Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, October 15, 2019

بابری مسجد ملکیت مقدمہ۔۔ہندو فریق کے وکلإ کا آستھا کی بنیاد پر فیصلہ دینے پر اصرار۔!


*جمعیۃعلماء ہند کے کووکیل ڈاکٹر راجیودھون کی ہندوفریق کے وکلاء کے ساتھ زبردست نوک جھوک،آج بحث اور جوابی بحث کا آخری* 
نئی دہلی15/اکتوبر 2019(صداٸے وقت/ذراٸع۔) ۔مولانا فضل الرحمن قاسمی۔
=============================
  بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت تنازعہ معاملہ کی سماعت کا آج 39 واں دن تھا جس کے دوران جمعیۃ علماء ہند کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون کی بحث کا جواب دینے سب سے پہلے سینئر ایڈوکیٹ پراسرن نے عدالت کو بتایا کہ عدالت کے لئے تاریخ درست کرنے کا وقت آگیا ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ بابر کی جانب سے کی گئی غلطی کو درست کرکے ملک کے ہندوؤں کے ساتھ انصاف کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ بابر ایک حملہ آور تھا جس نے ہندوستان پر قبضہ کیاتھا اور مندر کومہندم کرکے بابری مسجد کی تعمیر کی تھی۔مسلم فریقوں کی جانب سے حق ملکیت کے سوٹ نمر4 پر مہنت سریش داس نامی شخص کی جانب سے بحث کرتے ہوئے ایڈوکیٹ پراسرن نے عدالت کو بتایا کہ مسلمان کسی بھی مسجد میں نمازپڑھ سکتے ہیں لیکن ہندوؤں کے لئے ایودھیا رام کا جنم استھان ہے اور ان کی اس جگہ سے آستھا جڑی ہوئی ہے، پراسرن کے اس بیان پر ڈاکٹر راجیو دھو ن نے کہا کہ ایودھیا میں بھی درجنوں مندریں ہیں جہاں ہندو عبادت کرسکتے ہیں انہوں نے کہا کہ یہ عدالت میں حق ملکیت کا معاملہ  ہے جسے ثبوت و شواہد کی بنیاد پر دیکھا جانا چاہئے نہ کہ آستھا پر،نہ کہ بابر نے کیا کیا تھااس کی بنیادپر۔دھون نے عدالت کو بتایا کہ آج عدالت یہ فیصلہ نہیں کرنے جارہی ہے کہ بابر نے کیسے ہندوستان پر حکومت کی اور اسے ہندوستان میں آنے کا حق تھا یا نہیں وغیرہ وغیرہ۔ڈاکٹر راجیو دھون کی دخل اندازی پر رام للا کے وکیل سی کے ویدیا ناتھن نے شدید برہمی کا اظہار کیا اور عدالت  سے کہا کہ ایسے بحث نہیں کی جاسکتی کیونکہ اگر دھون بیچ بیچ میں ٹوک تے رہیں گے تو وہ یکسوئی سے بحث نہیں کرسکتے جس پر ڈاکٹر دھون نے کہا کہ اگر وہ عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کریں گے تووہ عدالت کی توجہ دلاتے رہیں گے۔ ڈاکٹر دھون اور ودیا ناتھن کے درمیان جب تکرار زیادہ بڑھنے لگی تو چیف جسٹس آف انڈیا نے مداخلت کرتے ہوئے ویدیاناتھن کو کہاکہ جب ڈاکٹر دھون بحث کررہے تھے  توآپ لوگ بھی انہیں درمیان میں ٹوک رہے تھے اور دوران بحث ایسا ہوتا ہے۔ اس معاملہ کی سماعت کرنے والی آئینی بینچ جس میں چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی، جسٹس اے ایس بوبڑے، جسٹس چندرچوڑ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس عبدالنظیرشامل ہیں کو ایڈوکیٹ پراسرن نے بتایا کہ مسجد کی تعمیر غیر قانونی طریقہ سے کی گئی تھی نیز سوٹ نمبر چار مقررہ وقت کے اندر داخل نہیں کیا گیا تھا۔ایڈوکیٹ پراسرن کی بحث کے دوران جسٹس چندرچوڑ نے کہا کہ کیا آپ ڈاکٹر دھون کی اس دلیل سے متفق ہیں کہ ایک بار مسجد بن جانے 
