Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, October 5, 2019

!تو یہ ملک کے وزیر داخلہ کی زبان ہے ! ! !


ثناءاللہ صادق تیمی /صداٸے وقت۔
=====================
این آرسی کو لے کر جسم قسم کی باتیں عام ہوتی رہی ہیں ، سمجھا جارہا تھا کہ ان میں افواہ یا خوف کا عنصر زیاد ہ ہے اور اسے اس قدر سنجیدگی سے لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔مختلف نام نہادسیکولر پارٹیوں کے مسلم چہروں نے اس پر بات بھی کی اور انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مسلمانوں کو ڈرنے کی ضرورت نہيں ہے ۔ جدیو کے نئے مسلم چہرہ ایم ایل سی خالد انور نےبھی اپنے ایک انٹرویوو میں اس بات پر زور دیا اور اسے امیت شاہ
کی سیاست سے جوڑ کردیکھا ۔

 لگ بھگ یہی موقف جمعیت علماء ہند کے مولانا محمود مدنی کا بھی نظر آیا ، حالاں کہ مولانا محمود مدنی دن بہ دن اپنے غیر سنجیدہ بیانات کی وجہ سے مشکوک ہوتے جارہے ہیں ۔ جہاں سیاسی ملی رہنماؤں کا یہ رویہ تھا وہیں بعض خالص مذہبی رہنماؤں نے ایک دوسرا ہی طریقہ اپنایا اور انہوں نے باضابطہ پریس ریلیز جاری کرکے عوام سے گزارش کی کہ اپنے وثیقے ( ڈوکومینٹس ) تیار رکھیں تاکہ کسی قسم کی کوئی پریشانی نہ ہو اور حسب ضرورت حالات کا مقابلہ کیا جا سکے ۔ اس سلسلے میں امیر شریعت مولانا ولی رحمانی کا نام لیا جاسکتا ہے ۔
این آرسی اپنے آپ میں کوئی مسئلہ نہیں ، کسی بھی ملک کے پاس اس کے باشندوں کا ریکارڈ تو ہونا ہی چاہیے ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس کام کو بہت پہلے ہونا چاہیے تھا ۔ مولانا یاسر ندیم الواجدی نے بجا طور پر محمود مدنی صاحب سے انٹرویوو لیتے ہوئے کہا کہ جمعیت کو تو عدالت میں حکومت کے خلاف پیٹیشن دائر کرنا چاہیے کہ اس نے اب تک یہ کام کیوں نہیں کیا ؟ مسلم تنظیموں نے جب وزیر داخلہ امیت شاہ سے ملاقات کی اور اپنی فکرمندیوں کا ذکر کیا تو انہوں نے یہی کہا کہ نیشنل رجسٹریشن آف سیٹیزنس آف انڈیا تو ضرورت ہے اور اس میں برائی کیا ہے آخر کس ملک میں شہریوں کا ریکارڈ نہيں ہوتا ؟ وزير داخلہ کی بات درست بھی تھی اور ہمارے ملی رہنما چپ چاپ وہاں سے آبھی گئے ۔ ماہر استاذ نے اپنے شاگردوں کو اچھے سے سمجھا بجھا کر بھیج دیا ۔
اس سلسلے میں ایک تیسرا موقف ایس ڈی پی آئی ( سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا ) کا سامنے آيا کہ ہم ہندوستانی شہری ہیں اور ہمیں کسی قسم کے این آرسی کی ضرورت نہیں ہے اور ہمیں کھل کر حکومت کی مخالفت کرنی چاہیے ۔
این آرسی واقعی مسئلہ نہیں  ہوتی اگر مختلف جہتوں سے وہ باتیں سامنے نہ آتیں جو آرہی ہیں ، ملک کے وزیر داخلہ جو بر سراقتدار پارٹی کے سربراہ بھی ہیں ، بیان دیتے ہیں کہ وہ پہلے سیٹیزن شپ امینڈ  منٹ بل پاس کرائیں گے ، ہندو ، سکھ ، جین ، عیسائی ، پارسی وغیرہ وغیر ہ کی ہندوستانیت کو خطرے سے باہر کریں گے ، کسی ایک کے لیے خطرہ نہیں رہے گا اور اس کے بعد این آر سی کریں گے یعنی سوائے مسلمانوں کے بقیہ سب لوگوں کو ہندوستانی شہری مانا جائے گا اور یہ صرف مسلمانوں کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اپنی شہریت ثابت کریں ۔
ہم مولانا محمود مدنی کا ذکر نہیں کریں گے کہ مولانا نے تو جیسے پہلے سے حکومت سے کہ کر رکھا ہوا ہے کہ آپ کو جوکرنا ہے کیجیے ہم اس کی مسلمانوں کے نمائندہ کی حیثیت سے تائید کرتے رہیں گے اور دنیا کو  بتائیں گے کہ اتنے کڑور مسلمانوں کی طرف سے ہم یہ بات کہ رہے ہیں۔ سوال ان کے علاوہ بقیہ سیاسی قائدین اور ملی رہنماؤں کا بھی ہے ، ہم اگر اسے بہت ہلکے میں لے رہے ہیں تو یہ اتنے ہلکے میں لینے کی چیز نہيں ہے ۔سیٹزن شپ امینڈمنٹ بل لوک سبھا سے پاس ہوچکا ہے ، راجی سبھا میں ان کی اکثریت لگ بھگ طے ہے تو ان کے لیے بل پاس کرانا کچھ اتنا مشکل نہيں ہوگا ، ایسے میں این آرسی کی تلوار صرف مسلمانوں پر لٹکنے والی ہے اور یہی بات کھلے عام ملک کے وزیر داخلہ کہ رہے ہیں ۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ کسی سیکولر جمہوری ملک کے وزیر داخلہ کے لیے ایسا کہنا کیا درست ہے ؟ کیا قانون یا دستور وزیر داخلہ کو اس بات کی اجازت دیتا ہے ؟ کیا خود ملک کا وزیر داخلہ فرقہ واریت کو بڑھاوا نہیں دے رہا ہے ؟ کیا ایسا کرکے دستور کی بنیادوں کو معدوم نہيں کیا جارہا ہے ؟
ہم سمجھتے ہیں کہ لگ بھگ تمام مسلمانوں کے پاس کاغذات موجود ہیں ، ان شاءاللہ این آرسی ہوگی بھی تو انہيں پریشانی نہيں ہوگی لیکن مان لیجیے کہ کرم چاری اور افسران بدمعاشی پر اتارو ہوجاتے ہیں ( تجربات کی روشنی میں یہ کوئی بعید بات بھی نہیں ) اور چند ہزار لوگوں کا نام ہی رجسٹرڈ نہیں ہوپاتا ، آپ کو کیا لگتا ہے کیا یہ باضابطہ ایک بڑے مسئلے کی بنیاد رکھنا نہیں ہوگا ؟ کیا حکومت کی منشا واقعی اچھی ہے ؟ یا پھر پورے ملک کی اکثریت کو یہ جتانا ہے کہ مسلمان ہی سارے مسائل کی وجہ ہیں ؟
کیا ہم دیکھ پارہے ہیں کہ ملک کی معیشت چرمرائی ہوئی ہے ؟ نوکریاں ملتی کیا الٹے نوکریاں جارہی ہیں ؟  بینک بند ہورہے ہیں ؟ حکومت آر بی آئی سے پیسے لے رہی ہے ؟ جی ڈی پی دن بہ دن  نیچے کھسک رہی ہے اور سارے ہنگامے کے باوجود ملکی معی