اعظم گڑھ۔۔۔۔اتر پردیش۔۔۔صداٸے وقت/ڈاکٹر شر ف الدین اعظمی۔ ٢٠ ستمبر ٢٠١٩۔
=============================
آج سے ٹھیک ١١ سال قبل ١٩ ستمبر ٢٠٠٨ کو اعظم گڑھ (سنجر پور) کے دو طلبہ عاطف و ساجد کو دہلی پولیس نے ایک فرضی انکاونٹر میں شہید کردیا تھا۔پورے اعظم گڑھ ضلع میں ماتمی کیفیت تھی۔اس واقعہ کے بعد لوگوں نے اپنے بچوں کو دہلی بغرض تعلیم بھیجنے سے گریز کرنے لگے تھے۔ اس فرضی انکاونٹر کا دہلی پولیس جو بھی جواز پیش کر کے فاٸل کو بند کروا دیا ہو مگر سچاٸی یہ ہے کہ انکاونٹر فرضی و سیاست پر مبنی تھا ۔۔اس وقت اس تعلق سے بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور معروف صحافی ڈاکٹر عزیز برنی نے تو پوسٹ مارٹم کی رپورٹ اور گولی مارنے کی ڈاٸریکشن تک لکھ کر اس بات کو ثابت کیا کہ انکاونٹر تھا ہی نہیں بلکہ کمرے میں بند دو بچوں کو پولیس نے کھڑکی /روشن دان سے گولی ماری۔۔۔پولیس کے مطابق ایک لڑکا فرار ہوگیا جبکہ وہاں بھاگنے کی ایک سیڑھی کے علاوہ کوٸی راستہ نہیں تھا جس پر بھاری تعداد میں پولیس کے نوجوان تعینات تھے۔۔۔البتہ اس دوران ایک اور واقعہ ہوا۔۔ایک پولیس انسپکٹر بھی مارا گیا۔۔۔پوری کہانی کا کردار اسی انسپکٹر کے ارد گرد گھومتا ہے۔۔۔جس کو گولی پیچھے سے لگی تھی۔۔۔جبکہ انکاونٹر میں گولی سامنے سے لگنی چاہٸے تھی۔۔۔۔اس انسپکٹر کی موت نے پوری کہانی کو سچ بنا دیا جبکہ وہ بے گناہ انسپکٹر بھی اسی سازش کا شکار ہوگیا۔۔۔۔جسکو عزیز برنی نے واضح طور پر لکھ دیا۔: ١١ سال بعد لوگ اس واقعہ کو بھول چکے ہیں مگر علمإ کونسل ہر سال ١٩ ستمبر کو اپنا مطالبہ کرتی ہے کہ ”بٹلہ ہاوس فرضی انکاونٹر “ کی جانچ کراٸی جاٸے ۔۔۔مگر کوٸی بھی حکومت تفتٕش کے لٸیے تیار نہیں ہوٸی۔۔۔سپریم کورٹ نے بھی اس معاملہ میں فیصلہ دے دیا ہے کہ جانچ کی ضرورت نہں ہے۔۔۔۔دہلی کی عام آدمی پارٹی نے الیکشن کے وقت یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر ان کی سرکار بنی تو سکھ مخالف فساد 1984 اور بٹلہ ہاوس انکاونٹر کی جانچ کے لٸیے ایس آٸی ٹی کی تشکیل کریں گے۔۔۔۔۔سکھ مخالف دنگوں کے لٸیے تو ایس آ ٸی ٹی کی تشکیل ہوگٸی مگر بٹلہ ہاوس پر خاموشی ہے۔
اس سلسلے میری خود کچھ سال قبل عام آدمی پارٹی کے یو پی کے پربھاری سنجٸے سنگھ سے بات ہوٸی تھی۔میں نے بھی مطالبہ کیا کہ بٹلہ ہاوس انکاونٹر کی جانچ کرواٸی جاٸے تو انھوں نے سپریم کورٹ کا حوالہ دیکر بات کو ٹال دیا
