Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, November 28, 2019

روایت شکن اودھو۔ سے امیدیں۔۔۔۔۔۔۔۔!


 از/شکیل رشید (ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)/صداٸے وقت ۔
==============================
 ادھوٹھاکرے کو روایت شکن کہاجاسکتا ہے۔
انہوں نے اپنے اور اپنی پارٹی شیوسینا کے تعلق سے، پھیلائی جانے والی دو روائتوں کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ ادھوٹھاکرے نرم مزاج کے ایک ایسے انسان ہیں ، سیاست جن کے بس کی بات نہیں ہے۔ ایسا سمجھنے والوں میںبی جے پی بھی شامل تھی اور یہ بی جے پی ہی تھی جو یہ بھی سمجھتی تھی کہ اپنے والد بال ٹھاکرے کے مقابلے چونکہ ادھو نرم مزاج ہیں اس لیے ان پر آسانی سے قابو رکھاجاسکتا ہے۔ لیکن این سی پی اور کانگریس کی مدد سے مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ کی کرسی حاصل کرنے کےلیے ادھو ٹھاکرے نے جس طرح سے ’مذاکرات‘ کیے اور جس مہارت سے اپنے پتّے استعمال کیے اس سے مذکورہ دونوں ہی روائتیں پاش پاش ہوگئیں اور ادھو ٹھاکرے کی وہ شکل سامنے آئی جو صرف بی جے پی ہی کےلیے نہیں اس ریاست کے لوگوں کےلیے بھی اور دیگر سیاست دانوں کے لیے بھی حیرت کا باعث تھی۔ لیکن ادھو ٹھاکرے حقیقی معنوں میں روایت شکن اس وقت ہی کہلائیں گے جب وہ ان مسائل کو، جن سے ریاست کے عوام برسہا برس سے جوجھ رہے ہیں، حل کرنے میں کامیاب ثابت ہوں گے۔ ادھو ٹھاکرے نے ایک تاریخ رقم کی ہے اس میں کوئی دورائے نہیں ہے۔ وہ ٹھاکرے خاندان سے وزیراعلیٰ کی گدی پر متمکن ہونے والے پہلے فرد بن گئے ہیں۔ آج سے پہلے ٹھاکرے خاندان کا کوئی بھی فرد حکومت میں کسی عہدے پر نہیں تھا، ہاں ان کی پارٹی کی جب بھی سرکار رہی، یہ خاندان ہی اصلاً حکمراں رہا۔ وزیراعلیٰ کی گدی اپنے ساتھ بہت ساری ذمہ داریاں لے کر آتی ہے، ایسی ذمہ داریاں جن سے اگر سنجیدگی اور  خلوص کے ساتھ عہدہ برآہوا تو نیک نامی بھی ملتی ہے اور حکمرانی طویل ہونے کی امید بھی بڑھتی ہے۔ اس لیےکہ عوام مطمئن رہتے ہیں ۔ 
بی جے پی نے حکومت سے ہاتھ تو دھو لیا ہے لیکن اپنے پیچھے کئی ایسے ’منصوبے‘ چھوڑ گئی ہے جو اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیت کےلیے باعث تشویش ہوں گے۔ خود شیوسینا کا ماضی مسلمانوں کےلیے خوشگوار نہیں رہا لیکن ملک اور ریاست کی بھلائی کےلیے مسلمان کانگریس او راین سی پی کے اتحاد کے ساتھ بنائی گئی شیوسینا کی اس حکومت کا استقبال کریں گے، اگر یہ حکومت مسلمانوں کے معاملات سلجھاتی ہے۔ اہم مسئلہ این آر سی کا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ فڈنویس کے دور میں ریاست میں زرکثیر سے ان کے لیے جنہیں بی جے پی کی مرکزی اور ریاستی سرکاریں ’غیر ملکی‘ قرار دیناچاہتی ہیں ’حراستی  مراکز‘ بنائے گئے، مسلم اقلیت کا یہ سمجھنا کہ یہ ’حراستی مراکز‘ ان کےلیے ہیں غلط نہیںہے کیوںکہ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ بار بار اپنے بیانات سے یہ ثابت کرچکے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو ’گھس پیٹھیے‘ سمجھتے ہیں او رانہیں این آر سی کے ذریعے غیر ملکی قرار دیناچاہتے ہیں۔ امید ہے کہ ادھو نے جس روایت شکنی کا آغاز کیا ہے اس کے تحت وہ اس ریاست میں ’این آر سی‘ کے بہانے بی جے پی کو نہ مسلمانوں کو اور نہ دیگر  اقلیت کو ہراساں کرنے کی چھوٹ دیں گے۔ ادھو کو  مزید ایک قدم آگے بڑھ کر مسلم اقلیت کو ا پنے سے قریب کرنا ہوگا، اور ان سے اس کی امید بھی ہے، کیوں کہ انہوں نے ایک مسلمان کو شیوسینا کے ٹکٹ پر ایم ایل اے بنوایا بھی ہے۔ یہ بی جے پی کی ڈگر سے ہٹ کر اپنی خود کی راہ ہے، بی جے پی تو کسی مسلمان کو کسی بھی الیکشن میں جتوانا تو دور ٹکٹ تک نہ دینے کا اعلان کرچکی ہے۔ امید ہے کہ ادھو اردو اسکولوں ، اردو زبانوں، مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی روزی وروزگار اور بے روزگاری کے مسائل کو سرفہرست رکھیں گے۔ مسلمان، بالخصوص جو پچھڑے ہیں ان کےلیے پانچ فیصد کوٹے پر بھی مثبت غور کریں گے۔ ادھوٹھاکرے کےلیے یہ مراٹھوں کے ہی نہیں تمام اقلیتوں کے دلوں کو جیتنے کا، ایک سنہری موقع ہے ، اگر اس موقع سے انہوں نے فائدہ اُٹھایا تو مہاراشٹر مثالی ریاست بن سکتی ہے۔ گر ایسا ہوا توشیوسینا کانگریس اور این سی پی کے اس گٹھ جوڑ کےلیے یہ ترقی او ربی جے پی کے لیے زوال کی شروعات ہوگی۔