Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, November 20, 2019

جہاں نما کی سیر۔۔۔۔۔۔۔قسط 11......دلچسپ سفرنامہ ۔۔۔۔مولانا فضیل احمد ناصری۔

*جہاں نما کی سیر*
قسط (11)

✏ فضیل احمد ناصری /صداٸے وقت۔
=========================

*مفتی یاسین مبارک پوریؒ*

جامعہ احیاء العلوم کا مختصر ذکر چل ہی پڑا ہے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جامعہ کے مفتئ ثانی حضرت مولانا مفتی محمد یاسین صاحب کی شخصیت پر عقیدت کے دو پھول نچھاور کر ہی دیے جائیں۔ مفتی صاحبؒ یکم محرم 1325ھ کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم پورہ صوفی میں مولوی حکیم محمد صاحبؒ سے پائی۔ پھر جامعہ احیاء العلوم سے مراجعت کی۔ یہاں مولانا علی احمد کوریا پاریؒ سے خصوصی لگاؤ رہا۔ استاذ محترم ناصر العلوم گھوسی گئے تو ان کے پیچھے یہ بھی گھوسی پہونچ گئے۔ یہاں سے فارغ ہوئے تو دیوبند کا رخ کیا۔ یہ وہ دور تھا جب امام العصر علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے علمی جلال کا شہرہ مشرق و مغرب کو للکار رہا تھا۔ علامہ شبیر احمد عثمانیؒ مسند سجائے بیٹھے تھے۔ علامہ ابراہیم بلیاویؒ اور مولانا اعزاز علی امروہویؒ کے ماہتابِ کمال سے دنیائے علم و عرفان مستنیر ہو رہی تھی۔ مفتی یاسین صاحبؒ نے ایسے ہی جبالی رجال سے استفادہ کیا۔ 1345ھ میں فراغت پائی۔ مولانا منظور احمد نعمانیؒ اور مولانا اسلام الحق کوپا گنجیؒ ان کے رفقائے درس میں تھے۔

یہاں سے نکلے تو عملی زندگی میں قدم رکھ دیا۔ بہار کی راجدھانی پٹنہ پہونچے اور تدریسی سفر کا آغاز کر دیا، وہاں سے اٹھے تو پنڈ دادن خاں پنجاب چلے گئے۔ پھر بعدِ مسافت کی وجہ سے اسے چھوڑا تو اپنے وطن کے قریب ہی ابراہیم پور کے مدرسے میں اپنا مشغلہ جاری رکھا۔ 1349ھ مطابق 1931 میں حضرت مولانا شکر اللہ صاحبؒ کی کوششوں سے اپنی مادرِ علمی احیاء العلوم میں آ گئے اور تادمِ واپسیں یہیں خدمات پیش کیں۔

مفتی صاحبؒ اتباعِ سنت کے بڑے پاس دار تھے۔ عوام سے مربوط بھی۔ مطالعہ کے خوگر۔ جفاکشی کا استعارہ ۔گرچہ ہر فن مولا تھے اور ہر علم و فن پر ان کی گہری نظر، تاہم تفقہ فی الدین میں ان کا رسوخ انتہائی حیرت انگیز تھا۔ وہ جس مسئلے پر لکھتے، تحقیقات کا انبار لگا دیتے۔ کبھی عقدہ نہ کھلتا اور مسئلے پر اپنی رائے ظاہر کرنی ہو تو *تامل* جیسے لفظ سے دیگر مفتیانِ کرام کو غور و فکر کی دعوت دیتے۔ ان کے فتاویٰ کو اپنوں میں یہ اعتبار کہ دارالعلوم دیوبند نے بھی کئی بار ان کی تحقیق کے بعد اپنے فتوے سے رجوع کیا۔ غیر دیوبندی بھی ان سے اپنے مسائل حل کروا کر چہرے پہ یقیں کا نور سجاتے۔

احیاء العلوم میں فتویٰ نویسی کا آغاز اگرچہ محی السنۃ مولانا شکر اللہ صاحبؒ کے عہد سے ہی شروع ہو گیا تھا اور وہ فتاویٰ لکھتے بھی تھے، جن کی نقل اب بھی موجود ہے، تاہم اس کا شہرہ مفتی یاسین صاحبؒ سے زیادہ ہوا، بلکہ بہت زیادہ! ان کے فتاویٰ کی تعداد ہزاروں تک پہونچتی ہے۔ مولانا شکر اللہ صاحب کو ان کے فتاویٰ پر کتنا اعتماد تھا، اسے سمجھنے کے لیے ان کی وصیت کے یہ الفاظ دیکھیے، جو انہوں نے لکھنؤ میں اپنے علاج کے دوران مفتی صاحبؒ سے کہے تھے۔ الفرقان لکھنؤ کے ربیع الاول 1361ھ والے شمارے میں درج ہے کہ:

*ہمیشہ دینی کام کرنا، تم سے مجھ کو بہت فائدہ پہونچا، خصوصاً فتویٰ میں* ۔

1352ھ سے تا وفات انہوں نے اس عہدے کو مسلسل رونق بخشی۔ اکتوبر 1983 مطابق 1404ھ میں وصال فرمایا۔

ان کے وصال کے بعد بھی یہاں کا دارالافتاء اپنی خاص شناخت کے ساتھ سرگرمِ سفر ہے۔ ان کے خصوصی شاگرد مفتی امین مبارک پوری زید مجدہم اس شعبہ کو بحسن و خوبی چلا رہے ہیں۔

*میرے مشاہدات*

یہ تو رہی احیاء العلوم کی مختصر تاریخ۔ میں جب جامعہ آباد پہونچا تو یہاں کے دارالاقامہ کو دیکھنے کا موقع ملا۔ بڑی عالی شان اور پھیلی ہوئی عمارتیں میرے سامنے تھیں۔ یہاں کل چار بلڈنگیں ہیں جن میں 58 کمرے ہیں۔ ایک بلڈنگ دارالاقامہ کی ہے، دوسری درس گاہ کی، تیری مطبخ کی اور چوتھی مسجد کی۔ مفتی یاسر صاحب نے ہمیں اپنے دفترِ اہتمام میں بڑی وارفتگی سے ٹھہرایا اور خوش رنگ و لذیذ سیب سے خاطر تواضع کی۔ جمعہ کا دن تھا۔ طلبہ برائے نام تھے، بیش تر اپنے گھر یا عزیز کے یہاں چلے گئے تھے۔ میرے پاس موقع تھا کہ اس کے در و دیوار پر ایک نظر ڈالوں۔ دفترِ اہتمام کے بالکل قریب ہی کئی دیواری پرچے آویزاں ملے، جن میں سے بعض عربی میں تھے اور بعض اردو میں۔ میں نے ان پر سرسری نگاہ ڈالی اور طلبہ کے قلمی ذوق کو تاڑنا چاہا تو مجھے بڑی خوش گوار مسرت ہوئی کہ پرانی دھوپ کی تمازت کا اثر طلبہ میں ماشاءاللہ اب بھی باقی ہے۔ مفتی صاحب نے بتایا کہ احیاء العلوم کا یہ حصہ 5 ستمبر 2013 میں آیا ہے۔ پرانی عمارت مسجد دینا بابا کے پاس ہی ہے۔ آپ کو اس کی بھی زیارت کرائی جائے گی، پہلے آپ الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور دیکھ آئیں۔

[اگلی قسط میں پڑھیں: بریلویوں کے ام المدارس الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور میں]