Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, September 12, 2019

جمیعة العلما ٸے ہند کا کشمیر پر افسوسناک بیانیہ۔

#اُنہیں_اٹھکھیلیاں_سوجھی_ہیں_ہماری_جان_جاتی_ہے
ازسمیع اللہ خان /صداٸے وقت
=============================
آج جمعیۃ علمائے ہند کے پلیٹ فارم سے جناب محمود مدنی صاحب نے کشمیر کے سلسلے میں ایک موقف جاری کیا، جس میں انہوں نے اس بات پر زور دیاہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ حصہ ہے، نیز مظلوم کشمیریوں کو نصیحت کرتے ہوئے مولانا نے فرمایا کہ، وہ کشمیر میں کسی بھی طرح کی علیحدگی پسند تحریکات کو بڑھاوا نا دیں، ہم پوری طرح سے بھارت کے ساتھ ہیں، جہاں بھارت وہیں ہم، اس کے بعد مولانا محمود مدنی صاحب نے کشمیر مسئلے پر پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا اور آخر میں یہ واضح کردیا کہ ہم اپنے ستر سال پرانے موقف پر قائم ہیں، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے…… اس کے علاوہ مدنی صاحب نے ملک بھر میں آسام کی طرح " این آر سی " کے نفاذ کا بھی مطالبہ کردیاہے_
مولانا محمود مدن

ہمیں مولانا محمود مدنی اور جمعیۃ علمائے ہند کی نیت پر ہرگز کوئی شک نہیں ہے لیکن جمعیۃ کی موجودہ پالیسیاں نا صرف افسوسناک ہیں بلکہ شرمناک ہوتی جارہی ہیں، یہ پالیسیاں سیدھی طرح مظلوم مسلمانوں کے ساتھ زیادتی ہے، یہ رویہ سَنگھیوں کے سامنے خودسپردگی والا ہے، یہ مزاج ظالم حکومت کی خوشامد والا ہے_
جمعیۃ کی طرف سے آج کشمیریوں کے سلسلے میں جاری ہونے والا بیانیہ اسقدر شرمناک ہیکہ اس پر اہل علم و شعور کی طرف سے کڑی تنقیدیں ہورہی ہیں، کیونکہ اس بیانیے میں مولانا محمود مدنی نے یہ تو کہاہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ حصہ ہے، لیکن یہ ہرگزنہیں کہا کہ، کشمیر میں بدترین ظلم و ستم کا بازار گرم ہے، اور نا ہی یہ اعتراف کیاگیا کہ، کشمیریوں پر فوج کی چیرہ دستیوں اور انسانیت سوز مظالم کی بھی خبریں مسلسل آرہی ہیں
 
نتیجہ یہ ہوا ہیکہ، مولانا محمود مدنی اور جمعیۃ علمائے ہند کا نام لے لے کر اب سنگھی مشنریاں فائدہ اٹھا رہی ہیں، ہنود کی عالمی ایجنسیاں اس بیانیے کے ذریعے مودی سرکار اور سنگھ کی شبیہ صاف کررہےہیں، عالمی سطح پر اس بیان کو حکومت ہند کے لیے یکطرفہ تائیدی طورپر استعمال کیا جارہاہے، تاکہ مودی حکومت سے کشمیریوں پر ظلم و ستم کا الزام صاف کیا جائے، چنانچہ مولانا محمود مدنی کے بیان کو، اس طرح پیش کیا جارہاہے کہ، دیکھو ہندوستانی مسلمانوں کے سب سے بڑے سربراہ اور چیف نے کشمیر قضیے پر حکومت ہند کی تائید کی ہے، دیگر ظلم و ستم کی خبریں حکومت کے خلاف محض پروپیگنڈہ تھیں
ایسے میڈیا ہاؤز جو حکومت کے ترجمان ہیں اور ان کے فالوورز لاکھوں کی تعداد میں ہیں انہوں نے اپنا عنوان ہی یہ رکھ دیاہے کہ
#MuslimsWithModi ۔
جمعیۃ علمائے ہند کے اس یکطرفہ بیانیے سے سب سے زیادہ نقصان ان انصاف پسند غیر مسلموں کو پہنچ رہاہے جو اب تک کشمیریوں کے ليے آواز اٹھا رہے تھے اور کشمیریوں کا مقدمہ بھی لڑرہے تھے، جمعیۃ علمائے ہند کے اس موقف سے سب سے زیادہ مایوسی ان سکھوں، کمیونسٹوں اور انصاف پسند ہندؤوں کو ہورہی ہے جو انسانیت کے ناطے مظلوم کشمیریوں کے لیے لڑائی لڑرہے ہیں وہ ششدر ہیں کہ لاکھوں مسلمانوں کی بدترین مظلومیت پر ان کے علماء کی سب سے بڑی جماعت کا یہ غیرانسانی رویہ آخر کیسا ہے؟ اور کیوں؟
ایک ایسے وقت میں جب کشمیری قضیے پر نڈر خواتین نے مودی سرکار کو پیچھے دھکیل دیا اور جوابدہی پر مجبور کردیا، رعنا ایوب اور شھلا راشد کی حقیقت کشا رپورٹس نے فوج کے مظالم کو واشگاف کردیا، بی بی سی، دی وائر اور مڈل ایسٹ جیسے عالمی میڈیا ہاؤز نے کشمیر میں بدترین بربریت کی پول کھول دی تھی، جس سے بوکھلا کر سنگھیوں نے نوجوان خاتون ایکٹوسٹ شھلا راشد کے خلاف مقدمہ بھی کردیاہے، عین انہی حالات میں، جمعیۃ کا یہ یکطرفہ بیانیہ ان سبھی کوششوں کو اور سچائی و انصاف کے لیے کوشش کرنے والوں کو سخت پریشانی میں ڈال چکا ہے کیونکہ اب سنگھی نمائندے ان انصاف پسندوں کے خلاف محمود مدنی صاحب کے بیان سے استدلال کررہےہیں_
اچھا تھا کہ آپ سے اظہار حق نہیں ہوسکتا تھا تو آپ خاموش ہی رہتے، اس طرح قوم پر سوالیہ نشان لگانے کے لیے کس نے کہا تھا؟ جو لوگ کشمیریوں کے سلسلے میں ایسی غلط ترین تجویز پیش کرنے میں شامل ہیں وہ الله کو حاضر ناظر جان کر جواب دیں کہ آج نہیں تو کل بھلا وہ کس منہ سے مظلوم کشمیریوں کا سامنا کرینگے، اور یہ کتنی بھدّی اور ضدی دلیل ہیکہ ہمارا تو وہی موقف ہے جو ستر سال پہلے تھا اسلیے ہم وہی کہیں گے، ارے بھائی آپ سے کون کشمیری بھیک مانگنے آیا تھا جو آپ کشمیریوں کے بن بلائے مہمان کی طرح جج بن کر فیصلہ سنانے لگے؟
 
