Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, November 25, 2019

ڈینگی(ڈینگو) اور طب یونانی۔۔۔از ڈاکٹر فیاض احمد علیگ۔

از/ ڈاکٹر فیاض احمد علیگ (ایم ڈی)./صداٸے وقت۔
==============================
ملیریاکے بعدڈینگی(بھارت میں اس کو عام طور پر ڈینگو کہا جاتا ہے) سب سے عام مرض ہے جو مچھروں کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ اسکا سبب ایک وائر س ہوتا ہے جوایک قسم کے مادہ مچھروں کے کاٹنے سے انسانی جسم میں داخل ہوکربیماری کا سبب بنتا ہے۔ اس طرح کے مچھرزیادہ تر بارش کے بعدکے موسم میں اور بالخصوص رکے ہوئے پانی میں خوب پھلتے پھولتے ہیں۔ ان مچھروں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ دن کے وقت ہی کاٹتے ہیں۔
ڈینگی نے جب سے وبائی صور ت اختیارکی ہے، تب سے لے کراب تک لا تعداد لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا ہے۔ تاریخی شواہد کی روشنی میںہندوستان میں ڈینگی کی وبا سب سے پہلے ۱۸۱۲ء میں پھیلی تھی۔اس کے بعدسے بالترتیب ۱۹۵۲ء، ۱۹۶۰ء، ۱۹۶۳ء، ۱۹۶۴ء، ۱۹۶۷ء، ۱۹۷۰ء، ۱۹۸۲ء،اور ۱۹۹۶ء میں ہندوستان کے مختلف شہروں اور مقامات پر یہ وبا پھیلتی رہی اورلاکھوں لوگوں کو لقمۂ اجل بناتی رہی۔ ۱۹۸۰ءتک اس بیماری کے اسباب و وجوہات بہت واضح نہیں تھیں لیکن ۱۹۸۲ءکی وبا میں قطعی طورپر اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ یہ ایک وائرل بیماری ہے۔ اکتوبر ۱۹۹۶ءمیں صرف دہلی میںاس وبا کا شکار ۷۲۴۷لوگ ہوئے تھے جن میں سے ۲۹۷ لوگوں کی موت ہو گئی تھی۔ گذشتہ چالیس سالوں میںڈینگی کے واقعات میں حیرت انگیزاضافہ ہوا ہے۔ اعدادوشمارکے مطابق ۱۹۹۶ءسے اب تک۵۶ ممالک میں ۱۳ بلین سے زائد لوگ اس وبا سے متاثر ہو چکے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہرسال تقریباً ۵۰ بلین لوگ اس مرض میں مبتلا ہو تے ہیں اورتقریباًبارہ ہزارلوگ موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ڈینگی دراصل دن میں کاٹنے والے ایڈیز گروپ کے مچھروں خصوصاً ’’ Aedes Aegypti ‘‘ نامی مادہ مچھروں میں پائے جانے والے وائرس ہیں جو چار قسم کے ہوتے ہیں۔(۱) Den 1 (۲) Den 2 (۳) Den 3 (۴) Den 4۔ان میں سے اول الذکر دووائرس زیادہ تروبا کا باعث بنتے ہیں۔Den 1 اور Den 2 وائرس کا انکشاف پہلی بار۱۹۵۲ء میں ہوا جبکہ Den 3 کا انکشاف ۱۹۷۰ءمیں اور Den 4 کاانکشاف۱۹۶۰ء میں ہوا۔