واضح کر دیں کہ سکھوں نے 1984 کے فساد کو ابھی تک یاد رکھا ہے اور ٣٥ سال گزر چکے ہیں پھر بھی ان کا احتجاج جاری رہتا ہے اور ابھی بھی وہ اس بات کے لٸیے کوشاں ہیں کہ مجرموں کو سزا ملے ۔۔۔دو ایک کانگریسی نیتا جیل میں بھی ہیں جو اس فساد میں ملوث تھے۔
اس کے برعکس ہم مسلمان مراد آباد سے لیکر گجرات اور بھاگل پور سے لیکر مظفر نگر تک کے سیکڑوں مسلم کش فسادات کو بھول چکے ہیں
=============================
آج سے ٹھیک ١١ سال قبل ١٩ ستمبر ٢٠٠٨ کو اعظم گڑھ (سنجر پور) کے دو طلبہ عاطف و ساجد کو دہلی پولیس نے ایک فرضی انکاونٹر میں شہید کردیا تھا۔پورے اعظم گڑھ ضلع میں ماتمی کیفیت تھی۔اس واقعہ کے بعد لوگوں نے اپنے بچوں کو دہلی بغرض تعلیم بھیجنے سے گریز کرنے لگے تھے۔ اس فرضی انکاونٹر کا دہلی پولیس جو بھی جواز پیش کر کے فاٸل کو بند کروا دیا ہو مگر سچاٸی یہ ہے کہ انکاونٹر فرضی و سیاست پر مبنی تھا ۔۔اس وقت اس تعلق سے بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور معروف صحافی ڈاکٹر عزیز برنی نے تو پوسٹ مارٹم کی رپورٹ اور گولی مارنے کی ڈاٸریکشن تک لکھ کر اس بات کو ثابت کیا کہ انکاونٹر تھا ہی نہیں بلکہ کمرے میں بند دو بچوں کو پولیس نے کھڑکی /روشن دان سے گولی ماری۔۔۔پولیس کے مطابق ایک لڑکا فرار ہوگیا جبکہ وہاں بھاگنے کی ایک سیڑھی کے علاوہ کوٸی راستہ نہیں تھا جس پر بھاری تعداد میں پولیس کے نوجوان تعینات تھے۔۔۔البتہ اس دوران ایک اور واقعہ ہوا۔۔ایک پولیس انسپکٹر بھی مارا گیا۔۔۔پوری کہانی کا کردار اسی انسپکٹر کے ارد گرد گھومتا ہے۔۔۔جس کو گولی پیچھے سے لگی تھی۔۔۔جبکہ انکاونٹر میں گولی سامنے سے لگنی چاہٸے تھی۔۔۔۔اس انسپکٹر کی موت نے پوری کہانی کو سچ بنا دیا جبکہ وہ بے گناہ انسپکٹر بھی اسی سازش کا شکار ہوگیا۔۔۔۔جسکو عزیز برنی نے واضح طور پر لکھ دیا۔: ١١ سال بعد لوگ اس واقعہ کو بھول چکے ہیں مگر علمإ کونسل ہر سال ١٩ ستمبر کو اپنا مطالبہ کرتی ہے کہ ”بٹلہ ہاوس فرضی انکاونٹر “ کی جانچ کراٸی جاٸے ۔۔۔مگر کوٸی بھی حکومت تفتٕش کے لٸیے تیار نہیں ہوٸی۔۔۔سپریم کورٹ نے بھی اس معاملہ میں فیصلہ دے دیا ہے کہ جانچ کی ضرورت نہں ہے۔۔۔۔دہلی کی عام آدمی پارٹی نے الیکشن کے وقت یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر ان کی سرکار بنی تو سکھ مخالف فساد 1984 اور بٹلہ ہاوس انکاونٹر کی جانچ کے لٸیے ایس آٸی ٹی کی تشکیل کریں گے۔۔۔۔۔سکھ مخالف دنگوں کے لٸیے تو ایس آ ٸی ٹی کی تشکیل ہوگٸی مگر بٹلہ ہاوس پر خاموشی ہے۔
اس سلسلے میری خود کچھ سال قبل عام آدمی پارٹی کے یو پی کے پربھاری سنجٸے سنگھ سے بات ہوٸی تھی۔میں نے بھی مطالبہ کیا کہ بٹلہ ہاوس انکاونٹر کی جانچ کرواٸی جاٸے تو انھوں نے سپریم کورٹ کا حوالہ دیکر بات کو ٹال دیا
