Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, October 1, 2019

ایس ڈی پی آئی قومی عہدیداران کادورہ کشمیر۔آرٹیکل 370اور 35Aکو بحال کرنے کا مطالبہ

ایس ڈی پی آئی قومی عہدیداران کادورہ کشمیر۔آرٹیکل 370اور 35Aکو بحال کرنے کا مطالبہ

نئی دہلی۔(پریس ریلیز)۔سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI) کے قومی نائب صدر اڈوکیٹ شرف الدین احمد، قومی جنرل سکریٹری محمد شفیع اور قومی سکریٹری سیتارام کوہیوال پر مشتمل ایک تین رکنی وفد نے 24تا 26ستمبر 2019جموں کشمیر میں قیام کرکے مختلف علاقوں کا دورہ کیا اور گزشتہ پچاس دن سے وادی میں جو صورتحال پیدا کی گئی ہے اس تعلق سے تفصیلی معلومات حاصل کیا۔ 5اگست 2019کو جب ہندوستان کے صدر کے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعہ آرٹیکل 370کو غیر موزوں اور آئین ہند کے آرٹیکل 35Aکو بھی ختم کرکے عجلت میں قانون سازی کی گئی تھی۔ مواصلاتی سہولیات جیسے فون اور انٹر نیٹ کو 5اگست سے مکمل طور پر واپس لے لیا گیا تھا اور بی جے پی کے علاوہ مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ تمام سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ وادی میں عام زندگی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ مزدوروں، سیاحوں اور طلبہ کو زبردستی وادی سے بے دخل کردیا گیا ہے۔ ہوٹلوں کو اچانک مقفل کردیا گیا ہے، فوج اور رائفل بردار نیم فوجی دستوں کی ایک بڑی تعداد تعینات کی گئی ہے۔
وفد کو اطلاع ملی کہ گزشتہ پچاس دن کی مدت کے دوران دس ہزار سے زیادہ نوجوان اور مختلف پیشوں کی رہنمائی کرنے والے اڈوکیٹس،ڈاکٹروں او ر محلہ سربراہوں کو بھی جیل میں ڈال دیاگیا ہے اورانہیں جموں کشمیر سے باہر جیلوں میں بھی بھیجا گیا ہے۔ دن بہ دن نظر بندی کو سخت او رغیر انسانی بنایا جارہا ہے۔ مثال کے طور پر ہوٹل سینٹار میں حراست میں لئے گئے سیاسی رہنماؤں پر سخت اقدامات کیا گیا ہے۔ سری نگر اور دوسرے علاقے سننان دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ یہاں کے تقریبا تمام دوکانیں اور دیگر تجارتی ادارے بندہیں۔ سیاحت بری طرح متاثر ہوئی ہے اور ہوٹلوں میں تالے لگ چکے ہیں۔ موسمی پھل سڑگئے ہیں اور خشک میوہ جات ضائع ہورہے ہیں۔ اسکو ل، کالج بند ہیں اور سڑکوں پر کوئی زندگی نظر نہیں آتی کیونکہ وہ زیادہ تر خالی ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ میسر نہیں ہے اور صرف اشد ضرورت اور ہنگامی صورتحال میں لوگ سڑکوں نکلنے کی ہمت کرتے ہیں جہاں رائفل بردار فوجی جوان خوف و ہراس کا ماحول پیدا کررہے ہیں اور عام زندگی متاثر ہے۔ وفد کے اراکین نے سری نگر شہر اور اطراف کے انتہائی پریشان کن علاقوں میں اہم شخصیات اور عام لوگوں کے ساتھ بات چیت کی۔جہاں فوجی اہلکاروں کی زیادہ تعداد میں تعینات کئے جانے کی وجہ سے وادی میں واضح طور پر تناؤ دکھائی دے رہا ہے۔

