Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, October 6, 2019

ٹیپو سلطان شہید ؒ کے شہر میں چند روز!!!..........قسط دہم (10 ویں).


✏ فضیل احمد ناصری /صداٸے وقت۔
=============================
*مسجدِ اعلیٰ کا تعارف*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میسور کی مسجدوں میں مسجدِ اعلیٰ کا نام بہت نمایاں ہے۔ اس مسجد کی تاریخ جیسی عظیم ہے، ہندوستان کی کوئی بھی مسجد اس کو نہیں پا سکتی۔ ایک عابد و زاہد  بادشاہِ وقت کے ذریعے اس کا افتتاح ہوا تھا۔ اس کے بانی سلطان ٹیپو ہیں۔ یہ مسجد محل کے پاس ہی تعمیر ہوئی۔ اس کی تعمیر دل کش اور نظر نواز ہے۔ مسجد دو منزلہ ہے۔ اس میں ڈیڑھ ہزار کے آس پاس نمازیوں کی گنجائش ہے۔ مسجد کے منارے عربی طرز کے ہیں۔ خلا دار اور طاقچوں سے معمور۔ کبوتروں کی رہائش کا سامان خوب ہے۔ کبوتر بھی بڑی تعداد میں یہاں رہتے ہیں۔ مسجد میں چار کتبے بھی لگے ہیں: ایک میں اسمائے حسنیٰ اور دوسرے میں حضور ﷺ کے 99 نام۔ شمالی دیوار کے کتبے پر جہاد فی سبیل اللہ کے احکام نقش ہیں اور جنوبی دیوار کے کتبے پر غزواتِ رسول ﷺ سے متعلق احادیث کنداں۔ انہیں دیکھ کر عین الیقین حاصل ہوتا ہے کہ سلطان ٹیپو کی مذہبی حیثیت کس قدر سر بلند تھی۔ وہ دین کے کیسے پرجوش سپاہی اور اسلام کے کیسے نمائندہ تھے۔ یہ مسجد 1787 میں تعمیر ہوئی۔ جب اس کی تعمیر مکمل ہو گئی تو سلطان ٹیپو نے اعلان کیا: اس کی افتتاحی نماز وہ شخص پڑھائے گا جس کی فرض نماز کبھی ترک نہ ہوئی ہو۔ نمازیوں کا ایک بڑا مجمع اکٹھا ہوا۔ علما و مشائخ بھی بڑی تعداد میں موجود تھے، کسی میں ہمت نہ ہوئی کہ آگے بڑھے۔ سلطان خود آگے بڑھے اور کہا: الحمدللہ میں صاحبِ ترتیب ہوں۔ اور انہوں نے ہی اپنی امامت سے اس کا افتتاح کیا۔ یہ نماز عید الفطر کی 
تھی۔

*مسجد کی تعمیر کا پس منظر*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلطان ٹیپو ابھی 6/7 برس کے تھے۔ نو شگفتہ پھول۔ ان کے والد سلطان حیدر علی بنگلور میں ایک محاذ پر سرگرم تھے۔ مہاراجہ میسور کے ایک وزیر کھانڈے راؤ نے ان کی والدہ فخر النسا، عرف فاطمہ کو کسی سازش کے تحت سری رنگا پٹنم میں ایک مکان میں نظر بند کر دیا تھا۔ ٹیپو بھی ساتھ تھے۔ ایک دن اپنے ہمجولیوں کے ساتھ میدان میں کھیل رہے تھے کہ اچانک ایک فقیر کا اس طرف سے گزر ہوا۔ ٹیپو پر اس کی نظر پڑی تو چہرہ دیکھ کر ہی تاڑ گیا کہ اس کا مستقبل بڑا تابناک ہے۔ ٹیپو کو پاس بلایا اور سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا: بیٹے! ایک دن تم اس علاقے کے سلطان بنو گے۔ اگر ایسا ہوا تو وعدہ کرو کہ تم ایک مسجد کی تعمیر کروگے۔ ٹیپو نے ہاں کہہ دیا۔ وقت سرپٹ دوڑتا رہا۔ پھر وہ وقت بھی آ گیا کہ وہ سلطنتِ خدا داد میسور کے تاج دار بھی ہو گئے۔ انہیں اپنے بچپن کا وہ قصہ یاد تھا۔ موقع پاتے ہی انہوں نے مسجد کی تعمیر کرا دی اور اس کا نام رکھا: مسجدِ اعلیٰ ۔
*مسجد کی زیارت*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹیپو کی شہادت گاہ سے ہم آگے بڑھے تو ایک منٹ جانبِ شمال چل گاڑی رک گئی۔ اب ہمارے سامنے مسجدِ اعلیٰ تھی۔ اسے دیکھنے کی مجھے بڑی تمنا تھی۔ کیوں کہ متحدہ ہندوستان کی یہ واحد مسجد تھی جس کا آغاز سلطانِ عادل کی امامت سے ہوا تھا۔ دو اونچے اونچے منارے آسمان سے باتیں کر رہے تھے۔ اندر داخل ہوا۔ دروازہ ٹھوس لکڑی کا تھا۔ بائیں طرف صحن میں قبریں ہی قبریں تھیں۔ سقوطِ ٹیپو کے بعد میسور حکومت کے 12 سے 14 ہزار عوام انگریزوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ 4 ہزار افراد نے اس مسجد میں پناہ لی تو انگریزوں نے انہیں بھی موت کے گھاٹ اتار دیا۔ میں نے قبریں دیکھیں تو تاریخ تازہ ہو گئی۔ میں نے دیکھا کہ مسجد کے تحتانی حصے میں بریلوی مکتبِ فکر کے رہ نما یہاں مکتب چلا رہے تھے۔ چند بچے اور دو تین مدرسین اپنی اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے۔ صحن میں دائیں طرف چلے تو 17 پیڑھیوں کے ایک زینے پر میری نظر پڑی۔ پیڑھیاں کافی اونچی اونچی۔ اوپر گئے تو معلوم ہوا کہ سلطان ٹیپو قریبی محل میں قیام کے دوران پنج وقتہ نمازیں یہیں پڑھا کرتے تھے۔ زیارت کر کے نیچے اترے تو صحن میں دائیں طرف کافی نشیب میں ایک بڑا سا حوض دکھائی دیا۔ ٹیپو کے عہد میں یہیں وضو ہوتا تھا۔ صحن میں ایک کنواں بھی دیکھا۔ مسجد سے باہر نکلا تو میں سوچتا رہا کہ مسجدِ اقصیٰ کی طرح مسجدِ اعلیٰ بھی اس قدر بے رونق کیوں ہے؟ اس کے رخِ انور پر اجاڑ کیسا ہے؟ پھر دل نے جواب دیا کہ یہ مسجدیں سلطان کی موت سے ابھی تک نہیں نکل سکی ہیں۔
[اگلی قسط میں پڑھیں: سلطان ٹیپو کون تھے؟]