ایڈیز ( Aedes Aegypti) نامی مادہ مچھرڈینگوکے مریض کو کاٹ کر خون کے ساتھ ہی مذکورہ وائرس کو چوس لیتے ہیں۔ پھر یہ وائرس اس مچھر کے لعابی غدد Salivary Glands میں پرورش پاتے ہیں اور تین دن سے دس دن کے اندر یہ وائرس اس قابل ہو جاتے ہیں کہ یہ مچھر دوسرے انسان کو کاٹ کر اس وائرس کو ان کے اندر منتقل کر دیتے ہیں۔ اس طرح تیزی سے تعدیہ( Infection)پھیلاتے ہوئے یہ وبا کا سبب بنتے ہیں۔
ان مچھروں کی خصوصیت یہ ہے کہ ۲۶ ڈگری سینٹی گریڈ یا اس سے کم درجہ حرارت پر ان کے اندر ان وائرس کی نشو و نما نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ ۲۶ ڈگری سینٹی گریڈ یااس سے کم درجہ حرارت میں یہ مچھر اپنے اندر ڈینگی وائرس کی پرورش اوردوسرے انسان تک منتقل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بیماری عموماً گرم و یابس علاقوں اور ان ممالک میں پھیلتی ہے جہاں کا درجہ حرارت ۲۶ ڈگری سینٹی گریڈسے زیادہ ہوتا ہے۔ چنانچہ ساوتھ ایسٹ ایشیا ریجن (SEAR ) کے ممالک جیسے بنگلہ دیش، بھوٹان، ہندوستان، پاکستان، برما، ملیشیا، کوریا، مالدیپ، میانمار، تھائی لینڈ، نیپال، شری لنکاوغیرہ ممالک میںیہ بیماری بڑے پیمانے پرپھیل رہی ہے۔ اسی طرح مذکورہ ممالک کے علاوہ سنگاپور، انڈونیشیا، فلپائن، اور مشرقی و مغربی افریقہ میں بھی یہ بیماری وبا کی صورت می پھیلتی ہے.: جہاںتک طب یونانی کا سوال ہے تو یونانی کتب میں اس نام کی کوئی بیماری نہیں ملتی۔ چونکہ اس بیماری کاظہورانیسویں صدی کے اوائل میں ہوا جبکہ طب یونانی جمود وتعطل کا شکار ہو چکی تھی۔ اطبا کے نزدیک ریسرچ و تحقیق شجرممنوعہ قرار پا چکی تھی۔ اطبا لکیر کے فقیربن چکے تھے اور اب تک وہی سلسلہ جاری اور وہی روش برقرار ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ تقریباً دو سو سالوں سے یہ بیماری لاکھوں لوگوں کو موت کی نیند سلا چکی ہے اور ہمارے اطبا و طبی ادارے سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ریسرچ و تحقیق کے نام پر محض پرانی کتابوں کی خوشہ چینی اور الفاظ کا الٹ پھیر ہی ان کا وطیرہ بنا ہوا ہے۔ ڈینگی کو ’’حمی دنج‘‘ کے نام سے شاملِ نصاب تو کر دیا گیا ہے لیکن کسی کتاب میں اس کا تفصیلی ذکر موجود نہیں ہے۔ طب یونانی کے تحقیقی ادارے CCRUM نے بھی آج تک اس پر کوئی تحقیقی کام نہیں کیا۔ آخر کیوں؟ کب تک اس بات پر فخر کرتے رہیں گے کہ سرجری ابوالقاسم زہراوی کی دین ہے اور طب جدید کی شاندارعمارت القانون کی بنیادوں پر کھڑی ہے۔
دنیا عمارت دیکھتی ہے بنیادنہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے طب یونانی کی بنیادوں پر طب جدید کی جوشاندارعمارت کھڑی ہے اسے بنیاد بنا کر طب یونی کی اس سے شاندار عمارت تعمیر کی جائے۔ اس کا واحد حل یہی ہے کہ تحقیق کے جدیداصولوں کے مطابق، طب یونانی میں ریسرچ و تحقیق کو آگے بڑھانے کے ساتھ ہی یونانی دواوں کو جدید اور معیاری شکل و صورت دی جائے جو زود اثر ہونے کے ساتھ ہی عوام الناس کو اپنی طرف راغب کر سکے۔ بہر کیف ……….
طب یونانی کے ذخیرہ میں ڈینگی سے مشابہ مرض ’’حمی قرمزیہ‘‘ یا ’’حمی حمرا‘‘ کا تذکرہ ملتا ہے، جس کی مدت حضانت سے لے کر علامات تک سب ڈینگی سے ملتی جلتی ہیں۔ البتہ اس کے سبب کا پتہ نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس وقت اس کے سبب کا پتہ نہ لگ سکاہو اور حقیقتاً وہی ڈینگی ہو۔ یہ راقم کا خیال ہے۔ ضروری نہیں کہ درست ہی ہو۔ اس کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ طبیہ کالجزکے جغادریوں اور طب یونانی کے ان ٹھیکیداروں پر چھوڑتا ہوں جن کو اپنی تنخواہ اور کرسی کے علاوہ طب یونانی سے کوئی مطلب نہیں۔ اسکے باوجود یہ امید کرتا ہوں کہ شاید انہیں میں سے کوئی ایسا نکل آئے جو مزید تحقیق کرتے ہوئے کسی نتیجہ تک پہنچ سکے۔ اگر ایسا ہوتا ہے، تو نہ صرف طب یونانی میںایک قابل قدر اضافہ ہو گا بلکہ یونانی طریقہ علاج سے لاکھوں غریب مریضوں کی جان بچ جائے گی۔

