Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, November 24, 2019

زمینِ ایشیا کے پاسبانوں سے شکایت ہے!۔۔ایک عمدہ تحریر۔۔۔۔ضرور پڑھیں۔

از/ عمر فراہی ۔۔۔۔/صداٸے وقت۔
==============================
ہٹلر نے اپنی کتاب میری جدوجہد میں لکھا ہے کہ
Democracy is a forefront of Marxism
جمہوریت مارکسزم کی ہی دوسری شکل ہے اور یہ دونوں نظام یہودی دانشوروں کے ذہن کی اختراع ہیں تاکہ پوری دنیا میں وہ اپنے مفادات کی تکمیل کر سکیں ۔ہٹلر ترکی کی طرز خلافت سے متاثر تھا جس کا تذکرہ بھی اس نے اپنی کتاب میں کیا ہے ۔یہودیوں کی سازش سے ترک خلیفہ اور ہٹلر دونوں واقف تھے ۔شاید اسی لئے ان دونوں کو اس کی سزا بھی ملی ۔ہٹلر کی کتاب پر ایک زمانے تک پابندی بھی اسی لئے رہی تاکہ لبرل طرز سیاست کے تعلق سے ہٹلر نے اپنی کتاب میں جو تحقیقی مواد فراہم کیا تھا اس کے ان خیالات سے تیسری دنیا کے لوگ واقف نہ ہو سکیں ۔جیسا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد جب برطانیہ کی مقبوضہ ریاستیں آزاد ہوئیں تو ان ریاستوں کے سیاسی لیڈران کے پاس اس کے سوا کوئی متبادل بھی نہیں تھا کہ وہ اس نظام کو قبول نہ کریں ۔یورپ نے اگر اسے غلط سمجھ کر اپنی عوام پر مسلط بھی کیا تو وہ اس کے ساتھ اس لئے انصاف کر سکے کیوں کہ ان کے یہاں باصلاحیت اور مخلص قیادت موجود تھی ۔
پھر بھی ایک فرنگی اپنی عوام کو مسلسل اس کے نقصانات سے آگاہ کرتا رہا ۔کہا جاتا ہے کہ سیاست کا یہ طالب علم بھی اسلامی طرز خلافت سے ہی متاثر تھا
اقبال اسی مرد کو مخاطب کرتے ہوۓ کہتے ہیں کہ

اس راز کو اک مرد فرنگی نے کیا فاش
ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے

جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
یہ مرد فرنگی برطانیہ کا وزیرِ اعظم ونسٹن چرچل تھا جو جمہوری طرز سیاست پر طنز کرتے ہوۓ کہتا ہے کہ
The best argument against democracy is a five minutes conversation with average voters .
جمہوری طرز سیاست کی مخالفت میں جو سب سے بہترین دلیل ہو سکتی ہے وہ یہ ہے کہ
اس طرز حکمرانی میں عام ووٹروں کی حصے داری صرف پانچ منٹ کی ہوتی ہے بس !!
دوسری بات اس نے یہ بھی کہا کہ
اب تک کے سارے سیاسی نظاموں میں جمہوریت سب سے بدترین سیاسی نظام ہے ۔
تحریک آزادی کے دوران ہندوستان کے بارے میں چرچل کی جو پیشن گوئی بہت مشہور ہوئی وہ سو فیصد درست ثابت ہوئی اور ہو رہی ہے اسے بھی برداشت کر لیں ۔
طاقت یعنی حکومت کی باگ ڈور غنڈوں بدمعاشوں جنونیوں اور لٹیروں کے ہاتھ میں چلی جاۓ گی ۔
سارے ہندوستانی سیاسی لیڈران نااہل کم ظرف اور بد اخلاق ہونگے ۔
یہ لوگ میٹھی باتیں کریں گے لیکن دل کے کمزور ہوں گے
یہ لوگ آپس میں ہی سیاسی طاقت کیلئے لڑیں گے ۔
ایک دن ہندوستان سیاسی بحران کا شکار ہو جاۓ گا ۔اور یہ لوگ ہوا اور پانی پر بھی ٹیکس لگا دیں گے۔
اس نے کہا کہ اگر میں ہندوستان کی آزادی کے وقت وزیر اعظم رہتا تو ہندوستان کو بالکل آزاد نہ کرتا۔
سونیا گاندھی کے بہت ہی قریبی سمجھے جانے والے کانگریسی رہنما احمد پٹیل نے ہندوستان کی سب سے اہم ریاست مہاراشٹر کی سیاست میں ہونے والی اتھل پتھل پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوۓ کہا ہے کہ بی جے پی نے جمہوری اقدار کی دھجیاں اڑا دی ہیں ۔سچ تو یہ ہے کہ ہندوستانی جمہوریت میں یہ ڈرامے بازی آزادی کے دس سال بعد ہی شروع ہو چکی تھی ۔جئے پرکاش نارائن نے آزادی کے پندرہ سال بعد ہی احمد پٹیل کی کانگریس کی بدعنوانیوں کے خلاف تحریک شروع کر دی تھی۔جنتا پارٹی کا وجود عمل میں تو آیا لیکن اندراگاندھی نے اپنی شاطرانہ چالوں سے چرن سنگھ کی وقتی حمایت کر کے وزیراعظم کی کرسی کا مزہ چکھا کر اس نئے سیاسی انقلاب کو بھی چارو خانے چت کر دیا ۔وہ دن بھی ہم نے دیکھا ہے جب راجیو گاندھی کی کانگریس نے جنتا دل کو توڑنے کیلئے رام نریش کو وزیراعظم کی لالچ دی اور رام نریش صرف اپنے بیس ایم ایل اے کی مدد سے ملک کی وزیراعظم بن گئے۔ایک مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ کانگریس نے حمایت واپس لے لی اور پھر وقفے وقفے سے جمہوریت میں ہم انا ہزارے جیسے احتجاج اور مظاہروں کا مزہ لیتے رہتے ہیں ۔
اقبال چرچل ہٹلر مودودی جیسے جہاں دیدہ شخصیات کی پیشن گوئیوں کے علاوہ تقریباً ساٹھ سال تک ہم جمہوری طرز سیاست کی درگت اپنی آنکھوں سے بھی دیکھتے رہے ہیں پھر بھی میں نے کچھ معروف مسلم تنظیموں کے رہنماؤں کی ہی زبان سے یہ کہتے ہوئے دیکھا ہے کہ
جمہوریت مسلمانوں کیلئے نعمت اور مومن کا گمشدہ خزانہ ہے اور مسلمانوں کو چاہئے کہ اس ماحول کا فائدہ اٹھاکر دعوت کے کاموں میں لگ جائیں !
بالکل دعوت ہونی چاہئے لیکن دعوت کا قرآنی طریقہ کار کیا ہے یہ جاننے کیلئےداعیان اسلام بھی قرآن کو کتنا سمجھ کر پڑھتے ہیں یہ بھی ایک سوال ہے ؟
چونکہ ہندوستانی سیاست بھی اب کھیل اور تماشہ کے سوا کچھ نہیں رہی اس لئے مہاراشٹر کی سیاست میں جو اتھل پتھل ہوئی اس کھیل کے میدان میں کسی کو تو شکست ہونا ہی تھا ۔ سوال یہ ہے کہ ہندوستان کے جن سیاسی حالات اور بحران کو ستر سال پہلے ایک مرد فرنگی دیکھ رہا تھا وہ حالات مفسرین قرآن اور محدثین عصر کو نظر کیوں نہ آئے ؟
