*بانگِ کہن، سلسلہ 66*
✏ فضیل احمد ناصری /صداٸے وقت
===============(=========
ظلمت سے جنگ کے کوئی قابل نہیں رہا
تارے ہیں سیکڑوں ، مہِ کامل نہیں رہا
جو بت شکن تھےاب وہی بت ساز ہو گئے
نمرودیوں کا کوئی مقابل نہیں رہا
ہر شخص ہے خیال کا دفتر لیے ہوئے
لیکن کوئی محاذ میں شامل نہیں رہا
سب پڑھ پڑھا کےصاحبِ دستار ہو چکے
ہندوستاں میں اب کوئی جاہل نہیں رہا
گلشن اداس ، پھول ، شگوفے اداس ہیں
اس بات پر کہ شورِ عنادل نہیں رہا
دل ہے وہی، جو جلوہ گہِ ذاتِ نور ہو
جس دل میں کفر آ گیا وہ دل نہیں رہا
بے نورِ معرفت ہی گزرتی ہے زندگی
جیتے ہیں لوگ، زیست کا حاصل نہیں رہا
ساحل قریب تھا تو رہے مستیوں میں گم
غفلت ہوئی تمام تو ساحل نہیں رہا
فطرت نے رکھ دیا ہے تصلب خمیر میں
باطل کی سمت میں کبھی مائل نہیں رہا
✏ فضیل احمد ناصری /صداٸے وقت
===============(=========
ظلمت سے جنگ کے کوئی قابل نہیں رہا
تارے ہیں سیکڑوں ، مہِ کامل نہیں رہا
جو بت شکن تھےاب وہی بت ساز ہو گئے
نمرودیوں کا کوئی مقابل نہیں رہا
ہر شخص ہے خیال کا دفتر لیے ہوئے
لیکن کوئی محاذ میں شامل نہیں رہا
سب پڑھ پڑھا کےصاحبِ دستار ہو چکے
ہندوستاں میں اب کوئی جاہل نہیں رہا
گلشن اداس ، پھول ، شگوفے اداس ہیں
اس بات پر کہ شورِ عنادل نہیں رہا
دل ہے وہی، جو جلوہ گہِ ذاتِ نور ہو
جس دل میں کفر آ گیا وہ دل نہیں رہا
بے نورِ معرفت ہی گزرتی ہے زندگی
جیتے ہیں لوگ، زیست کا حاصل نہیں رہا
ساحل قریب تھا تو رہے مستیوں میں گم
غفلت ہوئی تمام تو ساحل نہیں رہا
فطرت نے رکھ دیا ہے تصلب خمیر میں
باطل کی سمت میں کبھی مائل نہیں رہا