مرض کی شدت و خفت کے لحاظ سے ڈینگی کی درج ذیل تین اقسام ملتی ہیں۔

1-CDF -Classical Dengue Fever.

2- HDF- Haemorrhagic Dengue Fever Without Shock.

3- DSS- Dengue Shock Syndrome / Haemorrhagic Dengue Fever With Shock .

1-CDF -Classical Dengue Fever
[26/11, 8:37 am] Dr Sarfuddin Azmi: سے عام زبان میں ہڈی توڑبخاربھی کہتے ہیں۔ اس لئے کہ اس میں جوڑوں میں شدید درد ہوا کرتا ہے۔ اس مرض کی مدت حضانت ۳ سے ۵ دن اور عموماً۵سے ۶ دن ہوا کرتی ہے۔ اس میں ۱۵ سال سے کم عمر کے بچے زیادہ مبتلا ہوا کرتے ہیں۔ اس میں ڈینگی کے مذکورہ چاروں وائرس میں سے صرف ایک وائرس عموماً DEN 1 یا DEN 2 کا حملہ ہوا کرتا ہے۔ جس وائرس کا حملہ ہوتا ہے، شفا یاب ہونے کے بعد مریض کے اندر اس وائرس کے خلاف تا عمر کلی طورپر اور بقیہ تین وائرس کے خلاف جزوی طورپرقوت مناعت ( Immunity Power)پیدا ہوجاتی ہے اور وہ دوبارہ اس سے متاثر نہیں ہوسکتا۔
ڈینگی وائرس کے جسم میںداخل ہونے کے بعد ۵سے۶ دن کے اندراچانک لرزہ کے ساتھ تیز بخار (۴۰ڈگری سینٹی گریڈیااس سے زیادہ) چڑھتا ہے۔ شدیددردکے ساتھ عضلات اورجوڑوںمیں اس قدرشدید دردہوتا ہے کہ حرکات مشکل ہوجاتی ہیں۔ ۲۴گھنٹوںکے اندر آنکھوںکے حلقوں کے پیچھے خاص طورسے آنکھ کی حرکت کے وقت شدیددردہوتا ہے۔ بسا اوقات فوٹوفوبیابھی ہو سکتاہے۔
دیگرعلامات میں شدیدکمزوری، بھوک نہ لگنا، قبض، قولنج کی طرح پیٹ میںدرد، گلے میںخراش اورڈپریشن ہوسکتا ہے۔ دوروز کے بعد بخارمیںکمی آتی ہے اور اس کمی کا وقفہ چند گھنٹوں سے لے کردوروزتک ہو سکتا ہے۔ اس وقفہ کے بعد پھر اسی شدت سے بخار چڑھتاہے۔ اس طرح کے بخارکو طب یونانی میں’’غب دائرہ ‘‘ کے نام سے موسوم کیاجاتا ہے۔ وقفہ کے بعد جب بخار آتاہے توعموماً ۸۰فیصد مریضوں میں جلد پر خسرہ کی طرح دانے ( Eruptions) نکل آتے ہیں، جوعموماً چہرہ، گردن اورسینہ پر نکلتے ہیں، جن میں خارش بھی ہوتی ہے۔ یہ دانے دوگھنٹے سے لے کر چند دنوں میںختم ہو جاتے ہیں۔ بخار بھی عموماً ۵دن کے اندر ختم ہو جاتا ہے،اور شاذ و نادر ہی ۷ دن سے زیادہ رہتا ہے۔

