Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, October 20, 2019

کربلا کے شہیدوں کا چہلم غم کے ماحول میں منایا گیا۔

جون پور ۔۔اتر پردیش(نماٸندہ صداٸے وقت۔۔۔٢٠ اکتوبر)۔
==========================
کربلا کے شہیدوں کا چہلم اتوار کے روزضلع میں غم کے ماحول میں عقیدت و احترام کے ساتھ منایا گیا۔ اس موقع پر جگہ جگہ مجالس منعقد ہوئی جس کے بعد امام چوکوں پر رکھے گئے تعزیہ، شبہ تربت، علم،ذوالجناح کے ساتھ جلوس کربلا پہنچا جہاں گنج شہیداں میں تعزیے کو سپردخاک کیا گیا۔ شہر میں مفتی محلہ واقع علی گھاٹ اور محلہ کٹگھرا، بخشا ء کے رنو گاؤں میں روایت کے مطابق تعزیہ کا جلوس نکال کر نوحہ ماتم کرتی ہوئی انجمنوں نے تربت اور تعزیوں کو سپرد آب کیا۔ مفتی محلہ میں گومتی ندی کے علی گھاٹ پر جبکہ رنو میں کربلا کے تالاب میں تعزیوں کو سپرد آب کیا گیا۔

شہر کے مفتی محلہ کا جلوس گومتی ندی کے علی گھاٹ پر واقع امام بارگاہ سے انجمن سجادیہ کی قیادت میں نکالا گیا۔ اس سے قبل مولانا محفوظ الحسن خاں نے مجلس کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کربلا میں حضرت امام حسینؓ اور ان کے 71 ساتھیوں کی شہادت کے بعد ظالم حکومت نے ان کے کنبہ پر ظلم ڈھایا یہاں تک کی خواتین کو قیدی بنا کر بے پردہ مدینہ اور کوفے کی گلیوں میں گھمایا گیا۔ سب سے پہلے امام حسینؓ کی بہن جناب زینب نے اپنے بھائی کا چہلم منایا آج ہم سب مل کر دریا کے کنارے ان کاچہلم منا رہے ہیں۔ اس کے بعدذوالجناح،علم و تابوت نکالا گیا۔ مولا حسن اکبر نے اعماریوں کا تعرف کرایا جس کے بعد تعزیے کے ساتھ اعماریاں برآمد ہوئی جس کے ہمراہ شہر کی تمام انجمنیں نوحہ ماتم کرتی ہوئی گومتی ندی کے علی گھاٹ کے کنارے پر پہنچی جہاں مولانا رضی حیدر بسوانی اور ڈاکٹر قمر عباس نے تقریر کیا جس کے بعد علم اور تربت کو ملایا گیا۔جلوس کی نظامت اسلم نقوی و سمشی آزاد نے کیا۔اس موقع پر حاجی محمد مہدی، پرویز خان، مرزا آفتاب سمیت دیگر لوگ موجود رہے۔انجمن سجادیہ کے صدر سید مہدالعابدی و جنرل سیکریٹری حسن زاہد خان بابو نے آئے ہوئے لوگوں کا شکریہ اد اکیا۔
اسی ترتیب میں شہر کے کٹگھرامیں چہلم کا روایتی جلوس نکالا گیا۔ اس سے قبل شیعہ عالم دین مولانا سید صفدر حسین زیدی نے مجلس کو خطاب کیا۔ اس کے بعد شبیہ ذوالجناح،علم، شبیہ تابوت اور تعزیے اٹھائے گئے جس کے ہمراہ انجمن حسینیہ بلواگھاٹ نوحہ و ماتم کرتی ہوئی اپنے قدیمی راستوں سے ہوتے ہوئے مقامی کربلا میں مولانا کی تقریر کے بعد تربت اور تعزیے کو سپرد خاک کیا گیا۔