Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, November 19, 2019

بابری مسجد معاملہ ::ایک پریشان کن فیصلہ جو دِقت طلب اور حیران کن بھی ہے......مادھو گوڈ بولے۔

تحریر: مادھو گوڈ بولے (سابق مرکزی ہوم سکریٹری) ========== ترجمہ : عبدالعزیز
صداٸے وقت /نیا سویرا لاٸیو ۔
==============================
مسٹر مادھو گوڈ بولے سابق مرکزی ہوم سکریٹری تھے کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ بابری مسجد پر ان کی کتاب “The Babri masjid Ram mandir Dilema: An Acid Test for India” (بابری مسجد رام مندر مخمصہ- ہندستان کیلئے سخت اور نتیجہ خیز آزمائش) بہت مشہور ہے۔ کتاب میں حقیقت پسندی سے کام لیا گیا ہے۔ پیش نظر مضمون آج (19 نومبر 2019ئ) کے انگریزی روزنامہ ’دی انڈین ایکسپریس‘ میں شائع ہوا ہے۔ مادھو جی رقمطراز ہیں: 
ہندستان کی سپریم کورٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا کی پاور فل (بااختیار اور طاقتور) عدالتوں میں سے ایک ہے۔ اس کے فیصلے دستور ہند کے قانوناً حصے قرار پاتے ہیں۔ پارلیمنٹ کا اسے تیسرا چیمبر بھی کہا جاتا ہے کیونکہ ہر فیصلہ قانون کا درجہ حاصل کرلیتا ہے۔ لہٰذا اجودھیا فیصلہ کو اسی روشنی میں جانچنا پرکھنا چاہئے۔ اس کے بانیوں نے دستور کو جدت پسندی اور روشن خیالی آراستہ و پیراستہ کیا ہے جو نہ صرف ایک قانونی دستاویز ہے بلکہ سماجی او اقتصاری تبدیلی کا ضامن ہے۔ اس کے بنیادی حقوق سے سیکولرزم کے اصول و ضوابط کی پوری جھلک نظر آتی ہے، مگر اس کے بہت سے ایسے حصے ہیں جس کی تبدیلی سے اصول اور حقیقت میں نمایاں فرق معلوم ہوتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ دستور ساز کمیٹی لفظ سیکولر کی تعریف پر اتفاق کرنے میں ناکام رہی جس کی وجہ سے دستور کو سیکولر لکھنے یا کہنے پر اتفاق نہیں ہوسکا۔
ایمرجنسی کے دوران 1976ءمیں دستور میں 42ویں ترمیم کی گئی اور اس کی تمہید میں لفظ سیکولرزم جوڑ دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے بعد میں تمہید کو دستور کا بنیادی ڈھانچہ قرار دیا۔ جب بھی سیکولرزم پر کوئی خطرہ لاحق ہوگا کورٹ کا یہ فیصلہ اس کے تحفظ و سلامتی کیلئے کافی ہوگا۔ سپریم کورٹ نے سیکولرزم کو اس وقت مزید تقویت پہنچائی جب ملک میں حکمرانی کے حوالے سے کئی مقدمات میں فیصلے کئے۔ خاص طور پر دستور ہند کی دفعہ 356 کے سلسلے میں جو فیصلے کئے گئے اس کی وجہ سے بعد میں آنے والی حکومتوں کیلئے دفعہ 356کے غلط استعمال میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوئی۔ بابری مسجد کے انہدام کے بعد 1993ءمیں بومئی کیس میں جو فیصلہ ہوا اس کے تحت بی جے پی کی ماتحت حکومتیں ہماچل پردیش ،مدھیہ پردیش اور راجستھان میں برخاست کر دی گئیں اور اسے سیکولرزم کی روشنی میں غور و خوض کیا گیا اور اس کی برخاستگی کو قانوناً صحیح قرار دیا گیا۔ کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ”اسٹیٹ کے معاملے میں مذہب کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی سیاسی پارٹی بیک وقت مذہبی پارٹی ہوسکتی ہے۔ سیاست اور مذہب کو ملایا نہیں جاسکتا۔ کوئی بھی ریاستی حکومت جو غیر سیکولر سیاست یا غیر سیکولر عمل کرے گی وہ دستور کے منافی قرار دی جائے گی اور دفعہ 356 کے تحت اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی“۔ 
