Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, November 19, 2019

لمحہُ فکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مولانا سلمان ندوی دارالعلوم ندوة سے ہوٸے الگ۔

از/ عبد المالک بلند شہری۔/صداٸے وقت۔
==============================
   .آج ہمیں بڑا غم ہے کہ خطیب العصر حضرت اقدس مولانا سید سلمان حسینی ندوی زید مجدہم اپنے محبوب ادارہ دارالعلوم ندوۃ العلماء سے علیحدہ ہوگئے اور وہ آفتاب گرہن کا شکار ہوگیا  جو چار دہائیوں سے مطلع ندوہ پر ضوفشاں تھا ..
.یقینا یہ فیصلہ انتہائی مناسب اور مفید ہے ... کاش مولانا اکابر ندوہ کے منہج و مسلک پر گامزن رہتے اور غیر ضروری مباحث میں اپنی توانائیاں صرف کرنے سے گریز کرتے،  ندوہ میں انتشار و اضطراب پیدا نہ کرتے اور مشاجرات صحابہ جیسے نازک و اہم موضوع کو ناچھیڑتے تو یقینا وہ ملت کو بڑا فائدہ پہنچاتے .....
مولانا سے ہزارہا ہزار اختلافات کے باوجود دنیا ان کی عبقریت،  قابلیت ، لیاقت اور خطابی صلاحت کی معترف و قدرداں ہے ..ہر طبقہ و مکتب فکر نے یکساں طور پر مولانا کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا اور اپنے سروں کا تاج بنایا  لیکن افسوس مولانا نے اپنی تلون مزاجی،بے استقلالی اور حد درجہ اشتعال کی بنا پر اپنی شبیہ  خود ہی داغ دار کرلی ..
مولانا اپنی جذباتیت اور انانیت کی بھینٹ خود چڑھ گئے،  انہوں نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے،اپنی نرگسیت کی بنا پر مولانا  کل پرسنل لاء بورڈ سے نکالے گئے اور آج مادر علمی محبوب ادارہ ندوہ سے بھی..
اگر مولانا نے اپنی روش تبدیل نہ کی اور اسی ڈگر پر چلتے رہے  تو انہیں مستقبل میں اور بھی رسوائیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ..
اس موقع پر مولانا کو ضرور اپنا محاسبہ کرنا چاہئے اور اپنے ضمیر و دل سے دریافت کرنا چاہئے کہ وہ جس ڈگر پر چل رہے ہیں وہ سلامتی کی ہے یا بربادی کی .. وہ اپنوں کو ناراض کرکے کس کو خوش کرسکتے ہیں، اپنے دیرینہ رفیقوں، قدیم دوستوں سے بغاوت کے بعد وہ  اپنے دل کو کیسے مطمئن کرسکتے ہیں...خدا کی قسم اس روئے زمین پر مولانا کا ان کے ماموں،  استاذ اور شیخ مولانا سید محمد رابع حسنی مدظلہ سے بڑا بہی خواہ، مخلص اور  کوئی نہیں،  رابع ص کو جتنا آپ پر اعتبار تھا وہ شاید ہی کسی کے حصہ میں آیا ہو مگر افسوس آپ نے ان کی بھی ناقدری کرکے خود اپنا نقصان کیا......
مجھے معلوم ہے مولانا کے اس انجام کے پیچھے ان کے بعض عاقبت نااندیش اور کم فہم معتقدین کا ہاتھ ہے ...اگر انہوں نے مولانا کے ہر سیاہ و سفید کا دفاع نہ کیا ہوتا اور ہر معاملہ میں انہیں درست نہ ٹھرایا ہوتا تو آج ان کا یہ انجام نہ ہوتا ...
سوشل میڈیا کے صارفین خوب جانتے ہیں کہ ہمیں سلمان  ص سے کس قدر تعلق خاطر ہے ...آپ کو یاد ہوگا کہ سلمان ص کے متعلق جب ہفوات و مغلظات کا بازار گرم کیا گیا تھا تو ہم نے ہی آفتاب علم و ماہتاب عمل کے نام سے مولانا کی خدمات و فتوحات کو اجاگر کیا تھا جس کی پاداش میں ہمیں نازیبا القاب سے بھی نوازا گیا لیکن ہم نے محض حق کی حمایت کرتے ہوئے قلم کو جنبش دی ..یہ اس وقت کی بات ہے جب مولانا مشاجرات صحابہ کی کھائی میں نہیں گرے تھے لیکن بعد میں ان کے انحراف شدہ افکار و آراء کے پیش نظر ہم نے ان کے افکار سے مکمل برات ظاہر کردی تھی ...اور آج بھی ہم مولانا کے ان افکار کی تردید کرتے ہیں جو اکابر ندوہ  سے مغائر ہیں....

ہمیں مولانا کے جانے کا بہت غم ہےلیکن کیا کریں دل کے ہاتھوں مجبور ہیں،  نگاہیں برابر مولانا کی طرف اٹھی ہوئی ہیں، ان کے قدموں کی چاپ سننے کے لئے کان کھڑے ہیں، .کاش مولانا اپنے باطل نظریات سے مکمل رجوع کرلیتے اور غیر موزوں مباحث میں اپنی توانائی ضائع نہ کرنے کا عندیہ دے دیتے تو یقینا ہم جیسے ان کے ہزاروں معتقدوں کو قلبی مسرت اور روحانی سکون حاصل ہوتا  ........
خیر! اب ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا،مولانا کو ندوہ کے پلیٹ فارم سے جو خدمات انجام دینی تھیں وہ دے لیں اب وہ آزاد ہیں بالکل آزاد ..اب انہیں کسی بھی قسم کے اصول و ضوابط کی فکر نہیں ...
ہم امید کرتے ہیں کہ مولانا امت کی فلاح و رہنمائی کا عظیم الشان کام کریں گے،دعوت و تبلیغ کی ہمہ جہت خدمات انجام دیں گے،  شبلی کے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے، اپنی مجددانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے امت مسلمہ کی عظمت رفتہ کی بازیابی کی گراں قدر کوشش کریں گے اور مثبت کوششوں،  تعمیری سرگرمیوں سے اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو بحال کرائیں گے ....

عبدالمالک بلندشہری