کے بعد وہ ہمیشہ مسجد ہی رہے گی

پراسرن نے کہا کہ وہ ڈاکٹر دھون کے
دعوے کوقبول نہیں کرتے ہیں بلکہ ان کا دعوی ہے کہ ایک بار مندر بن جانے کے بعدوہ مندر ہی رہے گا۔ آج جسٹس چندر چوڑ، جسٹس بوبڑے اور دیگر ججوں نے ایڈوکیٹ پراسرن سے کئی ایک سوالات پوچھے، اسی درمیان چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے ایڈوکیٹ ڈاکٹردھون سے پوچھا کہ کیا آپ خوش ہیں کہ آج بینچ پراسرن سے بھی سوالات پوچھ رہی ہے کیونکہ کل آپ نے کہا کہ تھا کہ جج صرف آپ ہی سے سوالات کرتے ہیں۔ایڈوکیٹ پراسرن نے اپنی بحث کوآگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ سنی وقف بورڈ مغل اور برٹش کی جانب سے مسجد کو دی جانے والی گرانٹ اور مسجد کی منظوری کو لیکر آج حق ملکیت کا دعوی نہیں کرسکتا کیونکہ حملہ آوروں کی جانب سے دی جانے والی گرانٹ غیر قانونی ہے، انہوں مزید کہا کہ بابری مسجد ایک ریگولر مسجد تھی جبکہ رام جنم بھومی ہندوؤں کے لئے خصوصی مقام رکھتی ہے۔پراسرن نے آگے کہا کہ ہندووں نے بھارت سے باہر جاکر کسی کو لوٹایا تباہ نہیں کیا بلکہ باہر سے آکر لوگوں نے بھارت میں تباہی مچائی کیونکہ ہمارا رویہ تو ”مہمان دیوتاہوتاہے“والا ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ تاریخ میں جو بھول ہوئی اسے درست کرنے کا وقت ہے کسی حملہ آورکو اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کے وہ ہندستانی تاریخ کے وقارکو مجروح کرے  انہوں نے مزید کہا کہ متولی کو صرف انتظامی امور کی ذمہ داری ہوتی ہے اس کو حق ملکیت نہیں دی جاسکتی ہے نیز عبادت کرنے والوں کو بھی حق ملکیت نہیں دی جاسکتی ہے۔اسی درمیان ڈاکٹر دھون نے درمیان میں اٹھ کر عدالت کو بتایا کہ وقف کو قانونی درجہ حاصل تھا اور مسجد کو منظوری حاصل تھی لہذا ملکیت کا حق مسلمانوں کا بنتا ہے حالانکہ وقف کی ہوئی زمین اللہ کی ہوجاتی ہے۔اس پر پراسرن نے کہا کہ مسلمانوں کو حق ملکیت حکومت سے مانگنا چاہئے لیکن انہوں نے ہندوؤں کے خلاف مقدمہ قائم کیا ہے، سوٹ نمبر4 میں نیز یہ مسلمانوں کو ثابت کرنا ہوگا کہ متنازعہ اراضی پر ملکیت کا ان کا حق ہے نیز مسلمانوں کی جانب سے الہ آباد ہائی کورٹ میں داخل کئے گئے تراجم اور سپریم کورٹ میں داخل  کئے گئے تراجم میں فرق ہے۔اسی درمیان ایڈوکیٹ پراسرن کی بحث کا اختتام عمل میں آیا حالانکہ وہ مزید وقت چاہ رہے تھے لیکن چیف جسٹس نے انہیں منع کردیا جس کے بعد رام للا کے وکیل سی ایس ویدیاناتھن نے بحث شروع کی اور عدالت کو بتایا کہ حق ملکیت کا حق Deity یعنی کہ مورتی کو جاتا ہے کیونکہ مسلم فریقوں کی جانب سے داخل کردہ سوٹ میں اس بات کا اقرار کیا گیا ہے کہ وہ سالوں سے اس مقام پر نماز ادا کرتے رہے ہیں لہذا انہیں حق ملکیت ملنا چاہئے نیز بابر نے مسجد کی تعمیرکی تھی اور اسے گرانٹ دیتا تھا یہ عدالت میں ثابت نہیں ہوسکا ہے۔