمارے مباحثوں میں ان باتوں کا بھی بطور مثال ذکر آنا چاہیے اور معاشرے کی اصلاح میں کبھی کبھی جماعتی یا انفرادی سطح پر ہونے والی مثبت و مفید کوششوں کی حوصلہ افزائی بھی ہونی چاہیے تا کہ ہمارے تجزیے کا عام لوگوں پر مثبت اثر مرتب ہو۔ ایسا قطعا نہ ہو کہ کسی ایک یا چند واقعات کی بنیاد پر ہم ان کے بارے میں منفی رائے لیکر بیٹھ جائیں۔۔۔۔
اس گفتگو کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ دینی جماعتوں کو بھی اپنے مطالبات و مھمات کے دوران اپنی سوچ کو ہمیشہ معتدل رکھنا چاہیے اور ہر بات کو احتجاجی ایجنڈا بنانے کی بجائے مثبت اور دور رس اصلاحات پر اپنی کوششیں مرکوز رکھنی چاہیے۔ یاد رکھئے اخلاص و اعتدال کے ساتھ
اصلاح و جد و جھد جاری رکھنا ہمارا کام ہے اور اتمام دین اور خیر کی ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ، یہ محض عبارت آرائی نہیں بلکہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ جس دن اور جہاں اس کی مصلحت کا تقاضا ہوگا یہ دین فصل بہار کی طرح انسانی معاشرے اور انسانی دلوں میں اپنی جگہ بنا لے گا، اسے نہ تو ہماری احتجاجی ریلیوں کی ضرورت ہے اور نہ حکمرانوں کی بیساکھی کی، اسلامی تھذیب تو ایک تریاق ہے اور ہمیں اسے اسی شکل میں یہ تریاق بندگان خدا کو پیش کرنا چاہیے۔۔۔ کون احمق ہےجو جانتے بوجھتےتریاق لینے سے انکار کرے گا ؟
اصلاح و جد و جھد جاری رکھنا ہمارا کام ہے اور اتمام دین اور خیر کی ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ، یہ محض عبارت آرائی نہیں بلکہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ جس دن اور جہاں اس کی مصلحت کا تقاضا ہوگا یہ دین فصل بہار کی طرح انسانی معاشرے اور انسانی دلوں میں اپنی جگہ بنا لے گا، اسے نہ تو ہماری احتجاجی ریلیوں کی ضرورت ہے اور نہ حکمرانوں کی بیساکھی کی، اسلامی تھذیب تو ایک تریاق ہے اور ہمیں اسے اسی شکل میں یہ تریاق بندگان خدا کو پیش کرنا چاہیے۔۔۔ کون احمق ہےجو جانتے بوجھتےتریاق لینے سے انکار کرے گا ؟
اپنے اس نقطہ نظر کو میں مزید واضح کروں تو مجھے کہنا پڑے گا کہ ہر مسئلے میں سب سے پہلے مینیمم ہی ہمارا مطلوب ہو کہ فطری اصلاح و تبدیلی کا یہی فطری طریقہ ہے، اس بات کو ایک مثال سے اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ ہمیں ایک ایسی مسلم بہن کو جو مکمل نقاب نہیں پہنتی لیکن حیا کو اپنے ظاہری و باطنی رکھ رکھاو میں اپنا زیور بنائے رکھنا اس کی خصوصیت ہو تو اسے ہم کبھی اپنی اسلامیت کی فہرست سے خارج نہ کریں کیونکہ اصل مطلوب یہی ہے اور ہر اسلامی حکم کے پیچھے یہی روح مطلوب ہوتی ہے۔۔۔ اس طرح اس خاتون کو بھی ہمیں اسی احترام کی نظر سے دیکھنا چاہیے جیسے ہم ایک با حجاب خاتون کو دیکھتے ہیں، اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک شخص پنج وقتہ نماز کا بھر پور اہتمام تو کرتا ہو لیکن تھجد نہ پڑھتا ہو۔۔ اس میں ہمارا کیا رویہ ہونا چاہیے ؟ اگر ہر ایک سے تھجد کی توقع کرنا اور صرف تھجد پڑھنے والوں کو ہی اصل دیندار سمجھنا اسلامی نقطہ نظر سے صحیح نہیں ہے تو ان معاشرتی مسائل میں بھی جن کا ذکر اوپر آیا ہے ہمارا رویہ ایسا ہی ہونا چاہیے ۔۔۔ اسلام دین فطرت ہے اور اس کا تقاضا ہے کہ ہماری ہر دور رس اصلاحی کوشش انسانی فطرت کو اپیل کرنے والی ہو اور تدریج و اعتدال اس کا مزاج ہو۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ہمارے یک رخے دینی مطالبات نئی نسل کو اسلامی تھذیب و روایات سے مانوس کرنے کی بجائے الٹا ان سے بیزار کرنے کا سبب بنیں گے۔۔۔ اگر آپ انسانی ذہن کو بدلنا اور ان کے دلوں کو راہ حق کی طرف موڑنا چاہتے ہیں تو خود کو انسانی فطرت سے قریب رکھیے ۔
میں واضح کردوں کہ یہاں میرے مخاطب دو فریق ہیں ، ایک فریق تو اصلاح و اقدام کرنے والی اسلامی تحریکات اور ان سے وابستہ افراد ہیں اور دوسرے فریق سے وہ لوگ تعلق رکھتے ہیں جو اسلامی تحریکوں اور اس کے افراد پر نقد و احتساب کی نظر رکھتے ہیں اور ساتھ ہی ان سے بہت ساری توقعات وابستہ کیئے رہتے ہیں۔۔۔ مختصرا میری نظر میں دونوں جانب سے اپنے رویوں میں احتیاط لازم ہے اور دونوں فریقوں کی روش میں حسن ظن اور حسب موقع دوسروں کے تئیں حوصلہ افزائی کا عنصر غالب ہو کیونکہ یہی اسلامی اعتدال کی راہ ہے اور اسی کو ہمارے اسلامی معاشروں کی شناخت بننا چاہیے۔۔۔۔۔۔
اس کے برعکس ایک دوسری روش تنگ نظری و دل شکنی کی ہے، یہ دل شکنی یا حوصلہ کسی مسئلے کا علاج تو نہیں کرتی البتہ دوریاں بڑھانے ، حوصلے گھٹانے اور تعاون کی راہیں مسدود کرنے کا کام ضرور کرتی ہے، اس لیئے اس سے بچنا میرے نزدیک سم قاتل سے بچنے کے برابر ہے۔
ترا شعور باید زاں شعوری
دمی غافل نہ باش از حق حضوری
ایاز احمد اصلاحی
لکھنؤ یونیورسٹی، انڈیا
Tazeen Hasan
دمی غافل نہ باش از حق حضوری
ایاز احمد اصلاحی
لکھنؤ یونیورسٹی، انڈیا
Tazeen Hasan