Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, November 4, 2019

”جہاں نما کی سیر“ ۔۔۔۔۔۔۔قسط ششم (6)...مبارک پور ( اعظم گڑھ) کا سفر۔

فضیل احمد ناصری /صداٸے وقت۔
========(==============
*مبارک پور کو روانگی*
-----=----------------------

مفتی یاسر صاحب کی تجویز اس معنیٰ کر زیادہ پسند آئی کہ اس میں وقت کی اچھی خاصی بچت تھی، اس لیے میں نے بھی ٹرین سے ہی جانے کا فیصلہ کر لیا۔ رات سوتے سوتے تین بج گئے۔ صبح ساڑھے پانچ بجے آنکھ کھلی۔ نماز ادا کی اور مبارک پور کے لیے روانہ ہو گیا۔ چھاؤں کے رہائشی ایک طالب علم محمد ارقم سلمہ نے موٹر سائیکل کے ذریعے سرائے میر ریلوے اسٹیشن پہونچایا۔ 6:51 کی ٹرین تھی، وہ سات بجے کے بعد آئی۔ اسٹیشن پر شلوار اور کرتے والوں کا ہجوم تھا۔ یہ سب بیت العلوم کے اجلاس سے واپس ہو رہے تھے۔ میں ریل پر سوار ہوا۔ بھیڑ بہت زیادہ تھی۔ نشست کا کوئی امکان نہیں تھا۔ میں دروازے کے قریب ہی کھڑا ہو گیا۔ سفر کے ساتھ پاسبان میں تاک جھانک بھی چل رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ بانئ پاسبان مولانا شفیق احمد قاسمی اور ترجمان صاحب زید مجدہما کی طرف سے میرے لیے خیرمقدمی کلمات تھے۔ کھڑے کھڑے ریل کا سفر آسان نہیں ہوتا، مگر منزل بہت نزدیک تھی، پھر جذباتی بھی، اس لیے مجھ پر کوئی بار نہیں پڑا، بلکہ سچ کہوں تو اس قیامی سفر میں مجھے خاص قسم کا سرور ملا۔ میں آنے والے ہر اسٹیشن کو اشتیاق سے دیکھتا، کیوں کہ اس روٹ پر کبھی چلا نہیں تھا۔ پہلا اسٹیشن سنجر پور تھا، اس کے بعد *پھریہا* آیا۔ میں اسے *فریہا* لکھتا ہوں، شاید یہ *فریحہ* کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ یہ ایک بڑا گاؤں ہے ۔ اس کا نام سارے اعظمیوں نے سنا ہو یا نہ سنا ہو، مگر غیر اعظمیوں نے شاید ہی سنا ہوگا، ہاں اس کے ایک رہائشی کا نام تو سارے اہلِ علم جانتے ہیں۔ یہ مولانا حمید الدین فراہی ہیں، جو علامہ شبلی نعمانیؒ کے حقیقی ماموں زاد بھائی تھے۔ یہ 1863 میں پیدائش ہوئے، سنِ وفات 1930 ہے۔ موصوف اسی گاؤں کی طرف نسبت کر کے اپنے نام کے ساتھ *فراہی* لکھتے تھے۔ مولانا مرحوم نے تفسیرِ قرآن میں کافی نام پیدا کیا۔ ان کے معتقدین قرآن کی تعبیرِ جدید کا انہیں بانی بھی کہتے ہیں۔27 مشہور کتابیں بھی انہوں نے تصنیف کیں، جن میں سے بیش تر تفسیر ہی سے متعلق ہیں۔

