Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, November 18, 2019

جہان نما کی سیر۔۔۔۔۔قسط 10....از مولانا فضیل ناصری



✏ فضیل احمد ناصری /صداٸے وقت۔
=============================
*جامعہ احیاء العلوم منزل بہ منزل*
          -------------------------
مولانا عبدالباری قاسمیؒ کا عہدِ نظامت اس ادارے کا سب سے طویل، تابناک اور حصول یابیوں کا مثالی دور ہے۔ اس دور میں علم و فن اور فضل و کمال کی کھیتی ہمیشہ لہلہاتی رہی۔ 1987 میں مولانا کے انتقال سے اچانک وہ زریں عہد اختتام کو پہونچ گیا اور مفتی جمیل احمد نذیری صاحب سریر آرائے نظامت ہوئے ۔ 1988 سے 1992 تک انہوں نے پانچ سال مسلسل اس کی خدمات کا دائرہ آگے بڑھایا۔ مفتی نذیری صاحب مبارک پور ہی کے محلہ نوادہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ بڑی قابلِ رشک شخصیت پائی ہے۔ عین الاسلام نوادہ، احیاء العلوم مبارک پور اور دارالعلوم دیوبند ان کے تعلیمی اسفار کے پڑاؤ رہے۔ 1975 سنِ فراغت ہے۔
مفتی صاحب کا مطالعہ اگرچہ ہمہ پہلو اور ہشت گوشہ ہے، مگر فقہ و فتاویٰ ان کا مرکزی موضوع ہے ۔ درجنوں کتابیں ان کے قلم سے آ چکیں۔ لوح و قلم سے راز و نیاز تو ہے ہی، تقریر بھی بڑی دل پذیر اور علمی کرتے ہیں۔ 1992 سے تا حال مدرسہ عین الاسلام نوادہ میں تدریس و اہتمام اور فتویٰ نویسی کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ولادت 1956 میں ہے۔

پھر مولانا شمس الدین الحسینی کا دور آیا، انہوں نے بھی اپنے پیش رووں کے چھوڑے ہوئے نقوش پر احیاء العلوم کو آگے بڑھایا اور اسے اپنا خونِ جگر دیا۔ ان کی خدمات کا دائرہ 1997 تک کھنچ سکا۔ انہوں نے یہاں پڑھا بھی، پڑھایا بھی۔ دارالعلوم دیوبند سے ان کی فراغت ہے۔ اپنے استاذ حضرت مدنیؒ سے بڑی محبت تھی، اسی لیے *الحسینی* کو اپنے نام کا جز بنا لیا۔ تقریباً 85 برس کی عمر پا کر 2000 میں انہوں نے سرائے فانی کو خیر باد کہا۔ 

ان کے بعد مولانا عبدالمعید صاحب آئے اور کم و بیش 18 سال تک اس کی زمامِ نظامت اپنے ہاتھ میں رکھی۔ مولانا کا دورِ نظامت بھی کارناموں سے لبریز ہے۔ مولانا اس وقت علالت سے گزر رہے ہیں، ان کے لیے دعا کی درخواست ہے۔

مولانا کے بعد مولانا جمیل احمد مدنیؒ کار گزار ناظم بنائے گئے، مگر علالت کے باعث ان کی نظامت کا دورانیہ دو برسوں تک ہی ممتد رہا۔ مولانا مدنیؒ بھی علاقے کی اہم ترین علمی شخصیت تھے۔ احیاء العلوم میں پڑھا اور بعد میں مدرس بھی رہے۔ ان کا تدریسی دورانیہ بھی کافی دراز ہے۔ 1958 میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت ہے۔ دیوبند کے اساتذہ میں مولانا فخر الدین مراد آبادی اور علامہ بلیاویؒ وغیرہ نمایاں ہیں۔ احیاء العلوم میں تدریس کے دوران علمی تشنگی نے یکایک ایسا بے چین کیا کہ اب مدینہ یونیورسٹی پہونچ کر دم لیا۔ مولانا نے تین چار سال رہ کر اکتسابِ فیض کیا، پھر وہیں سے مبعوث ہو کر نائجیریا چلے گئے اور 27 سال تک وہیں اپنی خدمات پیش کیں۔ اخیر عمر میں احیاء العلوم کے کار گزار ناظمِ اعلیٰ بنے اور پونے دو سال تک اس کی باگ ڈور سنبھالی۔ 2018 میں دیوبند میں وفات پائی۔ دارالعلوم دیوبند کے استاذ مولانا عارف جمیل مبارک پوری انہیں کے صاحب زادے ہیں۔ 

ان کے بعد اگست 2015 سے ہمارے ممدوح مفتی یاسر صاحب اس کی نظامت سنبھال رہے ہیں۔ ان میں غضب کی قابلیت ہے۔ موصوف جامعہ عربیہ بیت العلوم سرائے میر میں تدریس کر رہے تھے کہ ذمہ دارانِ احیاء العلوم نے حضرت مولانا شاہ عبداللہ پھول پوریؒ سے انہیں مانگ لیا۔ مولانا پھول پوریؒ نے با دلِ ناخواستہ انہیں اجازت دے دی، اس وقت سے احیاء العلوم ان کی نظامت میں رواں دواں ہے۔ جس وقت ان کے ہاتھ میں یہ ادارہ آیا، اس کے سنہرے ایام رخصت ہو چکے تھے۔ اس کا شباب اتر چکا تھا۔ مفتی صاحب اپنی تمام تر جد و جہد کے ساتھ آتشِ رفتہ کے سراغ میں رات دن مگن ہیں اور اس کی بازیابی کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے۔ کچھ نئے کام بھی انہوں نے چھیڑے ہیں۔ جامعہ کے نام سے دو ماہی رسالہ *احیاء العلوم* جنوری 2019 سے جاری ہوا۔ فتاویٰ احیاء العلوم پر بھی ان کی نگاہیں مرکوز ہیں۔ پہلی جلد تیار ہو کر اشاعت کے مرحلے میں ہے۔

وہ نوجوان ہیں۔ صاحبِ عزم و عزیمت ہیں۔ جوش و جذبے سے لبریز ہیں۔ امید ہے کہ ان کا دور عظمتِ رفتہ کی بازیابی کے لیے یاد کیا جائے گا اور جامعہ ایک بار الٹی زقند پھر لگائے گا۔ 

جامعہ دو مقامات پر چل رہا ہے۔ مسجد دینا بابا کے پاس والی عمارت اب تعلیم نسواں کے کام آ رہی ہے، جب کہ بنین کی تعلیم ساری کی ساری شہر سے باہر عمارتوں میں ہے۔ یہ علاقہ جامعہ آباد کہلاتا ہے۔ یہاں مدرسے کی شان دار مسجد بھی ہے جسے عبداللہ ابن مسعودؓ سے موسوم کیا گیا ہے۔ جامعہ آباد میں مدرسے کا کل رقبہ ساڑھے سولہ بیگھے ہے۔

[اگلی قسط میں پڑھیں: احیاء العلوم میں فتاویٰ کی خدمات وغیرہ]