اس پر جمعیۃعلماء ہند کے وکیل ڈاکٹرراجیودھون اور ویدیاناتھن کے درمیان ایک بارپھر تیکھی نوک جھوک شروع ہوگئی، ویدیاناتھن نے کہا کہ میں کوئی مداخلت برداشت نہیں کروں گا اس پر ڈاکٹر دھون نے جواب دیا کہ آپ مجھے موردالزام نہ ٹھہرائیں اور خاموش ہوجائیں،آج ویدیاناتھن کی بحث نامکمل رہی حالانکہ عدالت نے انہیں سوا پانچ بجے تک بحث ختم کرنے کا حکم دیا تھا، ویدیاناتھن کی درخواست پر عدالت نے انہیں کل مزید 45منٹ کی بحث کرنے کی اجازت دی ہے جبکہ دیگر چار ہندو فریقوں کو 45/45 منٹ بحث کرنے کی اجازت دی ہے جبکہ مسلم فریقین کی نمائندگی کرنے والے جمعیۃ علماء ہند کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون کو سب کا جواب دینے کے لیئے ایک گھنٹے کا وقت دیا ہے اور   عدالت تمام فریقین کی بحث کے بعد آئین ہند کی دفعہ 142 کے تحت حاصل خصوصی اختیارات پر فریقین سے گفتگو کریگی۔آج چیف جسٹس نے اشارہ دے دیا ہیکہ وہ معاملے کی سماعت کل ہی ختم کرسکتے ہیں۔قابل ذکر ہے کہ صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا سید ارشدمدنی نے 30/ستمبر2010کے فیصلہ پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس وقت کہاتھا کہ بابری مسجدکا فیصلہ الہ آبادہائی کورٹ کی لکھنوبینچ نے جس بنیادپر کیا ہے اس سے ہماری متحدہ قومیت، مشترکہ تہذیب،ہمارے ملک کے سیکولراور جمہوری روایت مجروح اور پامال ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گی اس لئے یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کا نہیں ہے بلکہ ہندوستان کے ہر اس فرداورجماعت کامسئلہ ہے جو ہندستانی کے سیکولر کردار اور اس کی جمہوریت پریقین رکھتاہے، دینی شعائر کی عظمت اوحرمت کے تحفظ اور بقاء کی کوشش مسلمانوں کا فریضہ ہے، جس کی وجہ سے جمعیۃعلماہند نے 15/نومبر2010 کو عدالت عظمی میں ہائی کورٹ کے فیصلہ کو چیلنچ کرتے ہوئے عرضی داخل کردی تھی، یہ سپریم کورٹ میں سب سے پہلی اپیل تھی، 9/مئی 2011کو سپریم کورٹ میں پہلی سماعت ہوئی تب سے آج تک سپریم کورٹ میں   91  سنوائی ہوئی ہے الحمد للہ ہر پیشی پر جمعیۃعلماء ہند کی سینئر وکلاء کی ٹیم نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے مدلل بحث کئے۔
آج دوران کارروائی عدالت میں ڈاکٹر راجیو دھون کی معاونت کے لیئے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجازمقبول، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے، ایڈوکیٹ قراۃ العین، ایڈوکیٹ شاہد ندیم،ایڈوکیٹ گوتم پربھاکر، ایڈوکیٹ کنور ادیتیا، ایڈوکیٹ سدھی پاڈیا، ایڈوکیٹ واصف رحمن خان و دیگر موجود تھے۔
فضل الرحمن قاسمی
پریس سکریٹری جمعیۃعلماء ہند
9891961134