Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, October 3, 2019

ٹیپو سلطان شہیدؒ کے شہر میں چند روز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قسط ہشتم۔(8ویں).

✏ فضیل احمد ناصری/صداٸے وقت۔
============================
*میسور محل میں*
...۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناشتہ کر کے ہم میسور چلے گئے۔ ٹیپو کے دور کا میسور نہیں، آج کا میسور۔ ٹیپو کے عہد کا میسور تو 80 ہزار مربع میل تک پھیلا ہوا تھا۔ مالابار کے ساحل سے لے کر دریائے کرشنا تک۔ یعنی اس کا ایک سرا مہاراشٹر سے ملا ہوا تو دوسرا کیرالہ سے متصل۔ اس کی فوج میں 88 ہزار افراد تھے۔ دارالحکومت وہی سری رنگا پٹنم تھا، جہاں ہمارا قیام دو دنوں پر محیط رہا۔ آج کا میسور بہت چھوٹا ہے اور بس ایک شہر کی صورت میں۔ اس وقت یہ ریاستِ کرناٹک کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ اس کا اصلی نام مہیش کنورو تھا، مگر رفتارِ زمانہ نے اسے بگاڑ کر میسور کر دیا۔ میسور چڑیا گھر کے لیے مشہور ہے۔ راجاؤں کے محل بھی یہاں بہ کثرت ہیں۔
میسور میں کل 7 محل ہیں، جن میں امبا ولاس پیلیس سب سے بڑا اور خوب صورت ہے۔ اسی کو عوامی زبان میں میسور محل بھی کہتے ہیں۔ یہ تاج محل کے بعد ہندوستان کا سب سے حسین ترین محل ہے۔ اس کی تکمیل میں چھ سو برس صرف ہوئے۔ 1350 سے 1950 تک اس کی تعمیر کا سلسلہ مسلسل جاری رہا۔ اس محل کے راجاؤں کی حکومت کو ودیار کہا جاتا ہے۔ گو وہ بات ختم ہو گئی، مگر راجہ کی نامزدگی آج بھی باقی ہے۔ سلطان ٹیپو کے دور کے راجہ کا نام کرشنا چندر تھا، جو اس حکومت کا چوتھا راجہ تھا۔ سلطان کے والد حیدر علی اسی کے سپاہی تھے اور ترقی پا کر ودیار کی سلطنت اپنے ہاتھ میں لے لی تھی۔ 

تفصیل آگے آئے گی۔ اس عمارت کا نام میں نے پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔ اس کی تاریخ کا بھی مجھے کوئی اتہ پتہ نہ تھا۔ ہم اس محل میں داخل ہوئے تو مجھے یہی نہیں معلوم تھا کہ اس کی تاریخی حیثیت کیا ہے۔ وہ تو بعد میں ورق گردانی سے صورتِ حال واضح ہوئی۔ میں نے اس محل کو دیکھا تو حسن و خوب صورتی کا مرقع نظر آیا۔ خوب طول طویل محل۔ فلک بوس اور نظارہ سوز۔ حسین گنبدوں سے مزین۔ اندرونی حصے فنِ تعمیر کی باریکیوں سے عبارت۔ انتہائی دل کش اور پرکشش۔ رنگ و روغن کا بہترین استعمال۔ ستونوں کی تعداد حد سے زیادہ۔ ایک جگہ دو شیر کالے پتھروں سے بنے ہوئے۔ کیا خوب فنکاری ہوئی ہے!! اندرونِ محل میں میٹنگ ہال بھی موجود۔ راجہ کی کرسیاں بھی دیکھیں۔ شاید چاندی سے تیار۔ خاص کرسیوں کی حفاظت کے لیے ایک گارڈ تعینات تھا۔ ایک بہت بڑا ہال اس شان کا، کہ اس کے آمنے سامنے دو انتہائی بڑے اور شفاف آئنے تھے۔ کمر کی اونچائی سے چھت تک پہونچے ہوئے۔ چوڑائی بھی اسی مناسبت سے۔ آپ اس آئنے کے سامنے کھڑے ہوں تو ہال کے سارے ستون اور آپ کا سراپا نظر آ جائے گا۔ تھوڑی دیر گھوم گھام کر وہاں سے نکلے تو گرمی نے ہم سے ٹھنڈ طلب کی۔ ہم نے آئس کریم کھائی اور وہاں سے روانہ ہو گئے۔
*شہادت گاہِ ٹیپوؒ کی زیارت*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لال باغ کی تفصیلی زیارت کے بعد میری بڑی خواہش تھی کہ سلطان ٹیپو کی شہادت گاہ اور مسجدِ اعلیٰ بھی دیکھوں۔ چناں چہ میسور محل سے نکل کر ہم لوگ اس مقصد کے لیے روانہ ہو گئے۔ کارواں وہی چھ سات نفوس پر مشتمل۔ پانچ سات منٹ ہی گاڑی دوڑی ہوگی کہ ہم سلطان کے قلعہ تک پہونچ 



گئے۔ محل کیا تھا، کھنڈر تھا۔ 

برائے نام دیواریں۔ ٹیپو کی 
شہادت کے بعد انگریزوں نے ہیرے جواہرات اور سونے چاندی کی تلاش میں پورا قلعہ ہی مسمار کر دیا تھا۔ اب جو کچھ تھا، مٹی کا ڈھیر۔ بس مٹتے ہوئے نقوش اور سینہ کوب مناظر۔ قلعہ ایک گاؤں میں تبدیل ہو چکا تھا۔ اچانک رہبر نے ایک جگہ گاڑی روکی اور کہا کہ یہی ٹیپو سلطان کی شہادت گاہ ہے۔ دیکھا تو ایک چوکور سا احاطہ تھا۔ اس کے بیچ میں ایک قدِ آدم ستون، جس پر ایک لوح کندہ تھی۔ میں نے اسے دیکھا تو جذباتی ہو گیا۔ وہ سارے مناظر میری آنکھوں میں پھر گئے، جو آج سے 220 سال قبل پیش آئے تھے۔ یہی وہ مقام تھا جہاں نومسلم غلام راجہ خان نے ٹیپو کو دھوکہ دیا تھا اور پیارے سلطان کو پانی تک نہیں دیا تھا، 

جب کہ سلطان مارے پیاس کے نڈھال ہو رہے تھے۔ بد نامِ زمانہ غدار میر صادق کی طوطا چشمی بھی نگاہوں میں پھر گئی۔ اسی نے انگریزی فوج سے مل کر سلطان کا پتہ بتایا تھا، حالاں کہ وہ ملعون ٹیپو حکومت کا وزیرِ اعظم تھا۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں سلطان نے آخری سانس لی تھی۔
[اگلی قسط میں پڑھیں: میر صادق کون تھا؟ ]