2- HDF- Haemorrhagic Dengue Fever Without Shock.
ڈینگی کی یہ زیادہ سنگین صورت حال ہے، جو دو یا دو سے زیادہ ڈینگی وائرس کے تعدیہ ( Infection) سے پیداہوتی ہے۔ دونوں وائرس کے تعدیہ کی کئی صورتیںہوسکتی ہیں۔ مثلاً دونوںوائرس بیک وقت حملہ آورہوں یا دونوں کا حملہ یکے بعد دیگر ہو۔ اب اگردونوں بخار بیک وقت آئیں تو طب یونانی میں اسے ’’تشارک‘‘ کہتے ہیں۔ اگردونوں بخار اس صورت میںآئیں کہ ایک بخار موجودہو کہ دوسرا آجائے تو اسے ’’تداخل‘‘ کہتے ہیں۔ اگرایسا ہو کہ ایک کی باری صبح اور دوسرے کی باری شام کو ہو تو اسے ’’غب مضاعف ‘‘کہتے ہیں۔ اگر ایک باری کے بخار کے پوری طرح اترنے کے بعددوسری باری کا بخار آئے تواسے’’تبادل‘‘ کہتے ہیں۔ HDF میں بخار کی مذکورہ چاروں صورتوں میں سے کوئی بھی صورت ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ CDFکی تمام علامات کے ساتھ ہی درج ذیل علامات بھی ملتی ہیں جو HDF کو CDF سے الگ کرتی ہیںاور دونوں کی تشخیص میں معاون ہوتی ہیں۔
۱۔Tourniquet Test مثبت ( Positive) ہوگا اور ایک انچ اسکوائر ایریا میں ۲۰ یا اس سے زیادہ Petechiae موجود ہوں گے۔ (اس کا معیاری طریقہ بلڈپریشر کف کااستعمال ہے۔)

۲۔نکسیراورمسوڑھوںسے خون آنا۔

۳۔برازمیںخون آنا( Haematimasis /Melena)

۴۔جگرکا بڑھ جانا۔

مرض کی شدت کے لحاظ سےHDF کو درج ذیل چاردرجات میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

۱۔بخار کے علاوہ کوئی خاص علامت نہیں ہوتی۔ جریان الدم نہ ہو کر صرف Tourniquet Test مثبت ( Positive)ہوگا

۲۔مذکورہ علامات کے ساتھ تحت الجلد جریان الدم ہو گا۔

۳۔Circulatory Failure ہو گا۔نبض سریع و ضعیف ہو گی۔نبض کا دباوٗ ( Pulse Pressure) 20 mmHg یا اس سے بھی کم ہو گا۔Hypotension کے ساتھ جلد سرد اورطبیعت میں بے چینی ہوگی۔

۴۔شدیدصدمہ کی صورت میںنبض اور بلڈپریشرکا پتہ لگانا دشوارہو گا۔
[26/11, 8:38 am] Dr Sarfuddin Azmi: 3- DSS- Dengue Shock Syndrome / Haemorrhagic Dengue Fever With Shock

اس صورت میں ابتدائی طور پر مذکورہ دونوں اقسام کی علامات کے ساتھ ہی مریض اچانک Shock میں چلاجاتا ہے۔نبض سریع و ضعیف ہو جاتی ہے ۔نبض کا دباو (Pulse Pressure) 20 mmHg یا اس سے بھی کم ہو جاتا ہے۔ Hypotension کے ساتھ ہی جلد سرد اور طبیعت میں شدیدبے چینی ہوتی ہے۔ اس حالت میں پہنچنے کے بعد اگر فوری مناسب علاج نہ ہو تو ۱۲ سے ۲۴ گھنٹے کے اندر موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔

تشخیص (Investigations)

1۔Platelet Count

2۔NS1 Antigen Test


 
3۔IgM and IgG Test

4۔Tourniquet Test

5۔ELISA Kit (Prepared by National Institute of Virology. Pune) and Commercial Kits

6۔Reverse Transcriptase Polymerase Chain Reaction (RTPCR)