سیکولرزم کو بحال رکھنے اور اسے مضبوط کرنے کے اس پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو سپریم کورٹ کا اجودھیا معاملے میں فیصلہ انتہائی پریشان کن ہے۔ اس پر سوالات کئے جاسکتے ہیں کہ کیا اس سے ملک میں سیکولرزم کو تقویت حاصل ہوگی؟ اس سے کیا سیکولرزم کو استحکام حاصل ہوگا؟ خاص طور پر اس وقت بہت زیادہ اہم ہے جبکہ اکثریتی عقیدے کو چند سالوں سے بڑھاوادیا جا رہا ہے ۔ 
فیصلے میں کورٹ نے کہا ہے کہ ”22دسمبر 1949ءکو بابری مسجد کے اندر رام للا مورتی رکھنا غلط تھا“۔ کورٹ نے یہ بھی لکھا ہے کہ ”6 دسمبر 1992ءکو مسجد کا انہدام غیر قانونی تھا“۔ یہ دونوں عمل سیکولرزم کو پامال کرتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سیکولرزم کا منفی پہلو ہے۔ مسلمانوں کو مسجد کی تعمیر کیلئے کورٹ نے پانچ ایکڑ زمین تبادلے میں تلافی کیلئے جو دینے کا فیصلہ کیا ہے کیا یہ صحیح ہے؟ نفسیاتی طور پر ان کی عبادت کی جگہ کو تباہ کرنے سے کیا انھیں شدید چوٹ نہیں پہنچی ہے؟ کورٹ کو تو کم سے کم مرکزی حکومت کو یہ ہدایت دیناچاہئے تھاکہ مسجد جس جگہ گرائے گئی تھی اسی جگہ پر تعمیر کی جائے۔ نرسمہا راو¿ وزیر اعظم تھے جب مسجد کا انہدام ہوا تھا، انھوں نے پارلیمنٹ میں ”اعلان کیا تھا کہ مسجد اس جگہ پر تعمیر کی جائے گی جہاں گرائی گئی ہے۔ بعد میں انھوں نے یہ کہاکہ وہ اپنے بیان اور وعدے پر قائم ہیں اور اسے پورا کرنا چاہتے ہیں۔ حالیہ چند سالوں میں فرقہ وارانہ فساد میں بہت سے چرچ کو تباہ کیا گیا ۔ میں نے اس سلسلے میں وکالت کی کہ ایسا قانون بنایا جائے کہ جب بھی کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ کو نقصان پہنچایا جائے یا تباہ و برباد کیا جائے تو حکومت اس کی مرمت کرے یا تعمیر کرے۔ صرف اسی طرح سے ہی سیکولرزم کو باقی رکھا جاسکتا ہے اور اقلیتوں میں تحفظ کا احساس اور دستور اور حکومتوں پر بھروسہ ہوسکتا ہے“۔
خاص طور پر پانچ ججوں والی بنچ کا اتفاق رائے سے اجودھیا مقدمہ میں فیصلہ انتہائی پریشان کن ہے۔ کیا اس فیصلے سے سیکولرزم کو محدودد نہیں کر دیا گیا ہے؟ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے تو یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ اکثریتی فرقہ قانون اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے اور اقلیت کی کسی بھی عبادت گاہ کو جب چاہے تباہ و برباد کرسکتا ہے۔ اور اسے انعام کے طور پر جگہ مندر بنانے کیلئے سپرد کی جاسکتی ہے۔ یہ انتہائی پریشان کرنے والی چیز ہے۔ کیا اس سے اقلیتی فرقہ متاثر نہیں ہوگا؟ اور مستقبل میں اس کو خطرہ درپیش نہیں ہوگا اور عدم تحفظ کا شکار نہیں ہوگا؟ 
