Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, November 10, 2019

کرتار پور۔۔کرتار پور کیسے بنا ۔۔۔ایک تاریخی تحریر۔


وسعت اللہ خان /صداٸے وقت۔
========================
ایک اونکار (خدا ایک ہے)، گناہ سے بچنا ہے تو دنیا میں ایسے رہو جیسے کنول پانی پر کھلنے کے باوجود خشک رہتا ہے جیسے بطخ پانی پر تیرتی ہے مگر پر گیلے نہیں ہوتے۔ اگر میں یہ نہ کہوں کہ یہ گرونانک کی تعلیم ہے تو ایسا لگے گا گویا کوئی مسلمان صوفی بول رہا ہے۔
یا یہ روایت کہ جب گرونانک اپنے مسلمان ساتھی اور رباب نواز بھائی مردانہ کے ساتھ حجاز پہنچے تو ایسے آنکھ لگ گئی کہ پیر کعبے کی جانب تھے۔ ایک شخص نے نانک کو جھنجھوڑ کر اٹھاتے ہوئے کہا تمہارے پیر کس طرف اٹھے ہوئے ہیں کیا تمہیں تمیز نہیں ؟ نانک نے کہا تو پھر میرے پیر ایسی سمت رکھ دے جہاں خدا نہ ہو۔
حجازسے بھائی مردانہ اور نانک بغداد پہنچے۔ چار ماہ قیام کیا۔ اس دوران بھائی مردانہ کا انتقال ہو گیا۔ ان کی قبر اور نانک کا ڈیرہ بغداد کے پرانے ریلوے اسٹیشن کی بغل میں ہے۔
گرونانک اپنی زندگی کے بیس سے پچیس برس حالتِ سفر میں رہے اور سچائی کی تلاش میں کہاں کہاں نہ پہنچے۔ ملتان، پاک پتن، لاہور، پشاور، گورکھ ناتھ، کیلاش، جموں و کشمیر، لداخ، دلی، بنارس، اڑیسہ، سکم، نیپال، تبت، آسام، لنکا۔ پیدا تو وہ تلونڈیِ (ننکانہ صاحب) میں ہوئے مگر زیادہ وقت کرتار پور میں گذارا۔ ان کے پانچ سفر بہت مشہور ہیں اور ہر بار وہ کرتار پور ہی لوٹے۔
روایت ہے کہ یہ زمین کروڑی نام کے رئیس کی تھی جو مغلوں کا منصب دار بھی تھا۔ وہ نابینا ہو گیا۔ گرو کی دعا سے اس کی بینائی بحال ہو گئی۔ اظہارِ تشکر میں کروڑی نے یہ زمین گرو کو دان کر دی۔ مفلوک الحال ہندو مسلمان یہاں کا سن سن کر آنے لگے۔ کچھ آباد ہو گئے۔ تب تک سکھ مذہب کی باقاعدہ تدوین نہیں ہوئی تھی۔
نانک جہاں عبادت کرتے تھے اسے دھرم شالہ ہی کہا جاتا تھا۔ ان کی وفات بھی یہیں کرتار پور میں پندرہ سو اڑتیس عیسوی میں ہوئی۔ ایک قبر اور ایک سمادھی بنائی گئی۔ بعد ازاں جب یہاں گرنتھ صاحب لا کر رکھی گئی تب اس دھرم شالہ کو گوردوارہ کہا جانے لگا۔ گویا یہ نانک پنتھیوں کا پہلا گوردوارہ تھا۔
اسی کرتار پور میں جو لوگ نانک سے متاثر ہو کر آباد ہوئے ان میں نانک کی مرکزی شخصیت کے طفیل بھائی چارہ بڑھا۔ یوں پہلی غیر رسمی سکھ برادری کی بنیاد پڑی۔ گرو نے اس برادری کو تین اصول عطاکیے۔ کام، عبادت اور سخاوت۔
یہی بغرضِ عبادت کیرتن یعنی منظوم مناجات کی گائیکی اور لنگر کا رواج پڑا۔ لنگر ہر ذات رنگ و نسل کے لوگوں کے لیے کھلا تھا۔ کسی کی رکابی اور آب خورہ الگ نہیں تھا۔ اس مشق سے سیوا یعنی رضاکارانہ کام کا تصور پیدا ہوا۔ آپ دنیا کے کسی گوردوارے میں چلے جائیں آپ کو کیرتن اور لنگر ساتھ ساتھ ملے گا۔ یعنی عبادت اور سخاوت۔
اب رہ گیا کام۔ گرونانک کرتارپور میں خود کاشتکاری کرتے تھے۔ یعنی کام کر کے روزی کمانا سکھ مذہب کا جزو ِ اعظم ہے۔ اسی لیے آپ کو دنیا میں سکھ بھکاری شاید ہی کہیں ملے۔