مذکورہ جانچ کے بعد ان کے مثبت ہونے کے ساتھ ہی درج ذیل نتائج ظاہرہوسکتے ہیں۔

1۔Abnormal Haemostasis

2۔Plasma Leakage

3۔Marked Thrombocytopenia. ( Reduced Blood Count)

علاج
=====
طب یونانی یا طب جدید کسی بھی طریقہ علاج میں اب تک اس کا کوئی موثر علاج دریافت نہیں ہو سکا ہے۔ اس لئے علاماتی (Symptomatic) علاج کیا جاتا ہے۔ مریض کے Vital Signs یعنی نبض، تنفس، درجہ حرارت اور بلڈ پریشرکو معتدل رکھنے کی کوشس کی جائے۔ بخار ۴۰ ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ نہ ہونے پائے۔ اس کے لئے ٹھنڈے پانی کی پٹی کرنے (Sponging) کے ساتھ ہی Paracetamol کا استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن ایسپرین یا بروفین کا استعمال پرگز نہ کریں۔ اس لئے کہ ان کے استعمال سے Gastritis کے ساتھ ہی جریان الدم اور Acidosis کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

حد سے زیادہ پسینہ یا الٹی دست کی صورت میں جبکہDehydration کا خطرہ ہو توORS کے ساتھ I V Fluids اور Electrolytes کا استعمال کرنا چاہئے۔ مگر اس میں بھی احتیاط کے ساتھ ہی Vital Signs پر نظر رکھنا چاہئے۔ اسلئے کہ I V Fluids کی زیادتی سے Acsites اور Oedema ہوسکتا ہے یا پھرPleural Effusion کے ساتھ ہی Pulmonary Congestion بھی ہو سکتا ہے۔

Plasma Leakage یا پھر Thrombocytopenia کی صورت میں مریض Shock میں جاسکتا ہے۔ ایسی صورت میں مریض کو کسی اچھے ہسپتال میں داخل کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے جہاں فوری طور پر Plasma Replacement کیاجاسکے اور شدید جریان الدم کی صورت میںBlood Transfusion کے ساتھ ہی دیگر شدید عوارضات (Complications) سے بھی مریض کو بچایا جا سکے۔

یونانی طریقہ علاج کے مطا بق تشخیص نہ ہونے کی صورت میں نسخہ خلل شکم کا استعمال کریں۔ اگر ڈینگی کی تشخیص ہو جائے تو حمی وبائیہ کے اصول پر علاج کیا جائے۔ یعنی مریض کی قوتوں کی نگرانی کی جائے۔ اعضائے رئیسہ کی تقویت کا خیال رکھا جائے۔ مفرحات و مقویات قلب کا استعمال کیا جائے۔

تسکین حرارت کے لئے اندرونی و بیرونی طور پر مسکنات و مطفیات حرارت ادویہ دی جائیں۔

دفع سمیت کے لئے ادویہ تریاقیہ جیسے مرمکی، زعفران، کافور ، گل نیم، پوست نیم، درونج عقربی، جدوار، زہر مہرہ، اور نارجیل دریاٸی وغیرہ۔
 عضلات اورجوڑوں کے دردکے لئے حسب ضرورت مختلف تکمیدات اور ضمادات کا استعمال کریں۔
صدمہ (Shock ) اورسقوط قوی کی صورت میں اصول علاج کے مطابق مقویات و محرکات کا استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ مریض کو کسی اچھے ہسپتال میں داخل کرا کے اس کافوری مناسب علاج کیا جائے ورنہ خمیرہ اور معجون کے چکر میں انجام یہ ہوگا کہ
’’خاک ہو جائیں گے ہم ان کے اثر ہونے تک‘‘

