Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, November 19, 2019

صف اول کے فلمی مکالمہ نگار اختر الایمان کے یوم ولادت کے ضمن میں۔

یاسیت فکر و فن پر ہے چھائی ہوئی
ہم نفس  چھیڑ  پھر  ذکر  بجنور  کا.

 از/ تہذیب ابرار۔/صداٸے وقت۔
============================
فیض، مخدوم، سردار جعفری، ساحر، مجاز، میراجی، ن م راشد اور نیاز حیدر کے ہم عصر اختر الایمان کا تعلق موضع راہو کھیڑی (نجیب آ باد) سے ہے۔اردو کے نامور شاعر، جدید اردو نظم کے بنیاد سازوں میں شامل، صف اول کے فلم مکالمہ نگار اختر الایمان کی پیدائش 12 نومبر 1912 کو ہوئی۔ ان کے والد مولوی فتح محمد ایک مسجد کے پیش امام تھے۔ اختر الایمان نے دہلی یونیورسٹی سے پوسٹ گریجویٹ کیا، کچھ دن محکمہ سول سپلائز میں ملازمت کی اس کے بعد انہوں نے آ ل انڈیا ریڈیو میں کام کیا۔ علی گڑھ سے ایم۔ اے کرنے کے بعد 1945 میں اختر الایمان ممبئی چلے گئے اور فلمی دنیا میں اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے اپنی مستحکم شناخت قائم کی۔ ان کی پہلی تاریخی فلم"قانون"تھی جو اس وقت بہت بڑی فلم تسلیم کی گئی تھی۔ 
نظم گو شاعر کی حیثیت سے وہ فیض، مجاز اور ساحر کے دوش بدوش چلتے نظر آتے ہیں، ان کی نظمیں خاک وخون، تاریک سیارہ، مفاہمت، ایک لڑکا اور اعتماد شہرہ آفاق حیثیت کی حامل ہیں، ان نظموں میں اتنی وسعت اور آ فاقیت ہے جو شاعر کو لا فانی بنادیتی ہے۔ 
ان کی بہت سی نظموں کا انگریزی و دیگر زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔
ایک زمانے میں انھیں افسانہ نگاری سے بھی شغف پیدا ہوا اور انھوں نے ہمراز، ضمیر، آ دمی اور وقت کے علاوہ متعدد کہانیاں لکھیں جن پر فلمیں بنیں اور مقبول بھی ہوئیں۔
اختر الایمان کے یہاں وہ دونوں لوازم موجود ہیں جو فنکار کو عظیم بناتے ہیں ایک تخیل دوسرا تفکر، ان کی نظمیں"اعتماد' اور "ایک لڑکا"علامتی تکنیک اور نفس مضمون کے لحاظ سے دنیا کی بہترین مختصر نظموں میں شمار کی جاتی ہیں۔
اختر الایمان نے "گرداب" "آ ب جو" "بنت لمحات" "نیا آ ہنگ" "سب رنگ" "یادیں" سرو سامان" اور "زمین زمین" جیسی تخلیقی کتب سے شعر و ادب کو مالا مال کیا۔ 1961 میں ان کے مجموعہ کلام "یادیں" پر بدست پنڈت جواہر لال نہرو ساہتیہ اکادمی ایوارڈ دیا گیا۔ اسی سال انھوں نے فلم "دھرم پترا" کے مکالمے لکھنے پر فلم فیئر ایوارڈ حاصل کیا۔ 1965 میں فلم "وقت" کے بہترین مکالمے تحریر کرنے پر دوبارہ فلم فیئر ایوارڈ حاصل کیا، انھوں نے مشہور فلم پروڈیوسر بی۔ آ ر چوپڑا کی بہت سی کامیاب ترین فلموں کے لیے مکالمے لکھے اور ایک فلم کی ہدایت کاری بھی کی۔
انھوں نے جن فلموں کے لیے اسکرپٹ یا مکالمے لکھے ان میں اردو کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، اس طرح انھوں نے اردو زبان کی اہمیت تسلیم کرائی اور ان فلموں کو شاندار کامیابی سے ہم کنار ہونے کی راہ ہموار کی۔
خاص فلموں "گم کردہ راہ" وقت" داغ" پتھر کے صنم" کے علاوہ اختر الایمان نے سو سے زیادہ فلمیں تحریر کیں اور ان فلموں میں بیشتر پر انھیں کوئی نہ کوئی ایوارڈ ضرور ملا۔ فلمی شاعری سے ان کے معیار اور مرتبہ پر حرف نہ آئے اس لئے فلمی گیت کبھی نہیں لکھے۔ ان کا آ خری شعری مجموعہ"زمستان سرد مہری" ان کے انتقال کے بعد شائع کیا گیا۔
"جن کے گھر شیشے کے ہوتے ہیں وہ دوسروں پر پتھر نہیں پھینکتے" ایسے بیش قیمت مکالموں سے بالی وڈ کی فلمی زبان کو بامعنی، بامحاورہ تشبیہات سے مالامال کرنے والے شاعر اختر الایمان نے 9 مارچ 1995 کو عروس البلاد ممبئی میں آ خری سانس لی۔
         جسے   تم  پوچھتے  رہتے  ہو  کب کا  مرچکا ظالم
         اسے خود  اپنے  ہاتھوں  سے  کفن دیکر  فریبوں کا
         میں اس کو آ رزوءں کی لحد میں پھینک آ یا ہوں
         یہ  لڑکا  مسکراتا  ہے   یہ   آ ہستہ  سے  کہتا   ہے
       یہ کذب و افترا ہے، جھوٹ ہے دیکھو میں زندہ ہوں
وقت ثابت کر رہا ہے کہ اختر الایمان ہمارے ذہن و دل میں نہ صرف زندہ ہیں بلکہ ان کی ادبی شخصیت کے تعلق سے تحقیق کے نئے در بھی وا ہو رہے ہیں۔
                                                             تھذیب ابرار
 "فکرو نظر" سے انتخاب