سری نگر کے اہم مقامات جیسے جامع مسجداور درگاہ حضرت بل پر تالالگا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ 5اگست سے عیدا لاضحی اور جمعہ کی نمازوں کی بھی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ حکومت ہند کے اس اچانک فیصلے نے نہ صرف کشمیریوں بلکہ دیگر ہندوستانیوں کیلئے بھی ناقابل برداشت مشکلات پیدا کردی گئی ہے جو مختلف مقاصد کیلئے وادی میں مقیم تھے۔ امرناتھ یاترا کوجگموہن کے دور حکومت میں تاریخ میں پہلی بار اور اب دوسری بار روکا گیا ہے۔ چونکہ اسکولوں میں داخلے کا وقت تھا،طلباء اور ان کے والدین NITسمیت تعلیمی اداروں میں داخلہ حاصل کرنے کے مقصد کے ساتھ وادی میں قیام پذیر تھے، انہیں فوری طور پر وادی چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا تھا جس کی وجہ سے ان کے بچوں کے کیرئیر کے ساتھ انہیں مالی نقصانات بھی اٹھانا پڑا ہے۔تعلیمی اداروں کے طلباء کو گھر واپس لوٹنے پر مجبور کیا گیا ہے اوروادی کی پوری آبادی میں  غیر معمولی حد تک تناؤ بڑھتا جارہا ہے۔وادی میں صدمے اور بے بسی کا ماحول چھا یا ہوا ہے۔

کارپینٹر، پینٹر اور ایلکٹریشن وغیرہ مزدور وں کو زبردستی وادی چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ہے۔مرکزی حکومت نے ایک ایسے وقت میں دفعہ 370کو منسوخ کیا ہے جب وادی میں سیاحت، زراعت کی مصنوعات، شاد ی بیاہ کی تقریبات اور دیگر سرگرمیوں کا موسم ہے۔ لہذا حکومت کے آمرانہ اور غیر آئینی اقدام نے نہ صرف کشمیریوں کو تکالیف میں مبتلا کردیا ہے بلکہ ہندوستانیوں کی ایک بڑی تعداد کو بھی ان کی کمائی کے ساتھ ساتھ معمول کی طرز زندگی سے بھی محروم کردیا ہے اوربغیر کسی واضح وجہ کے ان کے قانونی اور بنیادی حقوق چھین لیا ہے۔

50,000مندروں کی تعمیر نوکرنے کے بیان کے بعد پوری وادی خوف کے عالم میں ہے۔کشمیری بڑے پیمانے پر یہ محسوس کررہے ہیں کہ ریاست میں آبادیات اور جغرافیہ تبدیل کرنے کا ایک مذموم منصوبہ پہلے سے ہی موجود ہے۔ کشمیریوں کو ثقافتی اور مذہبی اعتبار سے غیر محفوظ اور کمزور بنایا گیا ہے۔ وہ یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ کشمیر کو بڑی صنعتوں کے حوالے کرنے کے منصوبے سے آب و ہوا اور ماحولیات متاثر ہوگا اور روایتی سیاحت اور تجارت و صنعت ختم ہوجائے گی اور بڑے سرمایہ داروں کو وادی کی زمین کا استحصال کرنے کی اجازت مل جائے گی۔ 5اگست کے بعد کچھ افراد کی جانب سے کی جانے والی تقریبات اور سیاسی رہنماؤں کے ایک حصے کی جانب سے نفرت انگیز بیانات سے عام کشمیریوں کے نفسیات کو گہر ا چوٹ پہنچا ہے۔
