Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, November 21, 2019

جہاں نما کی سیر۔۔۔۔۔۔۔۔قسط 12۔۔۔۔۔۔مبارکپور کی تاریخ کے متعلق دلچسپ معلومات۔

*جہاں نما کی سیر*
قسط (12) 

✏ فضیل احمد ناصری/صداٸے وقت۔ 
=============================
*مبارک پور کی مختصر تاریخ*
------------------------------------
الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور کی رودادِ سفر لکھنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مبارک پور کی تاریخ پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے۔ اعظم گڑھ شہر سے شمال و مشرق میں 8/ میل یعنی 16 کلومیٹر پر یہ آبادی واقع ہے اور شہر سے ایک پختہ سڑک کے ذریعے ملی ہوئی ہے۔ یہ قصبہ کبھی گورکھپور ضلع کے ذیل میں آتا تھا، اب اعظم گڑھ کا حصہ ہے۔ یہ 28 محلوں کا مجموعہ ہے، جن میں سے 14 مبارک پور خاص میں ہیں اور 14 ملحقات میں۔ سکھٹی، نوادہ، حسین آباد، بمہور اور سریاں وغیرہ ملحقات میں ہی آتے ہیں۔ قصبہ کی عمر کم و بیش پانچ سو برس ہے۔ اس کا سابق نام قاسم آباد تھا۔ کڑا مانک پور کی ایک عظیم شخصیت راجہ شاہ مبارکؒ یہاں تشریف لائے۔ یہ سادات میں سے تھے اور مانک پور کے خانوادۂ حامدیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے ہی بعہدِ ہمایوں اس کی بنیاد رکھی۔ شاہ صاحب کا انتقال 965ھ میں ہوا اور مانک پور میں مدفون ہوئے۔
مبارک پور بیسویں صدی عیسوی سے مختلف مکاتبِ فکر کا مرکز رہا ہے۔ رجالِ علم اور جہابذۂ کمال کی کثرت کی بنا پر اسے *ہندوستان کا نیشا پور* بھی کہا گیا۔ اسلام کا نام لینے والے یہاں 95 فی صد ہیں۔ ان کے پانچ فرقے بھی یہاں آباد ہیں۔ غلبے کے اعتبار سے بریلویت سب سے اوپر ہے۔ نمبر دو پر دیوبندی ہیں۔ تیسرا مقام غیر مقلدین کا ہے، جب کہ چوتھے نمبر پر شیعہ اور پانچویں پر بوہرہ جماعت ہے۔ بریلویوں کا سب سے مرکزی ادارہ *الجامعۃ الاشرفیہ* ہے، دیوبندیوں کا *جامعہ احیاء العلوم*، غیر مقلدین کا *دارالتعلیم* ہے، جسے صاحبِ تحفۃ الاحوذی مولانا عبدالرحمن مبارک پوریؒ نے 1313ھ میں قائم کیا تھا۔ اور شیعہ کا مدرسہ *باب العلم* کے نام سے ہے۔ بوہرہ جماعت کا کوئی با قاعدہ مدرسہ نہیں۔ وہ اپنی مسجد سے ہی اس کا کام لیتے ہیں۔ اس کا سارا نظام ممبئی سے مربوط ہے۔ اس کا مذہبی پیشوا *سیدنا* کہلاتا ہے۔ 
مبارک پور میں اگرچہ یہ سارے فرقے ہیں اور سب کے سب مضبوط پوزیشن میں، لیکن یہاں مناظرے کا اب کوئی تصور نہیں۔ کسی زمانے میں ایک بریلوی فاضل نے دیوبندیوں کے خلاف *المصباح الجدید* لکھی تو اس کے جواب میں احیاء العلوم کے استاذ مولانا حنیف رہبر صاحبؒ نے *مقامع الحدید* لکھ کر اس کا ایسا آپریشن کیا کہ فریقِ مخالف چاروں شانے چت ہو گیا۔ بریلویت کے خلاف اس کتاب کو اس دور میں بڑی پذیرائی ملی تھی۔ 

*الجامعۃ الاشرفیہ کا تعارف*
--------------------------------
مدارس میں اختلاف کے بعد ان کا دو نیم ہوجانا اب تو روز مرہ کی بات ہے۔ پہلے بھی کبھی کبھار اس قسم کی صورتِ حال پیش آتی رہی ہے۔ مبارک پور میں بھی یہی ہوا۔ جامعہ عربیہ احیاء العلوم کا پہلا نام مصباح العلوم تھا، جس کے مدرسِ اول مولانا محمد معروف تھے اور مدرسِ دوم مولانا صدیق گھوسوی۔ کسی بات پر ان میں اختلاف ہوا تو اس کے لخت ہو گئے۔ ایک کا نام احیاء العلوم پڑ گیا اور دوسرے کا نام مصباح العلوم۔ مصباح العلوم پرانی بستی میں لے جایا گیا۔ یہ ادارہ بریلوی مکتبِ فکر کا ہے اور ہندوستان بھر میں اسے مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
مصباح العلوم جب زیاہ بڑا ہوا اور برگ و بار خوب لایا تو 1934 میں اس کا نام بدل کر *دارالعلوم اہلِ سنت مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم* رکھ دیا گیا۔ اس کی مرفہ الحالی میں مزید اضافے ہوئے اور اس کی شہرت کو خوب پر لگے تو شہر سے باہر ایک وسیع قطعۂ اراضی لے لی گئی۔ مصباح العلوم کا ایک حصہ اب یہاں منتقل ہو گیا، اس بیرونی حصے کو اب صرف *الجامعۃ الاشرفیہ* کہا جاتا ہے۔ اعظم گڑھ میں اس کی شہرت *یونیورسٹی* کے نام سے ہے۔ آپ کسی گاڑی پر بیٹھ کر یونیورسٹی کا نام لیں گے تو ڈرائیور آپ کو بغیر پوچھے الجامعۃ الاشرفیہ کے گیٹ پر اتار دے گا۔
الجامعۃ الاشرفیہ گویا کہ مصباح العلوم ہی کی نشاۃ ثانیہ ہے۔ اس کی بنیاد 1934 میں پڑی۔ اس کے بانی مولانا عبدالعزیز صاحب ہیں۔ 
موصوف اپنے حلقے میں *حافظِ ملت* سے متعارف ہیں۔ انہیں *جلالۃ العلم* اور *محدث مراد آبادی* بھی کہا جاتا ہے۔ 1894 میں پیدا ہوئے، 1976 میں موت کی چادر اوڑھی۔ ان کا اصلی وطن مراد آباد کا بھوج پور تھا۔ یہ بہارِ شریعت کے مصنف مولانا امجد گھوسوی کے شاگرد تھے۔ گھوسوی صاحب اجمیر میں درس و تدریس کر رہے تھے تو یہ ان سے استفادے کے لیے وہاں پہونچ گئے۔ گھوسوی صاحب منظرِ اسلام بریلی کے مدرس ہوئے تو موصوف بھی منظرِ اسلام پہونچ گئے اور وہیں سے فراغت پائی۔ 
مولانا امجد گھوسوی صاحب کو ان کے حلقے میں *صدرالشریعہ* کہا جاتا ہے۔ یہ بانئ بریلویت جناب احمد رضا خاں صاحب کے تلمیذِ خاص تھے۔ 1296ھ میں پیدائش ہے۔ سنِ وفات 1367ھ ہے۔

[اگلی قسط میں پڑھیں: الجامعۃ الاشرفیہ میں]