کسی بھی مہذب ملک میں اکثریتی فرقہ کو خاص طور پر یہ ذمہ داری لینی چاہئے کہ وہ اقلیتی فرقے کا تحفظ کرے گا۔ بابری مسجد کے انہدام کے بعد دسمبر 1992ءاور جنوری 1993ءمیں بمبئی میں فسادات ہوئے تھے۔گجرات میں 2002ءمیں اسی کے نتیجے میں فساد برپا کیا گیا تھا۔ اسی کی وجہ سے اقلیتوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوا اور Ghetto (اقلیتی محلہ) کا اضافہ ہوتا رہا اور شناختی سیاست کرنے والی طاقتوں کو طاقت اور حوصلہ ملتا رہا۔ 
مرکز اور ریاستوں میں اختیارات کی تقسیم سے یہ سارے معاملات ریاستی حکومت کے دائرے میں آتے ہیں، لیکن اس کو قومی پالیسی بناکر بڑے پیمانے پر حل کرنا چاہئے اور یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب اس کیلئے قانون سازی کی جائے اور سرکاری اداروں کی تشکیل کی جائے۔ یہ دستوری طور پر انٹر اسٹیٹ کونسل کا دستوری فورم ہو جس میں وزیر اعظم، متعلقہ مرکزی وزراءاور ریاستی وزرائے اعلیٰ شامل ہوں۔ ان کمزوریوں کے باوجود تمام فریقین کو اس عرصہ دراز تنازعے کے فیصلے کو ختم کرنے کیلئے ضرور ماننا پڑے گا، لیکن فیصلے کی مضمرات پر برسوں بحث جاری رہے گی۔ اس سے بھلا کیسے ملک کی سلامتی اور استحکام قائم رہے گا اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن و سلامتی کو تقویت ملے گی؟ 
تبصرہ: مضمون نگار آئی اے ایس افسر تھے ۔ ہوم سکریٹری کے عہدے پر فائز تھے۔ ملک کے حالات سے پورے طور پر واقف تھے۔ ریٹائرمنٹ کی مدت پوری ہونے سے 17 مہینے پہلے بعض وجوہ سے اپنے عہدے سے 1993ءمیںمستعفی ہوگئے۔ اس وقت بابری مسجد کے انہدام کا بڑا چرچا تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے ایک بیان میں کہا تھا کہ بابری مسجد میں شرپسندوں کے رام للا کی مورتی رکھنے کے بعد فیض آباد کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ مسٹر نائر نے غیر قانونی طور پر مسجد کے دروازے پر تالا لگا دیا اور نماز پڑھنے سے نمازیوں کو منع کردیا۔یہ نائر سب سے بڑا کارسیوک ثابت ہوا۔ اور اس کے بعد راجیو گاندھی نے مسجد کا دروازہ کھلوایا، مسجد کے قریب شیلانیاس کرایا اور وہیں اپنی انتخابی مہم کے افتتاحی جلسے کا انعقاد کیا۔ اس کی وجہ سے وہ دوسرے سب سے نمایاں کارسیوک ثابت ہوئے۔ مسٹر مادھو گوڈبولے نے ایک بیان میں مزید کہا ہے کہ ”راجیو گاندھی، چندر شیکھر، وی پی سنگھ اور پی وی نرسمہا راو¿ کو اپنے اپنے زمانے میں بابری مسجد کے مسئلے کو حل کرنے کے بہت سے مواقع ہاتھ آئے، لیکن میں نے دیکھا کہ ”جس توجہ اور سنجیدگی سے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تھی کسی نے اس طرح نہیں کی۔ دوسری سب سے بڑی وجہ تھی کہ ایڈوانی اینڈ کمپنی نے مسئلے کو حل کرنے میں بار بار یہ کہہ کر رکاوٹ ڈالی کہ مندر وہیں بنے گا جہاں بابری مسجد کی عمارت ہے یا تھی۔ اور دوسری جگہ نہیں بنے گا۔ انہی وجوہ سے تنازعہ ختم نہیں ہوا۔ اور اب ایک ایسا فیصلہ آگیا ہے جسے مجبوراً مسلمان تسلیم کرلیں گے لیکن ان کے دل کا زخم اس وقت تک مندمل نہیں ہوگا جب تک کہ ان کو انصاف نہیں ملے گا“۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انصاف ہی امن و سلامتی کا ضامن ہوتا ہے۔