واضح کر دیں کہ سکھوں نے 1984 کے فساد کو ابھی تک یاد رکھا ہے اور ٣٥ سال گزر چکے ہیں پھر بھی ان کا احتجاج جاری رہتا ہے اور ابھی بھی وہ اس بات کے لٸیے کوشاں ہیں کہ مجرموں کو سزا ملے ۔۔۔دو ایک کانگریسی نیتا جیل میں بھی ہیں جو اس فساد میں ملوث تھے۔
اس کے برعکس ہم مسلمان مراد آباد سے لیکر گجرات اور بھاگل پور سے لیکر مظفر نگر تک کے سیکڑوں مسلم کش فسادات کو بھول چکے ہیں
۔
اعظم گڑھ کی سیاسی تنظیم علمإ کونسل نے اپنے بچوں کی شہادت کو یاد رکھا ہے اور اپنی بساط کے مطابق اس جدو جہد میں ہیں کہ بٹلہ ہاوس فرضی انکاونٹر کی جانچ کرا کر مجرمین کو سزا دلا سکیں۔ہر سال ان کا احتجاجی مظاہرہ ہوتا ہے کیفیات ایکسپریس کو علمإ کونسل ایکپریس بنا دیا جاتا ہے ۔دہلی کے جنتر منتر پر ہر سال مظاہرہ کرکے جانچ کا مطالبہ کیا جاتا ہے
اعظم گڑھ کی سیاسی تنظیم علمإ کونسل نے اپنے بچوں کی شہادت کو یاد رکھا ہے اور اپنی بساط کے مطابق اس جدو جہد میں ہیں کہ بٹلہ ہاوس فرضی انکاونٹر کی جانچ کرا کر مجرمین کو سزا دلا سکیں۔ہر سال ان کا احتجاجی مظاہرہ ہوتا ہے کیفیات ایکسپریس کو علمإ کونسل ایکپریس بنا دیا جاتا ہے ۔دہلی کے جنتر منتر پر ہر سال مظاہرہ کرکے جانچ کا مطالبہ کیا جاتا ہے
راشٹریہ علمإ کونسل نے اس بار ١٩ ستمبر کو دہلی کے وزیر اعلیٰ کی رہاٸش گاہ کا اجتجاجاً محاصرہ کیا اور کونسل کے قومی صدر مولانا عامر رشادی اور قومی جنرل سکریٹری مولانا طاہر مدنی کی قیادت میں پر زور مطالبہ بھی کیا گیا کہ بٹلہ ہاوس فرضی انکاونٹر کی جانچ کے لٸیے دہلی کے وزیر اعلیٰ حسب وعدہ ایس آٸی ٹی کی تشکیل کریں۔
خبروں کے مطابق احتجاج زور دار رہا ۔ہزاروں کی تعداد میں کارکنان نے حکومت مخالف نعرے لگاٸے ۔۔۔اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ۔۔جمہوری ملک میں جس حوصلے اور ہمت کیساتھ علمإ کونسل کے اراکین اپنے قاٸد کی سر پرستی میں مظاہرہ کیا وہ قابل مبارکباد ہے۔
نارمل حالات میں ایسے مظاہرے ہوتے رہتے ہیں مگر آج کل کے مسلم مخالف حالات میں جہاں مسلمان اپنی شناخت چھپانے کی فکر میں رہتا ہے۔۔۔دوران سفر ڈر، خدشہ اور نہ جانے کن کن کیفیات سے گزرتا ہے ایسے حالات میں ہمت و حوصلہ کا مظاہرہ کرتے ہوٸے کونسل نے ایک بار پھر کیفیات کو علما ایکسپریس بنا دیا۔۔اور سب کو معلوم ہے کہ یہ ٹرین کن کن راستوں سے گزرتی ہے۔راستوں اور فرقہ پرست طاقتوں کی پرواہ نہ کرتے ہوٸے اعظم گڑھ و اطراف کے ضلعوں سے سیکڑوں کی تعداد میں کارکنان (مسلم اکثریت) کو دہلی لیکر جانا اور مظاہرہ کرنا بہت ہی ہمت کا کام ہے جس کے لٸیے میں علمإ کونسل کو مبارکباد پیش کرتا ہوں
