Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, October 27, 2019

کیا ہمارا پیسہ بینکوں میں محفوظ ہے ؟۔۔۔۔۔۔ایک اقتصادی تجزیہ۔


سراج الدین فلاحی/صداٸے وقت۔ 
============================
آج کل بینکنگ سیکٹر کے جو حالات ہیں اس سے ہر شخص خوفزدہ ہے اور دل ہی دل میں سوال کرتا رہتا ہے کہ مجھے اپنا پیسہ بینکوں میں رکھنا چاہیے یا نہیں؟ سوال یہ ہے کہ کیا اگر انڈین بینک ڈوب گئے تو ہمارا اور آپ کا بینکوں میں رکھا ہوا پیسہ بھی ڈوب جائے گا جو ہم اور آپ نے بڑی محنت سے کمایا ہے اور جوڑ جوڑ کر بینکوں میں جمع کیا ہے. کیا وہ پیسہ بینک آپ کو واپس کرئے گا یا بینک کے ساتھ وہ بھی ڈوب جائے گا؟ یا اگر ہمارا پیسہ بینکوں میں محفوظ ہے تو کس حد تک؟ جس طرح بینکوں کو آپس میں ضم کیا جا رہا ہے اس سے تو بہت سارے سوالات پیدا ہو رہے ہیں کہ کہیں ہمارے ملک کا بینکنگ سسٹم کولیپس تو نہیں کر رہا ہے؟

 مندی کے اس دور میں جہاں کئی بینک دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں وہیں PMC بینک جو ایک اچھا بینک مانا جاتا ہے اس نے تو ایمرجنسی نافذ کر دی ہے. اس بینک کے تقریباً ساڑھے سولہ لاکھ اکاونٹ ہولڈرس اپنے پیسوں کی واپسی کے لئے ممبئی کی سڑکوں پر جدوجہد کر رہے ہیں کیونکہ بینک میں رقم نہیں ہے اور رقم نہ ہونے کی وجہ سے آر بی آئی نے بینک کھاتے داروں کو چھ ماہ میں صرف چالیس ہزار روپے نکالنے کی اجازت دی ہے. یہ سن کر کئی افراد جن کی ایک بڑی رقم بینک میں جمع ہے وہ یا تو خودکشی کر رہے ہیں یا دل کا دورہ پڑنے سے لقمہ اجل بن رہے ہیں. اس لئے لوگوں کو ڈر ہے کہ کہیں ہمارے ساتھ بھی ایسا نہ ہو. اور یہ حقیقت بھی ہے کہ جس طرح بینکوں کی share price لڑھک رہی ہے اس سے عوامی تشویش اور ڈر میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے کہ کہیں ہم بینکنگ یا فنانشیل کرائسیس کی طرف تو نہیں بڑھ رہے ہیں؟ 
 اس دور میں ہر شخص اپنے تھوڑے بہت پیسے برے دنوں کے لیے اپنی کمائی سے بچا کر رکھتا ہے تاکہ مصیبت اور ناگہانی آفت کے وقت کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے. یہ سوچ کر کہ ان کے پیسوں کے لیے سب سے محفوظ جگہ بینک ہے وہ اپنے پیسوں کو بینک میں جمع کرتا ہے. 
بینکوں کا حال یہ ہے کہ موجودہ حکومت میں ان کا NPA  بڑھتا جا رہا ہے. NPA اس برے لون کو کہتے ہیں جو ڈوب چکا ہے اور اس کی واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے. این پی اے 2011 میں 2.4 فیصد سے بڑھ کر 2019 میں 9.3 فیصد ہو گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ تقریباً 9 لاکھ 33 ہزار کروڑ روپے کے لون کے بینکوں میں واپس آنے کی امید ختم ہو چکی ہے. ہندوستان کے مرکزی بینک آر بی آئی کے مطابق گزشتہ چند سالوں میں ہی 5 لاکھ 55 ہزار تین سو کروڑ روپے کا لون رائٹ آف کیا گیا ہے. رائٹ آف کا مطلب لون معاف نہیں کیا گیا ہے بلکہ اس لون کا بینکوں میں واپس آنے کا کوئی امکان نہیں ہے. اسی طرح بینکوں میں ہونے والے فراڈ میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے. 2015 میں بینکوں کے ساتھ ہونے والے فراڈ کے 4693 کیسیز تھے جو 2019 میں بڑھ کر 6800 ہو گئے. یعنی بینکوں سے پیسہ لے کر فرار ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جن میں بطور خاص بڑے بڑے صنعتکار شامل ہیں. 