کیا آپ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ جمعیۃ علمائے ہند کشمیر پر یہ تجويز پیش کرنے کے بعد اب پہلی مرتبہ، اہل علم و دانشوران کے ذریعے سوشل سائٹ پر کڑی تنقیدوں کا شکار ہے، اعلیٰ سطحی کمیونسٹ، دلت، سکھ،  جرنلسٹ، اور اہل قلم کا طبقہ بھی اس تجويز سے سخت ناراض ہے، سوشل سائٹس کو دیکھیے،
اور تو اور
ملک کے دیگر حصوں میں مقیم کشمیریوں نے بھی اس بیانیے کو بری طرح مسترد کیا ہے_
*یہ نہایت ہی شرمناک مرحلہ ہیکہ، ہم من حیث المجموع ایسی بے سمتی کے شکار ہوگئے ہیں کہ جن حالات میں ہمیں اپنا موجودہ وجود جدوجہد میں لگاکر آئندہ نسلوں کے مستقبل کی حفاظت کرنا چاہیے، ایسے وقت میں ہماری ترجیحات صرف اتنی ہیکہ ہم اپنی موجودہ جان بچا کر آرام دہ زندگی گزارنے کے لیے حیلے بہانے کررہےہیں، یاد رکھیے کشمیر صرف ملک کی سرحد نہیں ہے، وہ ہندوستانی مسلمانوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کی سرخ لکیر ہے… ان کی پسپائی ہم  سب کے لیے المناک ہوگی، اور آج کی یہ تاریخ امت اسلامیہ کی بدترین تاریخ میں سے ہوگی_*

ہم یقینًا اپنے ملک کے آئین و دستور کے ساتھ ہیں اور جو کچھ آئینی زاویوں سے ہوگا اس کا احترام بھی کرتےہیں، لیکن یہ بھی کہتے ہیں کہ سب سے پہلے کشمیر میں ظلم و ستم بند کیجیۓ _
قارئین کرام !
میں جمعیۃ علمائے ہند کی تاریخی عظمت کا معترف ہوں اور موجودہ جمعیت کا خیرخواہ ہوں، پہلے جب مولانا محمود مدنی اور جمعیت کی ٹیم نریندرمودی سے ملاقات کے لیے گئی تو میں نے  ان کی کھل کر تائید کی تھی (یقینًا مجھ جیسے بے بضاعت انسان کی تائید و مخالفت سے جمعیت جیسی تنظیم پر فرق نہیں پڑےگا) لیکن یہ بتانا مقصود ہیکہ براہ کرم ہماری ان سطور کو کسی اور زاویے سے دیکھ کر جنگ و جدال اور سب و شتم کا عنوان نا بنائیں، بلکہ سنجیدگی کے ساتھ موجودہ سنگین حالات میں اپنی قومی صورتحال کا جائزہ لیں اور لاکھوں کشمیریوں کی جگہ اپنے آپ کو رکھ کر دیکھیں، یقینًا آپ بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوں گے، اور قیادت کی موجودہ روش پر یہ بے ساختہ کہہ اٹھیں گے کہ
" انہیں اٹھکھیلیاں سوجھی ہیں، ہماری جان جاتی ہے "
جمعیۃ علمائے ہند سے التجا کرتےہیں کہ براہ کرم کشمیریوں کے تئیں اپنے موقف پر نظرثانی کریں_
*سمیع اللّٰہ خان*
۱۲ ستمبر: بروز جمعرات / ۲۰۱۹
ksamikhann@gmail.com