جب بھی کونسل کے زریعہ دہلی مارچ کی خبریں صداٸے وقت پر شاٸع ہوٸیں ہر بار کچھ منفی کمنٹ آٸے ۔۔جس میں بیشتر علمإ کرام کے ہی تھے۔آج میں ان لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ کے اندر اتنی ہمت ہے کہ کچھ مردانگی اور مجاہدانہ کام کریں ؟ صرف تنقید سے کچھ نہیں ہونیوالا مثبت سوچ رکھٸیے ۔۔علمإ کونسل کی لڑاٸی صداقت پر مبنی ہے اس کا ساتھ دیجٸیے اور حق پرستی کا ثبوت دیجٸیے۔۔ذاتیات کو بالاٸے طاق رکھ کر۔۔۔۔۔
خبروں کے مطابق احتجاج زور دار رہا ۔ہزاروں کی تعداد میں کارکنان نے حکومت مخالف نعرے لگاٸے ۔۔۔اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ۔۔جمہوری ملک میں جس حوصلے اور ہمت کیساتھ علمإ کونسل کے اراکین اپنے قاٸد کی سر پرستی میں مظاہرہ کیا وہ قابل مبارکباد ہے۔
نارمل حالات میں ایسے مظاہرے ہوتے رہتے ہیں مگر آج کل کے مسلم مخالف حالات میں جہاں مسلمان اپنی شناخت چھپانے کی فکر میں رہتا ہے۔۔۔دوران سفر ڈر، خدشہ اور نہ جانے کن کن کیفیات سے گزرتا ہے ایسے حالات میں ہمت و حوصلہ کا مظاہرہ کرتے ہوٸے کونسل نے ایک بار پھر کیفیات کو علما ایکسپریس بنا دیا۔۔اور سب کو معلوم ہے کہ یہ ٹرین کن کن راستوں سے گزرتی ہے۔راستوں اور فرقہ پرست طاقتوں کی پرواہ نہ کرتے ہوٸے اعظم گڑھ و اطراف کے ضلعوں سے سیکڑوں کی تعداد میں کارکنان (مسلم اکثریت) کو دہلی لیکر جانا اور مظاہرہ کرنا بہت ہی ہمت کا کام ہے جس کے لٸیے میں علمإ کونسل کو مبارکباد پیش کرتا ہوں
جب بھی کونسل کے زریعہ دہلی مارچ کی خبریں صداٸے وقت پر شاٸع ہوٸیں ہر بار کچھ منفی کمنٹ آٸے ۔۔جس میں بیشتر علمإ کرام کے ہی تھے۔آج میں ان لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ کے اندر اتنی ہمت ہے کہ کچھ مردانگی اور مجاہدانہ کام کریں ؟ صرف تنقید سے کچھ نہیں ہونیوالا مثبت سوچ رکھٸیے ۔۔علمإ کونسل کی لڑاٸی صداقت پر مبنی ہے اس کا ساتھ دیجٸیے اور حق پرستی کا ثبوت دیجٸیے۔۔ذاتیات کو بالاٸے طاق رکھ کر۔۔۔۔۔
کونسل کے تمام اراکین و قیادت کو بالخصوص مولانا عامر رشادی اور مولانا طاہر مدنی صاحبان کو ان کی اس مجاہدانہ کوشش کے لٸیے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔۔۔۔اور۔۔۔۔
تندٸُ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب۔
یہ تو چلتی ہیں تجھے اونچا اڑانے کے لٸیے۔
یہ تو چلتی ہیں تجھے اونچا اڑانے کے لٸیے۔