اس مرض میں Platelets کی تعداد میں انتہائی تیزی سے کمی آتی ہے۔ اس کے لئے بسا اوقاتTransfusion کی بھی ضرورت پیش آتی ہے جو انتہائی مہنگا ثابت ہوتا ہے ………. مختلف تجربات سے Platelets کی تعدادمیں اضافہ اور مریض کی مجموعی حالت میں سدھار کے لئے پپیتہ کے پتوں کا عرق انتہائی مفید ثابت ہوا ہے۔ حالانکہ پپیتہ کے مختلف اجزا کا استعمال مختلف امراض میں زمانہ قدیم سے طب یونانی میں ہوتا رہا ہے لیکن چونکہ ڈینگی کا تذکرہ قدیم یونانی لٹریچر میں موجود ہی نہیں اس لئے اسکے علاج کے تعلق سے بھی یونانی لٹریچر خالی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پپیتہ کے پتوں کے رس کو ڈینگی کے علاج میں کسی حکیم نے اولاً استعمال نہیں کیا بلکہ بیسویں صدی کے اواخر میں پہلی بارانڈیا میں اس کا تجربہ بامبے ہسپتال میں ڈاکٹر ایس بجاج نے کیا۔ ان کے تجربہ کے مطابق ڈینگی کا ایک مریض جس کے خون میں Platelets کی تعدادکم ہو کر ۲۸۰۰۰ ہو گئی اور مریض کوسانس لینے میں دقت محسوس ہونے لگی تھی۔ اس مریض کو ڈاکٹر بجاج نے انگریزی دواوں کے ساتھ دو چمچ پپیتہ کے پتوں کا رس لگاتار تین دن تک استعمال کرایا تو Platelets کی تعدادمیں اضافہ کے ساتھ ہی مریض کا بخار اور سانس کی تکلیف میں کمی کے ساتھ ہی اس کی مجموعی حالت میں بھی کافی سدھار ہوا۔ ڈاکٹر بجاج کے مطابق پپیتہ کے پتے کا وہ حصہ جس میں ڈنٹھل نہ ہو، اس کا رس مریض کو دینا چاہئے اور رس نکالنے میں یہ احتیاط برتی جائے کہ پتوں کو نہ تو ابالاجائے اور نہ ہی اسے گرم پانی میں ڈالا جائے، کیونکہ ایساکرنے سے اس کی تاثیر میںکمی آجاتی ہے۔۔
ڈاکٹر بجاج کے تجربہ کے بعد بہت ساری کمپنیوں نے پپیتہ کے پتوں کا Extract (Carica Papaya Leaves Extract (CPLE))نکال کر اس کے ٹیبلیٹ اورکیپسول بنانا شروع کر دیا۔ جون ۲۰۱۷ء اور مارچ ۲۰۱۸ء کے درمیان، ہاسن انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز، ہاسن، کرناٹک کے جنرل میڈیسن شعبہ میں اس CPLE پر باقاعدہ ریسرچ کی گئی۔ یہ ریسرچ تین ڈاکٹروں، ڈاکٹروینو گوپال کے، ڈاکٹرسریش آر ایم اور ڈاکٹرہلیشابی آر کی ٹیم نے کیا۔ انکی تحقیق کا عنوان تھا ’’Role of Carica Papaya Leaf Extract Tablets / Capsules on platelet Count in Case of Dengue Thrombocytopenia‘‘ اوران کا یہ تحقیقی مقالہ اسی عنوان سے International Journal of Advances in Medicine کے جولائی تا اگست ۲۰۱۸ء کے شمارہ میں شائع ہوا ہے۔
مذکورہ تحقیق میں ڈاکٹروں کی ٹیم نے پانچ سو(۳۸۰ مرد اور ۱۲۰ خواتین)ڈینگی کے ایسے مریضوں کا انتخاب کیاجن میں Platelets کی تعداد ایک لاکھ سے کم تھی۔ اوران کی تشخیص Positive NS1Antigen اور IgM Antibodies کی بنیاد پر کی گئی تھی۔ان مریضوں کو CPLE ٹیبلیٹ اور کیپسول کی صورت میں ۱۱۰۰ ملی گرام کی مقدار میں دن میں تین بار، پانچ روز تک دیاگیا، اور روزآنہ ان مریضوں کے خون کی جانچ کی جاتی رہی۔ ڈاکٹروں کے مطابق پہلے روز تو Platelet کی تعدادمیں کوئی فرق نہیں پڑا لیکن دوسرے روز سے Platelet کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہونے لگا اور لگاتار پانچ روز کے استعمال کے بعد Significant نتائج بر آمد ہوئے۔