ستر سالوں تک اہل مدرسہ نے صرف مناظرہ کیا ۔ بے ڈھب دعوت کی پلاننگ کی ۔رد مودودیت ۔فتنہ بریلویت ,فتنہ وہابیت ,تھانوی گنگوہی اور مدنی مدنی کھیلتے رہے ۔یزید کربلا معاویہ خوارج روافض مقلد غیر مقلد کی بحث ہوئی اور اب بھی ہو رہی ہے اور ابھی تک ندوی رحمانی اور مدنی ہی کھیلا جارہا ہے لیکن سیاست اور حکومت کی کوئی پلاننگ نہیں ہوئی جبکہ اللہ اور اس کے رسول نے ہجرت سے پہلے مکہ میں جو منصوبہ تیار کیا اس کا اصل نصب العین تو مدینے کی سیاست ہی تھی ۔مدینے میں یہ کہرام نہ مچتا تو کیا آج اسلام ہم تک پہنچتا ؟
کسی ملک اور خطے میں جب کوئی قوم سیاسی بحران کا شکار ہوتی ہے تو قحط جیسے حالات اور معاشی بحران کا پیدا ہونا بھی لازمی ہے ۔ملک کے سیاسی لیڈران حالات کو اسی رخ پر لے جارہے ہیں ۔ ملک کے حالات اچھے بھی کیسے ہو سکتے ہیں جبکہ چرچل کے بقول ایک بدترین طرز سیاست کے سیاسی لیذران بھی بدترین لوگ ہوں !
ایسے میں مسلمانوں کو قرآن کے اندر حضرت یوسف کے قصے سے رہنمائی ملتی ہے ۔
عقلمںد قوم وہ ہوتی ہے جو اپنے اوپر ایسا بادشاہ مقرر کرلے جو مخلص ایماندار متقی پرہیزگار اور خدا سے ڈرنے والا ہو خواہ وہ غیر ملکی ہی کیوں نہ ہو ۔
مصر کے لوگوں نے اس کے باوجود بھی حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنا بادشاہ قبول کر لیا جبکہ وہ مصری نہیں تھے ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ یوسف نے اس قوم کو قحط سالی اور بھوک کے عذاب سے نجات دلائی۔
کسی زمانے میں ایشیا کے باشندوں نے اپنے راجاؤں کے مقابلے میں مسلم بادشاہوں کا جب استقبال کیا تو ایشیا سونے کی چڑیا میں تبدیل ہو گیا ۔
کیا مسلمان سابقہ مسلم بادشاہوں اور قرآن میں حضرت یوسف کے قصے سے سبق لے سکتا ہے ؟
کیا کسی مذہبی تنظیم کے شعلہ بیان مقرر اور داعیان اسلام میں عرب کے تاجران کی حکمت عملی اور حضرت یوسف کی یہ اہلیت ہے جو ہندوستان کو ایک بار پھر سیاسی اور معاشی بحران سے نجات دلا سکے ؟
ڈھیروں بحران میں مبتلا ہندوستان کا مسلمان حال فی الحال اس سیاسی معاشی اور سماجی انقلاب کی قیادت کا اہل نہیں ہو سکتا کیوں کہ حضرت یوسف کے اس سیاسی پہلوں کو وہ صرف قرآن مقدس میں قید رکھنے کو ہی ثواب سمجھتا ہے مسجدوں اور دینی اجتماعات میں سیاسی گفتگو حرام ہے ۔جئے پرکاش نارائن , انا ہزارے اور چند سیکولر انصاف پسند ہندو جرنلسٹوں کی تحریک سے ماحول میں کچھ تبدیلی کی امیدیں ضرور کی جاسکتی ہیں لیکن ان کی جدوجہد بھی کیا ہندوستانی سیاست کو کوئی رخ دے پاۓ کی ؟
ایسی کوئی صورت نظر نہیں آتی کیوں کہ
انقلابات شور سے نہیں نظریات سے آتے ہیں !
قدریں اخلاق سے پروان چڑھتی ہیں اور اخلاق کا تعلق خالق کائنات سے رشتہ استوار کرنے میں ہے ۔
بدقسمتی سے موجودہ لبرل جمہوری طرز سیاست میں جب خالق اور مخلوق کے رشتے کا کوئی تصور ہی نہیں ہے تو پھر اقدار کا شکوہ بھی بے معنی ہے ۔
مگر جہاں اخلاق و اقدار کا اصولی تصور ہےاور جن کے بارے میں اقبال نے کہا تھا کہ
خداۓ لم یزل کا دست قدرت تو زباں تو ہے
یقیں پیدا کر اۓ غافل کہ مغلوب گماں تو ہے

یہ نکتہ سرگزشت ملت بیضا سے ہو پیدا
کہ اقوام زمین ایشیا کا پاسباں تو ہے

سبق پڑھ پھر صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جاۓگا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

انہیں سے پھر مخاطب ہو کر اقبال سوال کرتے ہیں
کہ ایسا ممکن بھی تو نہیں !
کیونکہ
اوپر بحث ہو چکی ہے !؟

عمر فراہی ۔۔۔۔