 حال ہی میں Fitch جو کہ ایک عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ہے اس کا شمار دنیا کی تین چوٹی کی ایجنسیوں میں ہوتا ہے اس نے انڈین بینکنگ سسٹم پر جو آنکڑے دیے ہیں وہ چونکا دینے والے ہیں. اس ایجنسی کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے بینک تقریباً 50 بلین ڈالر کے سرمایہ کی کمی کا سامنا کر سکتے ہیں. اسی طرح Moodys Asia Pacific Ltd یہ بھی ایک کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ہے جو مختلف طرح کی ریسرچ کے ذریعے بینکوں اور فرموں کے رسک کا تجربہ کرتی ہے اور اس پر اپنی Credit Opinion شائع کرتی ہے. اس نے Asia Pacific Economies میں تیرہ ملکوں کے بینکوں کی جو درجہ بندی کی ہے اس میں ہندوستانی بینکنگ سسٹم کو انڈونیشیا کے ساتھ سب سے زیادہ غیر محفوظ بتایا ہے. موڈیز کے مطابق ہندوستانی بینک اپنے کم سرمایہ کے سبب سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں. ابھی چند دنوں قبل معاشیات میں نوبل انعام یافتہ ابھیجیت بنرجی نے بھی کہا ہے کہ ہندوستانی بینک کے خدشات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور یہ دیوالیہ کی طرف بڑھ رہے ہیں. 