مذکورہ تحقیق کے مطابق CPLEدرحقیقت Arachidonate 12-Lypoxygenase (ALOX 12) اور Platelet Activating Factor Receptor (PTAFR) میں اضافہ کرتا ہے ،اور بنیادی طور سے یہی دونوں Platelet کی پیداوار کے ذمہ دار( Responsible )ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ انہیں تحقیق کاروں کے مطابق پپیتہ کے اندر ایک مادہ Acetogenin پایا جاتا ہے جو ملیریا اور ڈینگو جیسے امراض کے علاج میں انتہائی مفیدہو تا ہے۔ مزید برآن یہ WBC کی تعداد میں بھی اضافہ کرتا ہے۔محققین کے مطا بق CPLE نہ صرف Platelet کی تعداد میں اضافہ کرتا ہے بلکہ ڈینگو اور ملیریا کے دیگر عوارضات کو بھی کم کرنے میں انتہائی مفید ثابت ہوتا ہے۔
 اب تک ڈاکٹروں نے پپیتہ کو ڈینگی اورملیریا جیسے امراض میں دو طریقوں سے استعمال کیا ہے ۔اولاً ڈاکٹر بجاج نے تازہ پتوں کا رس نکال کر مریض کو پلایا۔اس کے مثبت اور حیرت انگیز نتائج کے بعدمختلف کمپنیوںنے اس کے ٹیبلیٹ اورکیپسول بنانے شروع کر دئے جن کے مثبت نتائج بھی برآمدہوئے لیکن اب تک تازہ پتوں کے رس کی افادیت زیادہ حیرت انگیز ثابت ہوئی ہے۔راقم السطورنے اپنے مطب میں دونوںصورتوں کاتجربہ کیااوراس نتیجہ پر پہنچا کہ ڈینگو کے مرض میں Platelet کی تعدادمیں جس تیزی سے کمی آتی ہے ۔پپیتہ کے تازہ پتوں کے رس سے زیادہ مفید کوئی بھی دوا نہیں ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا CPLEٹیبلیٹ اورکیپسول میں کچھ اجزا کم یاضائع ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی افادیت کم ہو جاتی ہے۔ یا پھر کہیں ایسا تو نہیں کہ کمپنیاں زیادہ منافع کے چکر میں اس کے معیار پر دھیان نہیںدیتیں۔ ان تمام پہلووں پرغور کرنے اور ان پر مزید تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسرااہم پہلوCPLE کی قیمت کا ہے جو انتہائی زیادہ، اور غریب مریضوں کی پہنچ سے دور ہے جبکہ پپیتہ کے پتے بآسانی اورمفت ہر جگہ دستیاب ہونے کے ساتھ ہی زیادہ مفیدثابت ہوتے ہیں۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ CPLEٹیبلیٹ یاکیپسول کے بجائے مریض کو تازہ پتوں کا رس ہی استعمال کرایا جائے۔
اس میںکوئی شک نہیں کہ پپیتہ کے پتوں کا رس Plateletکی تعداد کو بڑھانے ،ڈینگو اورملیریا کے ساتھ ہی دیگر وائرل ااور بیکٹیرئیل انفیکشن کو ختم کرنے میں انتہائی مفید ثابت ہوتا ہے ۔ساری دنیا کے ڈاکٹر اس پر مزید ریسرچ و تحقیق میں لگے ہوئے ہیں اور دواساز کمپنیاں اس کے ٹیبلیٹ اور کیپسول بنانے اور بازار میں اپنی ساکھ بنانے میں مصروف ہیں لیکن افسوس کی طب یونانی کے لوگ آج بھی ’’پدرم سلطان بود ‘‘کی خوش فہمی میں مست ہیں۔ طب یونانی کے کسی بھی فردیا ادارے نے آج تک اس پر کوئی کام نہیں کیا۔حالانکہ
