✏ فضیل احمد ناصری /صداٸے وقت۔
=============================
=============================
آہ ! دریا سببِ عشرتِ قطرہ نہ ہوا
تم سے مل کر بھی مرے غم کا مداوا نہ ہوا
تم سے مل کر بھی مرے غم کا مداوا نہ ہوا
گر پڑا ٹوٹ کے ملت کا ستارہ ایسا
آج فرعون ہیں لاکھوں، کوئی موسیٰ نہ ہوا
آج فرعون ہیں لاکھوں، کوئی موسیٰ نہ ہوا
پڑ گیا دین بھی طاغوت کی زد میں، لیکن
وائے! تو جلوۂ مزمل و طہٰ نہ ہوا
وائے! تو جلوۂ مزمل و طہٰ نہ ہوا
ملک آزاد ہوا ، اپنے جیالے بھی گئے
پھر براہیم سا ہم میں کوئی پیدا نہ ہوا
پھر براہیم سا ہم میں کوئی پیدا نہ ہوا
کیوں ڈراتے ہو میاں ہولِ قیامت سے ہمیں
ہم پہ کس روز یہاں محشرِ کبریٰ نہ ہوا
ہم پہ کس روز یہاں محشرِ کبریٰ نہ ہوا
جانے کیا ہو گیا فردوسِ زمیں کو مولا !
اس بچاری کا کوئی اب بھی مسیحا نہ ہوا
اس بچاری کا کوئی اب بھی مسیحا نہ ہوا
عزتِ نفس بھی لے جاتا ہے منصب شاید
گالیاں سیکڑوں کھانے پہ بھی رسوا نہ ہوا
گالیاں سیکڑوں کھانے پہ بھی رسوا نہ ہوا
ہیں عجب چیز مرے عہد کے واعظ یا رب !
دیں کا سودا تو کیا ، دین کا سودا نہ ہوا
دیں کا سودا تو کیا ، دین کا سودا نہ ہوا
دھول دھپے سے بھی کم تر ہے تمہارا قبلہ
مرکزِ عشق اگر گنبدِ خضرا نہ ہوا
مرکزِ عشق اگر گنبدِ خضرا نہ ہوا