ہندوستانی بینکوں کی خراب صورتحال کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ HDFC بینک کے چئیرمین دیپک پاریکھ جن کا شمار ایک بڑے بینکر کے طور پر ہوتا ہے انہوں نے چند روز قبل ایک بڑا بیان دیا ہے کہ ملک کی بڑی کمپنیوں کو دیے گئے بڑے بڑے لون صرف NPA میں ہی نہیں ڈالے جا رہے ہیں بلکہ بڑے پیمانے پر لون معاف بھی کیے جا رہے ہیں. اس کا مطلب یہ ہے کہ عوام کی گاڑھی کمائی کے پیسوں کی حفاظت کا کوئی مضبوط اور مستحکم فنانشل سسٹم ہمارے بینکوں کے پاس نہیں ہے. دیپک پاریکھ کا مذکورہ بالا بیان اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ چند روز قبل آر ٹی آئی کے ذریعے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ ملک کے سب سے بڑے بینک SBI نے 220 بڑے قرض داروں کو دیے گئے 76 ہزار کروڑ روپے کا لون ابھی حال ہی میں NPA میں ڈال دیا ہے. اگر ملک کے تمام شیڈول کمرشیل بینکوں کو ملا کر دیکھیں گے تو یہ رقم بہت زیادہ ہو جائے گی. گویا بینک بھی یہ بات مان چکے ہیں کہ ان کے ذریعے دیے گئے قرضوں کی وصولی اب ناممکن ہے. سوچنے کی بات یہ ہے کہ اتنے بڑے بینک کا چئیرمین اگر اس طرح کی باتیں کرتا ہے تو یہ بڑی تشویشناک بات ہے. تصور کیجئے کہ جو کارپوریٹ سیکٹر کو دیا گیا لون ہے بینک اسے تو NPA میں ڈالے چلے جا رہے ہیں اور بینکوں میں جو عام لوگوں کی محنت سے کمائی گئی بچت ہے اس کی حفاظت کا کوئی مستحکم نظم بینکوں کے پاس نہیں ہے. بینکوں میں تو لوگ اپنا پیسہ اس لیے رکھتے ہیں تاکہ چوری سے بچا سکیں لیکن آج کل تو بینکوں سے ہی پیسے چوری ہو رہے ہیں. چنانچہ اس پورے معاملے پر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہمارے بینکنگ سسٹم ہی کے ذریعے ہمارے پیسوں کی لوٹ چل رہی ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ حکومت ہمارے پیسوں کو کارپوریٹ سیکٹر پر لٹا رہی ہے.
 ایچ ڈی ایف سی (HDFC) جو کہ ایک پرائیویٹ بینک ہے دیپک پاریکھ ہی اس کے چیئرمین ہیں جن کا اوپر تذکرہ کیا گیا ہے یہ بینک تو اب اپنے کھاتے داروں کے passbook پر اسٹیمپ لگا کر یہ بتانے لگا ہے کہ اگر بینک ڈوبتا ہے تو اکاونٹ ہولڈروں کو  DICGC کے ضابطے کے تحت صرف ایک لاکھ روپے تک ہی ملیں گے چاہے بینک میں جمع رقم کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو. 
قابل غور بات یہ ہے کہ Deposit Insurance and Credit Guarantee Corporation (DICGC) جو کہ آر بی آئی کی ایک سبسڈری کمپنی ہے یہ کمپنی ڈپازٹ انشورنس کی نگرانی کرتی ہے. اس کا قیام 1961 میں اس مقصد کے تحت عمل میں آیا تھا کہ اگر کوئی بینک کسی وجہ سے ناکام، مقروض اور دیوالیہ کا شکار ہو جاتا ہے یا بینک کا لائسنس منسوخ ہو جاتا ہے تو ایسی صورت میں اکاونٹ ہولڈروں کو ان کا پورا پیسہ تو نہیں ڈوبے گا بلکہ صرف 30 ہزار روپے دیے جائیں گے گرچہ بینک میں جمع رقم کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو. DICGC میں 1993 میں تبدیلی لائی گئی اور 30 ہزار رقم کو بڑھا کر ایک لاکھ روپے کر دی گئی جبکہ دنیا کے بہت سارے ممالک ہیں جہاں کھاتے داروں کا بینکوں میں کل جمع پیسہ insured ہوتا ہے برازیل میں 42 لاکھ روپے، روس میں 12 لاکھ روپے insured ہوتا ہے لیکن ہندوستان میں اس کی حد صرف ایک لاکھ روپے ہے. یعنی اگر اس وقت آپ کے اکاؤنٹ میں دس، بیس لاکھ یا اس سے بھی زیادہ رقم جمع ہے اور کسی وجہ سے بینک ڈوب جاتا ہے تو آپ کو صرف ایک لاکھ روپے ہی ملیں گے. اگر آپ کے اکاؤنٹ میں ایک لاکھ سے کم رقم ہے تو اتنے ہی ملیں گے جتنا پیسہ آپ کے اکاؤنٹ میں ہے. اس بات کی بھی گارنٹی نہیں ہے کہ وہ ایک لاکھ روپے کیش میں ملیں گے یا بانڈز یا کسی دوسری شکل میں ملیں گے اور کتنی مدت میں ملیں گے. اس لئے ہر شخص یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا بینکوں میں ہمارا پیسہ محفوظ بھی ہے یا کسی دن بینک اچانک کہ دے گا کہ بینک ڈوب گیا اس لیے اب سارے اکاونٹ ہولڈروں کا پیسہ بھی ڈوب گیا. 
عوام کی ایک بڑی تعداد سود کے لیے بینکوں میں اپنا پیسہ رکھتی ہے یہ سوچ کر کہ پیسہ بھی محفوظ رہے گا اور کچھ نہ کچھ سود بھی ملتا رہے گا اس سے قطع نظر کہ سود کھانا حرام ہے اس پر بھی ایک نظر ڈالتے ہیں. چند روز قبل SBI نے شرح سود میں کمی کا اعلان کیا ہے. اگر آپ کے اکاونٹ میں ایک لاکھ روپے سے کم ہیں تو بینک آپ کو 3.25 فیصد سود ادا کرئے گا اور اگر آپ کے اکاونٹ میں ایک لاکھ روپے سے زیادہ ہیں تو بینک صرف 3 فیصد سود ہی دے گا. سوال یہ ہے کہ اس وقت جب کہ (Inflation) مہنگائی 3.50 فیصد ہے اور بینک میں جمع رقم پر شرح سود صرف 3 فیصد ہے تو بینک میں پیسہ جمع کرنے کے کا کیا مطلب؟ یعنی آپ سود میں جتنا کما رہے ہیں اس سے زیادہ تو مہنگائی میں گنوا رہے ہیں تو بینک میں پیسہ رکھنے سے بجائے فائدہ ہونے کے آپ کا تو نقصان ہو رہا ہے. اس کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں فرض کریں اس سال آپ کی تنخواہ میں پانچ فیصد کا اضافہ ہوا اور معیشت میں مہنگائی بھی پانچ فیصد ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کی آمدنی میں کچھ بھی اضافہ نہیں ہوا. 
بینک اس لیے شرح سود کم کر رہے ہیں تاکہ لوگ اپنا پیسہ بینک میں نہ رکھ کر زیادہ سے زیادہ خرچ کریں یا بازار میں سرمایہ کاری کریں تاکہ معیشت میں ڈیمانڈ بڑھے اور مندی کا خاتمہ ہو. 
سوچنے والی بات یہ ہے کہ جب بینک کسی کو لون دیتا ہے تو بدلے میں دکان، مکان، کھیت کھلیان وغیرہ کی شکل میں سیکورٹی رکھتا ہے تاکہ وہ اپنے پیسے کی واپسی کو یقینی بنا سکے. لیکن بینک آپ کے پیسوں کو واپس کرنے کی کوئی گارنٹی نہیں دیتا