Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, October 4, 2019

جمعہ نامہ۔۔۔4 اکتوبر بروز جمعہ

میں جاکر دشمنوں میں بس گیا ہوں،
یہاں ہمدرد ہیں دو چار میرے ۔
ڈاکٹر سلیم خان۔/صداٸے وقت۔
=============================
منافقین نے حضرت عائشہ پر تہمت لگائی ۔  اس کی تردید میں  ارشادِباری تعالیٰ  ہے ’’آگاہ رہو کہ جن افراد نے تہمت گھڑی وہ تم میں سے ہی ہیں‘‘ ۔ یعنی تہمت لگانے والے منظم گروہ نے یہ  مذموم حرکت  غفلت، بے توجہی یا سہل انگاری کی بناء پر نہیں    کی بلکہ ایک سازش رچی تھی لیکن   نبی اکرمؐ  کو رسوا کرنے کی سعی کرنے والے   الٹا اپنا اعتبار گنوا بیٹھے۔  اپنی تمام تر تلخی کے باوجود یہ سانحہ ملت کے لیےنفع  بخش ثابت ہوا۔  اس سے  منافقین کی شناخت  ہوگئی۔ اس  ”شر“  کی بابت فرمایا گیاکہ اس کا نتیجہ ”خیر“ نکلا ۔بقول شاعر’’ گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے، لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے‘‘۔ سازگار  حالات میں منافقین بے ضررہوتے ہیں  لیکن آزمائش کے وقت  ان سے خطرہ    بڑھ جاتاہے۔ اس لیےان کا بے نقاب ہوجانا  بہت بڑی بھلائی ہے۔ان کے لئے قرآن کے الفاظ میں فقط ”اثم“  یعنی گناہ کا دھبہ باقی رہ گیا  جبکہ  
ہمیشہ  کے لئے  ساکھ ختم ہو گئی۔

اس واقعہ کا ایک فریق غیرشعوری طو رپر منافقین  کے آلۂ                      کار بن جانے والے عام مسلمان  ہیں ۔ مسلمانوں کی مخلص اور ایماندار اکثریت   اپنی  نیک  نیتی کے باوجود نادانی اور بے توجہی کی بنا ءپر ایک  منظم گروہ کا نمائندہ بن گئی ۔ معاشرے کے افراد کو ایسا احمق نہیں ہونا چاہئے کہ وہ دشمن کی گھڑی ہوئی باتوں کا تذکرہ کرتے پھریں۔  اہل ایمان کو دشمنانِ اسلام کی پھیلائی ہوئی   افواہوں  کا  قلع قمع کرنا چاہیے۔ اس پرخاموشی بھی  دشمن کے منصوبے کو ناکام کر سکتی ہے لیکن ان کس کادست و بازو بن جانا چہ معنیٰ دارد ۔اس سانحہ کے ذریعہ    مسلمانوں کی  سادہ لوحی دور کردی گئی تا کہ مستقبل میں  وہ دشمن کا آلۂ                 کار بننے سے محفوظ رہیں ۔فی الحال    نہ  صرف کشمیر اور این آر سی پر غلط بیانی ہورہی ہےبلکہ  اورنگ زیب جیسی تاریخ ساز  شخصیت  بھی تہمت کی زد میں  ہے۔ کبھی  ان  کوشیواجی سے  تو کبھی اکبر کا ہم پلہّ بنا دیا جاتا ہے ۔  مودی سرکار اپنے داغدار دامن کو خوشنما بنانے کے لیے جس طرح  کشمیر اور این آر سی سے متعلق اوٹ پٹانگ دعوی ٰکررہی  ہے اسی طرح کی افواہ انگریزوں  نے عیسائیت کی تاریخ  پر لگے دھبوں کی پردہ پوشی کے لیے گھڑی تھی۔
فاتح مصر  حضرت عمرو بن عاص ؓ پر  ۶۰۰ سال بعد یہ تہمت باندھی گئی تھی کہ   انہوں نے  اسکندریہ کی  ایک بہت بڑی لائبریری  کے بارے میں  حضرت عمر ؓ سےپوچھا  کہ اس کا کیا  کریں؟ جواب ملا یہ  کتابیں  ا گر قرآن کے مطابق ہیں تو ہمارے لئے قرآن کافی ہے،اور خلاف ہیں تو ہمارے کسی کام کی نہیں، اس لئے  جلادو ۔ حضرت  عمرو بن عاص ؓ نے  کتابوں کو نذرِ آتش کر دیا۔آگے چل کر  مسلمانوں نے خود ان جعلی داستانوں کو پھیلانا شروع  کردیا ۔ قرون اولیٰ کے کسی محقق اور مورخ نے جس کا ذکر تک نہیں کیا تھا وہ بہتان طرازی کالج کے نصاب میں شامل کردی گئی ۔ علامہ  شبلی نعمانی  اس کی تردید میں  رقمطراز  ہیں  ”انگریزوں نے ہندوستان پر اپنا تسلط جما نے کے بعدہندوستان کے اندر اپنے مدارس  قائم کرکے  منطق کی کتب میں قضیہٴ حقیقیہ منفصلہ کی مثال میں   ہندو مسلم بچوں کو یہ بات  ذہن نشین کرائی  کہ قدیم زمانہ سے    مسلمان ہی کتابوں کو نذر آتش کر نے والی قوم  ہے‘‘۔ انگریزوں کے نقشِ قدم پر رواں دواں سنگھ پریوار بھی تاریخ کو مسخ کرنے کی مذموم حرکت کررہا ہے لیکن افسوس کے ہمارےدینی و سیاسی  رہنمااس کی تردید کرنے کے بجائے تائید فرما رہے ہیں جبکہ ارشادِ  قرآنی ہے: ” اے مسلمانو! تم کو اس واقعہ(افک) سے عبرت پکڑنی چاہئے۔ قرآن پڑھو۔ اس کی تفسیر کرو تاکہ اس سے نصیحت حاصل کرو اور دشمنوں کی اڑائی ہوئی افواہوں کی چرچا نہ کرتے پھرو‘‘۔ یعنی دنیا کے  حقیر فائدے کی خاطر دشمنانِ اسلام کے آلۂ کار نہ بنو۔