اب رہی گرنتھ صاحب۔ تو اس میں پانچ ہزار آٹھ سو چورانوے منظوم مناجات ہیں۔ ان میں بھگت کبیر کے دو سو بانوے دوہے اور بابا فرید گنج شکر کی ایک سو چونتیس مناجات بھی شامل ہیں۔
یہ تو آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ جب پانچویں گرو ارجن سنگھ نے گرنتھ صاحب اور مذہبی قواعد و ضوابط کو باقاعدہ منظم و مرتب کرنے کا بیڑہ اٹھایا تو پھر انھوں نے امرتسر میں ہرمیندر صاحب (گولڈن ٹمپل)کاسنگِ بنیاد رکھا۔ مگر یہ سنگ ِ بنیاد خود نہیں رکھا حضرت میاں میر سے رکھوایا۔
انھی گرو ارجن سنگھ کو جہانگیر نے سولہ سو چھ میں قید کر کے اذیت دے کر ہلاک کیا۔ کیونکہ جہانگیر کے کان بھر دیے گئے کہ سکھ مغلوںکے عسکری حریف اور ان کا مذہب اسلام کی ترویج کے لیے خطرہ ہے۔ گرو ارجن سنگھ کی پرتشدد موت کے بعد ان کے بیٹے گوبند سنگھ چھٹے گرو مقرر ہوئے اور انھوں نے باپ کی موت کے ردِ عمل میں مغلوں کے خلاف مسلح جدوجہد کو جزوِ ایمان قرار دیا اور پھر سکھ مزاحمت موقع کی مناسبت سے ڈوبتی ابھرتی رہی۔
اورنگ زیب نے سولہ سو چھہتر میں نویں گرو تیج بہادر سنگھ کو قید کر کے قتل کروایا۔ جب مغل سلطنت بالکل ہی زوال آمادہ ہو گئی تو سترہ سو ننانوے میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے لاہور پر قبضہ کر کے پہلی اور آخری سکھ سلطنت کی بنیاد رکھی۔ مگر چالیس برس بعد رنجیت سنگھ کی وفات ہوتے ہی ورثا لڑ پڑے اور تاریخ میں پنجاب کی پہلی خودمختار سلطنت انگریزوں کے قبضے میں آ گئی۔ انگریزوں نے سکھوں کو دبانے کے بجائے انھیں مذہبی آزادی دی۔ ان کی عسکری صلاحیت سے فائدہ اٹھایا۔ اور پھر پھوٹو ہار کے مسلمانوں اور وسطیٰ و مشرقی پنجاب کے سکھوں نے برطانوی ہند کے بازوِ شمشیر زن کا کام کیا۔
سوال یہ ہے کہ جب سکھ بھی وحدانیت کے قائل ہیں اور گرو نانک سے لے کر دسویں گروہ گوبند سنگھ تک پنجاب کے مقامی مسلمانوں اور سکھوں میں کوئی مذہبی کشیدگی نہیں تھی تو پھر انیس سو سینتالیس کے بٹوارے کے موقع پر دونوں کی آنکھوں میں ایک دوسرے کے لیے خون کیوں اتر آیا۔ اس کی وجہ شائد اس المیے میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے جس کے سبب پنجاب میں ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ سکھوں، ہندوؤں اور مسلمانوں کو جبری مہاجرت اختیار کرنا پڑی۔ اور اس کے ردِ عمل میں سب سے زیادہ خون بھی پنجاب میں بہا۔
ایک اور سوال کا جواب بھی تلاش کرنے کی ضرورت ہے کہ تقسیم کے لگائے گئے زخم پنجابی مسلمانوں اور سکھوں کے دلوں سے کیسے تیزی سے مندمل ہو گئے مگر ہندوؤں اور مسلمانوں کے دل ایک دوسرے کے لیے آج تک صاف نہیں ہو سکے ؟
کیا یہ اقلیت کی اقلیت کے ساتھ بھائی چارے کی فطرت ہے یا کچھ اور گہری عمرانی و تاریخی وجوہات ؟ امید ہے کوئی نہ کوئی مورخ اس تاریخی نفسیات پر بھی غیرجانبداری سے کام کرے گا۔
آج کرتار پور میں ایک نئی تاریخ رقم ہو رہی ہے۔ نانک نے وحدانیت کا پرچار کرتے ہوئے پانچ سو برس پہلے جس وسیع المشرب مذہب کی بنیاد رکھی تھی۔ شائد یہ تازہ مناظر اسی کا ثمر ہوں۔ جیسے ہرا بھرا پیڑ تنے تک بھی کاٹ دیا جائے تو پھر سے بڑھنا شروع کر دیتا ہے۔ اگر بیمار ہونے پر آجائے تو سرسبز پیڑ بھی کھڑا کھڑا سوکھ جاتا ہے۔