=============================
*شدید بیماری کے عالم میں ھم وقتی طور پر بیماری کو دبانے کی دوا تو کرتے ہیں لیکن اسکا دائمی علاج نہیں کرتے ، یہی وجہ ہے کہ آزاد بھارت کی پوری تاریخ میں ھم مسلمانانِ ہند ہر مسئلہ میں تقریباً ایک ہی جیسی بحرانی کیفیت سے دوچار ہیں ، ذرا سی راحت ملی ، پھر خوشیوں کے جشن منانے میں مشغول ، بیماری کو نظر انداز کرکے علاج سے غافل ہو جاتے ہیں ، شادیاں اور شادیوں کی سالگرہ جنم دن مرن دن وغیرہ سب یاد رہتے ہیں اور دھوم دھام سے منائے جاتے ہیں ، ہمیں اگر یاد نہیں تو اپنے نبی کا مشن یاد نہیں ، اپنی عظمت رفتہ کا بھولا ہوا سبق ہی یاد نہیں ، یا پھر اسے دوسروں کی ذمہ داری سمجھ کر ہم خود یاد کرنا ہی نہیں چاہتے ، آج اس ملک کے تیس کروڑ مسلمانوں میں حضرت شیخ الھند رحمۃ اللّٰہ علیہ کی درد میں گھلنے والی وراثت کا بار اٹھانے والا کوئی کھڑا کیوں نہیں ہوتا ؟ شاہ عبدالرحیم رائے پوری کے قرآنی روحانی میخانے کے رند کہاں چلے گئے ؟ سر سید کی ھمدردئ مسلم کے غم کو اوڑھنے والا کوئی غمخوار کیوں نہیں اٹھتا ؟ اور علامہ اقبال کی فکر بیدارئ ملت بیضا کے امین کہاں گم ہوگئے اور کیوں ؟۔ دل سوز سے خالی ہے نگہ پاک نہیں ہے = پھر اس میں عجب کیا کہ تو بے باک نہیں ہے = ھے ذوقِ تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں = غافل! تو نرا صاحب ادراک نہیں ہے = کیا صوفی و ملا کو خبر میرے جنوں کی = ان کا سر دامن بھی ابھی چاک نہیں ھے = من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں =۔ تن کی دولت چھاؤں ہے آتا ہے دھن جاتا ہے دھن = اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی =۔ تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن = عبدالرحمن عابد دہلی !!!*