’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیزہے ساقی ‘‘
حفظ ما تقدم:۔کسی بھی طریقہ علاج میں اب تک کوئی ایسا ٹیکہ (Vaccine) یا دوا ایجاد نہیں ہو سکی ہے جو اس مرض سے تحفظ فراہم کر سکے ۔اس لئے صرف علاماتی علاج (Symptomatic Treatment) کیاجاتاہے۔
ڈینگو یاکسی بھی وبائی بیماری سے بچائوکے لئے حفظ ماتقدم کی تدابیر کواپناناہی عقلمندی ہے۔اس کے لئے ذاتی حفظان صحت پر دھیان دینے کے ساتھ ہی گھروں کے اندروباہر صاف صفائی پر خاص دھیان دینا چاہئے ۔ملیریا اورڈینگو جیسی بیماریوں سے تحفظ کے لئے سب سے پہلے گھروں کے اندر و باہر مچھروں کا خاتمہ کیاجائے۔ کولروں، گملوں اور نالیوں وغیرہ میں پانی جمع نہ ہونے دیںاس لئے کہ ڈینگوکے مچھر رکے ہوئے پانی میں ہی زیادہ نشو و نما پاتے ہیں۔ان مچھروں کے خاتمہ کے لئے گھروں کے آس پاس نالیوں میں کیروسین تیل کا چھڑکائوکریں ۔اس سے ان مچھروں کے لاروا اور انڈے ختم ہو جاتے ہیں۔ گھروں میںلوبان، نیم یاکافور جلا کر بہت حد خود کو ان مچھروں سے بچایا جا سکتا ہے۔اسی طرح آرگینو فاسفورس کمپاونڈ ان مچھروں کے لاروا کو ختم کرنے میں انتہائی کار گر ہوتے ہیں۔اسی طرح ڈی ڈی ٹی وغیرہ کا چھڑکائو کریں۔
ندیوں اورتالاب وغیرہ میں ان مچھلیوں کا استعمال کریں جو ان مچھروں اور ان کے لاروا کو کھا جاتی ہیں۔چنانچہ ویت نام اور آسٹریلیا جیسے ممالک نے اپنی نہروں اور تالابوں وغیرہ میںان مچھروں کے خاتمہ کے لئے Mesocyclop نامی مچھلی کی افزائش کی حکمت عملی تیار کی ہے ۔اس لئے کہ یہی مچھر ان مچھلیوں کی مرغوب ترین غذاء ہے۔اس طرح ان ملکوں نے دشمن کے دشمن کو اپنا دوست بنا کر ان مچھروں سے نجات حاصل کرنے کی کامیاب کوشس کی ہے اورتجربات کے مطابق جہاں جہاںان مچھروں کے مقابلے میں ان مچھلیوں کو میدان میں اتارا گیا ہے،وہاں ان مچھروں کی ۹۵ فیصدآبادی نیست و نابودہو گئی ہے۔ اسی طرح ترقی یافتہ ممالک میں Radiation کے ذریعہ نر (Male) مچھروں کی تولیدی صلاحیت کو ختم کر دیا جاتا ہے جس سے ان کی مزیدافزائش نہیں ہو پاتی ہے۔اس کو Sterile Male Technique کہاجاتا ہے۔
مذکورہ ٹیکنیک اورتجربات کو ہندوستان میں بھی آزمایا جا سکتا ہے اور ہزاروں لوگوں کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔مگر یہ کام حکومت اوراس کے کارندوں نیز انتظامیہ کا ہے اور انہیں یہ کام بہر صورت کرنا چاہئے۔
رات میں سوتے وقت مچھردانی کا استعمال کریں اور اپنے پورے جسم کو ملبوس رکھنے کی کوشس کریں۔
کھانے میں کھٹی چیزوں مثلاً املی، سرکہ ،لیموں،انناس، آلو بخاراوغیرہ کا استعمال بڑھا دیں۔ثقیل غذائوں سے پرہیزکریں اور قبض نہ ہونے دیں۔
تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود اگر ڈینگو کا شکار ہو جائیں تو از خود علاج کرنے کے بجائے کسی مستندڈاکٹر یا سرکاری اسپتال سے رجوع کریں۔ اس لئے کہ خود علاجی (Self Medication) جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر فیاض احمد علیگ ۔۔سراٸمیر ..اعظم گڑھ۔۔
موباٸل۔۔۔9415940108.