نٸی دہلی /صداٸے وقت /ذراٸع /ایجنیسیاں ۔
==============================
طبعیات کے میدان میں سنہ 2019 کے نوبیل انعام کا حقدار ان تین سائنسدانوں کو قرار دیا گیا ہے جنھوں نے کائنات سے متعلق ایسی چیزیں دریافت کی ہیں جن کی ’پہلے مثال نہیں ملتی‘۔
اس بات کا اعلان سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں نوبیل انعامات کی سالانہ تقریب میں کیا گیا
فزکس میں یہ انعام جن تین سائنسدانوں میں مساوی تقسیم کیا جائے گا، ان میں جیمز پیبلز، مائیکل مئر اور ڈڈیئر کیولوز شامل ہیں۔ ان تینوں ماہرین کو مشترکہ طور پر یہ انعام کائنات کے ارتقاع پر تحقیق اور سنہ 1995 میں دور کہکشاں میں سورج جیسے ایک سیارے کی دریافت پر دیا گیا ہے۔
ملین کرونر (سات لاکھ 38 ہزار پاؤنڈ) کی انعام کی رقم ان تینوں میں تقسیم کی جائے گی۔
نوبیل کمیٹی کے ایک رکن، اولف ڈینیلسن کا کہنا تھا کہ ’یہ دونوں انعامات ہمیں کائنات اور کائنات میں ہمارے مقام سے متعلق نہایت اہم معلومات فراہم کرتے ہیں۔
’ان میں پہلی تحقیق اس لحاظ سے بہت زبردست ہے کہ یہ کائنات کی ابتدا کے بارے میں بتاتی ہے، جبکہ دوسری اس قسم کے سوالوں کے جواب فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ کیا ہم اس کائنات میں اکیلے ہیں، کیا کائنات میں کسی اور جگہ پر بھی زندگی کا وجود ہے؟‘

تفصیل کے مطابق امریکہ کی پرنسٹن یونیورسٹی سے منسلک جیمز پیبلز کو جن خدمات کے صلے میں انعام دیا گیا ہے ان میں کائنات کے ارتقاع سے متعلق علم میں اضافہ اور نظام کائنات میں ہماری زمین کے مقام کے حوالے سے تحقیق شامل ہے۔
کچھ دیگر ساتھی ماہرین کے ہمراہ جیمز پیبلز نے پیشنگوئی کی تھی کہ بِگ بینگ کے وقت کائنات میں مائیکرو ویو تابکاری موجود تھی۔
اس کے علاوہ انھوں نے کائنات میں مادۂ سیاہ اور اس سے منسلک توانائی کے بارے میں بھی تحقیق کی جس سے کائنات سے متعلق سائنسی نظریات کو آگے بڑھانے میں مدد ملی ہے
۔ESO / M KORNMESSER
جب ان سے پوچھا گیا کہ فزکس کے شعبے میں ان کی اہم ترین تحقیق کیا ہے تو جیمز پیبلز کا کہنا تھا کہ ’ان سے یہ بات بڑے شد و مد سے پوچھی جاتی ہے، (تاہم) ان کا کام مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔ یہ کام میری پوری زندگی پر پھیلا ہوا ہے۔‘
مائیک مئر اور ڈڈیئر کیولوز کو نوبیل انعام 51 پیگاسی بی نامی ایک سیارے کی دریافت پر دیا گیا ہے جو دراصل گیسوں کا ایک بہت بڑا مجموعہ ہے جو ہماری زمین سے 50 نوری سال کی دوری پر ہے۔
یہ کائنات کے اس مقام پر پہلی دریافت ہے جس میں ہائیڈروجن کے ایٹم آپس میں ضم ہو کر ہیلیم کے ایٹم بناتے ہیں۔ یہ ستاروں کی وہ قسم ہے جو کائنات میں بہت زیادہ ہے اور ہمارا اپنا سورج بھی اس سلسلے کا ستارہ ہے۔
امیرکن انسٹیٹیوٹ آف فزکس کے سربراہ مائیکل مولونی کہتے ہیں کہ ’کائنات کی بنیادی ساخت اور دور دراز کے شمسی نظاموں کے اندر نئی دنیائیں دریافت کرنے کے حوالے سے ان سائنسدانوں نے جو کام کیا ہے، اس نے علمِ کائنات کے شعبوں میں نئی تحقیق کے دروازے کھول دیے ہیں۔‘
ان کے بقول ’ہمارے اپنے نظام شمسی سے باہر ایک ایسے سیارے کی دریافت جو (سورج کی قسم کے) ایک ستارے کے گرد گھوم رہا ہے، اس نے کائنات میں ہمارے مقام یا حیثیت کے بارے میں ہمارے خیالات کو تبدیل کر دیا ہے۔ اس کائنات میں جس میں بہت سے ایسے معمے ہیں جو ابھی حل ہونا باقی ہیں.