Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, October 21, 2019

کملیش فیملی کی کیوں نہیں سن رہی پولس، بی جے پی لیڈر سے پوچھ تاچھ کیوں نہیں؟

۔۔لکھنٶ۔۔۔اترپردیش۔۔صداٸے وقت /ذراٸع۔/بشکریہ ملت ٹاٸم۔
======================
کملیش تیواری قتل معاملہ میں پولس نے اپنا پورا دھیان ایک ہی طرف لگا رکھا ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے اس نے صرف ایک کڑی کو پکڑ کر تفتیش شروع کر دی ہے۔ حالانکہ کملیش تیواری کی فیملی بار بار یہ کہہ رہی ہے کہ اس قتل معاملہ میں آپسی رنجش کا شبہ ہے اور اس کے لیے انھوں نے مقامی بی جے پی لیڈر شیو کمار گپتا کا باضابطہ نام بھی لیا تھا۔ یہاں حیران کرنے والی بات یہ ہے کہ پولس سالوں پہلے مسلمانوں کے ذریعہ دی گئی دھمکی کو سامنے رکھ کر جانچ کی کارروائی آگے بڑھا رہی ہے اور شیو کمار گپتا پر جو کملیش کی ماں اور اس کے بھتیجے نے الزام لگایا ہے، اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی۔

ہندی نیوز پورٹل ’بی بی سی‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں اتر پردیش کے سینئر صحافی سبھاش مشرا کا ایک بیان شائع کیا ہے جو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا واقعی پولس صحیح سمت میں کارروائی کر رہی ہے۔ انھوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’’جس طرح سے ڈی جی پی نے اس معاملے کو سلجھانے کا دعویٰ کرتے ہوئے اسے ختم کرنے کی کوشش کی ہے، اس سے لگتا ہے کہ کچھ زیادہ ہی جلد بازی دکھائی جا رہی ہے۔‘‘

قابل ذکر ہے کہ اتر پردیش کے ڈی جی پی کا کہنا ہے گجرات اے ٹی ایس اور یو پی پولس کی مدد سے جو لوگ ابھی گرفت میں آئے وہ صرف سازش میں شامل بتائے جا رہے ہیں۔ جبکہ کملیش تیواری قتل کرنے والے دو مشتبہ لوگوں کی پولس تلاش کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں یو پی پولس نے انعام کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ یو پی پولس کا کہنا ہے کہ مشتبہ ملزمان اشفاق اور معین الدین پٹھان فرار ہیں جن کو گرفتار کرانے والوں کو ڈھائی ڈھائی لاکھ روپے انعام دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔

کملیش تیواری کی ماں نے ریاستی حکومت کو بھی اس قتل معاملے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ انھوں نے کہا کہ کملیش کی جان کو جو خطرہ تھا، اسے ریاستی حکومت نے نظر انداز کیا۔ کسم تیواری کے اس الزام کو اس لیے بھی درست ٹھہرایا جا رہا ہے کیونکہ ایک ویڈیو پیغام میں بھی کملیش تیواری نے اپنی جان کو خطرہ بتایا تھا اور سیکورٹی نہ بڑھنے کے لیے واضح طور پر یوگی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ یہ ویڈیو کملیش تیواری نے اپنے قتل سے کچھ ہی دنوں قبل جاری کیا تھا۔