کشمیری پنڈتوں کی ہجرت پر کشمیری دکھی ہیں۔ان کا دعوی ہے کہ پنڈت ان کی ثقافت کا لازمی جز وہیں۔ انہوں نے ان واقعات کا بھی حوالہ دیا جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وادی میں دہشت گردی کے ذریعہ تشدد کا پہلا نشانہ مسلمان تھے۔ ان کایہ بھی کہنا ہے کہ سیاست نے بھائی چارے اور ہم آہنگی کو بڑی حد تک برباد کیا ہے۔ تقریبا0 2400پنڈت اب بھی بلا خوف و خطر اپنی ثقافت اور پہچان کے ساتھ کھیر بھاؤنی جیسے دیہات میں رہتے ہیں۔ سری نگر کے نشاط پہاڑ کے قریب سلمان فارسی پہاڑیوں پر سری نگر کے ایک ممتاز پنڈت مسٹر اشوک نے حال ہی میں ایک محل تعمیر کیا ہے۔ ایسی بہت ساری مثالیں موجود ہیں جہاں عمر رسیدہ پنڈتوں اور غیر آباد مندروں کو مسلمان مناسب طریقے سے دیکھ بھال کررہے ہیں۔ یہاں تک کہ مسلمانوں نے سناتن رسم کے مطابق آخری رسوم اور تدفین بھی کی ہے۔ بزرگ کشمیریوں کو یہ بیان کرتے ہوئے دلی تکلیف محسوس ہوتی ہے کہ جب اکتوبر 1947میں ملکہ (راجہ ہری سنگھ کی اہلیہ)کی اشتعال انگیزی کی وجہ سے پاکستان کی طرف سے حملہ کیا گیا تھا۔ اس وقت ملکہ کی طرف سے پھیلائی گئی جھوٹی افواہ کی وجہ سے ڈوگرہ آرمی کے ذریعہ لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کا قتل کیا گیا تھا لیکن بے گناہ مسلمانوں کی اجتماعی قتل اور نسل کشی کے خلاف کبھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ سینئر کشمیر ی راجہ ہری سنگھ کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
دانشوروں، ڈاکٹروں، وکلاء اور سماجی کارکنوں سمیت مختلف نمائندوں کے ساتھ بات چیت کی بنیاد پر ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ عام طور پر کشمیریوں کی اکثریت نے ہندوستان کے ساتھ رہنے کیلئے تیار ہیں اور خوشی خوشی ہندوستانی بن گئے ہیں اور الحاق کی حمایت بھی کرتے ہیں۔ تجارت، خدمات اور تعلیم کے حصول میں کشمیریوں نے ہر ریاست کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ وہ ملک کے جمہوری ماحول سے لطف اندوز ہوتے رہے ہیں۔ آرٹیکل 370کا اثر آہستہ آہستہ غائب ہوگیا ہے اور آرٹیکل 371کے تحت دوسری ریاستوں کی طرح وہ بھی ڈیموگرافی اور ٹو پو گرافی سے متعلق خصوصی حیثیت سے خود کو محفوظ محسوس کررہے تھے۔ لیکن مرکزی حکومت کے 5اگست کے اچانک اقدام نے جمہوری اور آئینی عمل کو پس پشت ڈال دیا اور جموں کشمیر کے شہریوں کے انسانی حقوق، قانونی اور آئینی حقوق سے انکار کرتے ہوئے ذرائع مواصلات کی بندش، کھانے پینے کی اشیاء اور دوائیوں، ضروری اشیاء کی فراہمی روکنے کے ساتھ ساتھ ریاست کا درجہ ختم کرکے وادی کے سڑکوں اور قدم قدم پر بندوق بردار سیکورٹی اہلکاروں کو تعینات کرنے کی وجہ سے کشمیریوں کے ضمیر کو شدید ٹھیس پہنچا ہے۔
وادی میں کوئی ہوٹل کام نہیں کررہا ہے۔ ہاؤس بوٹ اور کشتیا ں غیر استعمال شدہ پڑی ہیں۔ بینکنگ اور ایندھن کی فراہمی متاثر ہوئی ہے۔مارکیٹ میں جان بچانے والی دوائیوں کی عدم دستیابی ہے۔جھیل کے پانی میں دو ماہ سے سرگرمیاں بند پڑی ہیں۔ جس کی وجہ سے جھیل میں گھاس پھونس جمع ہوگئی ہے جس کی وجہ سے جھیل ناقابل استعمال ہوگئے ہیں۔ کشمیر کی صورتحال دوسری ریاستوں کی طرح عام نہیں ہے۔سری نگر یا شمالی کشمیر کے کسی بھی حصے میں دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوا ہے۔ صرف جنوبی کشمیر میں ہی حالات قدرے پریشان کن ہیں۔ لہذا یہاں سیکورٹی فورسزکابڑی تعداد میں تعینات کیا جانا غیر ضروری تھا۔ 5اگست کے بعد وادی کے کسی بھی حصے میں اب تک کوئی پر تشدد احتجاج یا اسلحہ استعمال نہیں ہوا ہے۔ بڑے پیمانے پر مسلح مداخلت کی بھی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ سر حد پار سے شدید اشتعال انگیزی اور سرگرم حمایت کے باوجود صرف پتھراؤ کے اکا دکا واقعات سامنے آئے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ نہایت خراب صورتحال کے باجود کشمیریوں کا رویہ مثبت ہے اور وہ ریاست کے روشن مستقبل کے تعلق سے پراعتماد ہیں۔تاہم، 5اگست کی تبدیلی کے بعد یہ اطلاع ملی ہے کہ جموں اور لداخ کے علاقوں میں بھی نفرت انگیز جذبات بڑ ھ رہے ہیں۔ جموں کشمیر کے عوام 5اگست کو جمہوریت کے روح کے خلاف خفیہ طور پر اور غیر شفاف انداز میں اختیار کئے گئے عمل اور طریقے کار کو ان کی رسوائی اور توہین سمجھتے ہیں۔ اب، کشمیر کے بزرگ سے لیکر بچوں تک میں ہندوستان مخالف احساسات ہیں اور اب وہ متحدہ طور پر آزادی کا مطالبہ کررہے ہیں۔
ایس ڈی پی آئی ایک ذمہ دار پارٹی ہونے کے ناطے اسے مناسب اور ضروری سمجھتی ہے کہ فوری طور پر مفاہمت کا اقدام اٹھایا جائے تاکہ جموں و کشمیر میں امن اور معمول بحال ہوسکے۔
ایس ڈی پی آئی کا مطالبہ ہے کہ وادی میں ایسا ماحول پیدا کیا جائے جس سے ملک کی سا  لمیت کو بچایا جاسکے اور دشمن قوتوں کی طرف سے مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی بنانے میں ناکام کیا جاسکے۔ لہذا، کشمیریوں میں اعتماد واپس لانے کیلئے ایس ڈی پی آئی مرکزی حکومت سے مندرجہ ذیل مطالبات کرتی ہے۔
1)۔5اگست 2019سے پہلے کی طرح مواصلات کو بحال کیا جائے۔
2)۔اطلاع کے مطابق ,000 13 گرفتار شدہ کمسن لڑکوں اور نوجوانوں کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔
3)۔5اگست کو اور اس کے بعد گرفتار کئے گئے تمام سیاسی رہنماؤں اور دیگر قیدیوں کو جلد سے جلد رہا کیا جائے۔
4)۔وادی کے مارکیٹ میں ضروری اشیاء اور دوائیوں کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
5)۔جامع مسجد اور حضرت بل کے ساتھ دیگر مساجد اور مذہبی مقامات کو عوام کیلئے کھولا جائے۔
6)۔پھلوں، خشک میوہ جات اور دستکاری کے سامانوں کی تجارت و آمد و رفت کو فوری طور پر بحال کیا جائے۔
7)۔جموں کشمیر کی ریاستی درجہ کو بحال کرنے کا اعلان کیا جائے۔
8)۔آئین ہند کے آرٹیکل 370اور 35Aکی بحالی کا اعلان کیا جائے۔
9)۔سیکورٹی فورسز کے غیر متناسب تعینات کا انخلاء کیا جائے اور انہیں بیرکوں اور سرحد پر بھیجا جائے۔
10)۔سڑکوں اور محلوں میں پیرا ملٹری فورسزکی تعیناتی کو کم کیا جائے۔
11)۔ریاست جموں کشمیر میں جمہوری اداروں کو بغیر کسی تاخیر کے دوبارہ بحال کیا جائے اور حکومت ہند اور حکومت جموں کشمیر کے مابین الحاق معاہدے کے وقت اتفاق کئے گئے خودمختاری کے اصولوں کا احترام کیا جائے۔