*ایک لطیفہ*
------------------
فراہی پر یاد آیا۔ گجرات میں میرے ایک دوست اپنے نام کے ساتھ *اسدی* لکھتے تھے۔ میں نے وجہِ انتساب پوچھی تو کہنے لگے: میرا قبیلہ *واگھ* کہلاتا ہے، واگھ کو ہندی میں *باگھ* کہتے ہیں، جس کی اردو *شیر* ہے۔ شیر کو عربی میں *اسد* کہتے ہیں، اس لیے میں *اسدی* لکھتا ہوں۔ یہ قصہ تو گجرات کا ہے۔ یہی صورتِ حال اب اعظم گڑھ میں بھی چل پڑی ہے۔ *چھاؤں* والوں نے عربی میں ڈھال کر پہلے اسے *ظل* کیا اور پھر *ظلی* ہو گئے۔ بلریا گنج والوں نے *بلار* کو عربیا کر *ھرۃ* کیا اور *ہریروی* کہلانے لگے۔ اہلِ *پھول پور* نے اپنی نسبت *زہری* کر لی۔ اساڑھ کے مہینے میں بارش ہوتی ہے، *بارش* کو عربی میں *مطر* کہتے ہیں، اس مناسبت سے *اساڑھا* والے *مطری* ہو گئے۔ ایک گاؤں والے خود کو *مستقیمی* لکھتے ہیں، آپ جانتے ہیں کہ ان کی اصل کیا ہے؟ جی ہاں! *سیدھا* ۔ کچھ لوگ اپنی نسبت میں *ذھبی* لکھتے ہیں۔ ان کے گاؤں کا نام *سنوارا* ہے، جسے تعلیل کر کے پہلے *سنہرا* کیا گیا اور پھر ذھبی۔ نسبت کا یہ لغوی انحراف مولانا حمید الدین فراہی کے موئے قلم کا ثمرہ ہے۔

*مفتی یاسر صاحب سے ملاقات*

فریہا کے بعد سرائے رانی، پھر اعظم گڑھ اور اس کے بعد میرا پڑاؤ *سٹھیاؤں* آ گیا۔ مفتی صاحب سے رابطہ مسلسل تھا۔ ہر دو تین منٹ پر ان سے نقوشی باتیں ہو رہی تھیں۔ سٹھیاؤں اترا تو اس کے بیرونی حصے میں نصب کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ کر موبائل پر کچھ لکھنے لگا۔ میری گردن ابھی جھکی ہی تھی کہ سلام کی ایک دل پذیر آواز میری سماعت سے ٹکرائی۔ میں نے جواب دیتے ہوئے گردن اٹھائی تو دیکھا کہ مفتی صاحب میرے سامنے ہیں۔ جنم کے بچھڑے دوستوں کی طرح مصافحہ اور معانقہ ہوا۔ مفتی صاحب کو اس سے قبل میں نے دیکھا نہیں تھا۔ اب تک فقط ان کی تحریریں ہی میرے سامنے تھیں۔ میرے ذہن میں ان کا جو خاکہ تھا وہ یہ تھا کہ موصوف پست قامت اکہرے بدن کے مالک ہوں گے۔ چہرہ چھوٹا اور داڑھی کم ہوگی، مگر ماشاءاللہ وہ تو وجاہت کی تصویر نکلے۔ میرے ہی جیسا قد۔ توانا جسم۔ منور اور مدور چہرہ۔ خوب صورت داڑھی۔ سادگی کا مجسمہ۔ مل کر جس قدر خوشی ہوئی، میں بیان نہیں کر سکتا۔ مجھ ایسے بے مایہ کی ایسی قدر افزائی!! ابتدائی گفتگو کے بعد میں ان کی گاڑی پر بیٹھ گیا۔

مفتی صاحب راسخ فی العلم عالم ہیں۔ متصلب دیوبندی اور غیر متزلزل حنفی ہیں۔ انحرافِ مسلک ان کی لغت میں کہیں بھی موجود نہیں ۔ ہر سچے دیوبندی کی طرح اکابر کے پیرو ہیں۔ 2002 میں دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوئے۔ تکمیلِ ادب کے بعد یہیں سے افتا بھی کیا۔ دو سال مطالعۂ شامی میں بھی رہے۔ دارالعلوم میں ان کا قیام سات برسوں پر مشتمل رہا۔ عمر اس وقت 37 سال ہے۔ سنِ ولادت 1982 ہے۔

[اگلی قسط میں پڑھیں: خیر آباد کا رخ]