Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, November 3, 2019

!!!جب آمنہ کی گود دُر یتیم سے آباد ہوئی




  ----------از قلم --------------
احتشام الحق ، مظاھری،  کبیر نگری،،،/صداٸے وقت/عاصم طاہر اعظمی۔
==============================
آج سے چودہ سو چالیس سال پہلے دنیا شرور و فتن کے انتہائی نازک مراحل سے گزر رھی تھی قتل و خوں ریزی اور چوری  و ڈاکہ زنی کی وبا عام تھی ، ہر طرف شراب و کباب کا دور دورہ تھا نسبی تفاخر اور قومی تکاثر کے ہر جانب نعرے لگائے جارھے تھے ، یتیموں اور بیکسوں کے مال و منال پر غصبا قبضہ کیا جارھا تھا ، عورتیں جائے حقارت کی ٹھوکروں میں زندگیاں گزارتی ھوئی اپنے واجبی حقوق سے بھی محروم تھیں لڑکیوں کی پیدائش کو باعث زلت تصور کرکے انہیں زندہ در گور کیا جارھا تھا خانۂ کعبہ کا برہنہ تن طواف کرنا مقدس ترین عبادت شمار ہوتا تھا اس اولین خدا خانے میں تین سو ساٹھ بت رکھے ھوئے تھے ہر قوم و ہر قبیلے نیز ہرہر شعبہ زندگی کے الگ الگ خدا تھے ، دنیا کی کوئی ایسی برائی نہ تھی جو عرب کے بدوں کی طبیعتِ ثانیہ نہ بن چکی ھو انسانیت کفر و ضلالت بحرِ ناپید کے تھپیڑوں میں خطرناک ہچکولے کھا رہی تھی صراط مستقیم کے نشاط یکسر محو ہو چکے تھے جہالت ولادینیت کی تاریکیوں میں بھٹکتی ہوئی حق و صداقت کی متلاشی دنیا ، انبیاءِ سابقین کی خلوت گاہوں پر سینے کے بل پڑی اپنی حرماں نصیبوں کے مزار پر خونِ جگر کی اشکباری کرتی ، اور اپنی مراد برآری کی بھر پور امیدیں لئے رشد و ہدایت کی نورانی کرنوں کی بھیک مانگتی ھوئی ، لیت و لعل ، کے کلمات دہراتی ، لیکن یہ اسکی امید و رجاء سے کوسوں دور نکلتا ، اس کے حق طلب ارمان نازک پنکھڑیوں کی طرح بکھر جاتے ، حرمان و خسران کے گونا گوں خارزاروں پر اس کا دامنِ امید پھنس کر تار تار ھوجاتا ، اور وہ اپنی بد نصیبی اور شومئ قسمت پر نوحہ و ماتم کرتی ،
مولانا احتشام الحق قاسمی۔

مرور زمانہ کی گاڑی ساعات و لمحات کے پہیوں پر تغیراتِ شب و روز کے انجمن کے ہمراہ نہایت برق روی کے ساتھ سفر حیات طے کررہی تھی ، اور ادھر ، ،،،،    اول ماخلق اللہ نوری،،،، کائنات عالم میں سب سے پہلے وجود پزیر ھو نے والا نور نبی ،   بمصداقِ ،،،،    کنت نبیّاو آدم بین الماء والطین،،،،،،     روزِ ازل سے پہلے ہی خلعت نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد جبینِ آدم میں جلوہ گر ہوا ، 
بعد ازاں ،،،، ارشاد باری،،، خلق من مّاء دافق،،،،
اور،،،، یخرج من بین الصلب والترائب،،،،،،، کے مطابق آدم و حواء سے لیکر عبد اللہ اور آمنہ تک اصلاب و ترائب کی متعدد گزرگاہوں پر ،،، لم یکن شیأمذکورہ ____  کی سیر و سیاحت کرتاہوا بطن آمنہ میں مستقر ہوا ،-------- پھر قول باری---- خلق الانسان من علق --------  کے موافق دم بستہ کی صورت اختیار کرنے کے بعد -------  فخلقنا العلقۃ مضغۃ فخلقنا المضغۃ عظٰما فکسونا العظام لحما ------ کے مختلف انقلابات سے دو چار ہوتا ہوا،،      ثم انشأنٰہ خلقا آخر-------- کے روپ میں             فی ایِّ صورت ماشاء رکبک--------- کی اعجازی و اعلی ترین ترکیبات سے مزین ہوکر ، فجعلناہ سمیعا بصیرا------ اور علمہ البیان      کے تحت سمع اور نطق و لماست کی ودیعت کردہ صلاحیتوں سے مرصع ہوتے ہوئے         لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم ----- کے سانچے میں ڈھالے جانے کے بعد         فتبارک اللہ احسن الخالقین-------- کے سب سے بہتر اور اعلی ترین نمونہ بن کر آمنہ کی گود میں جلوہ گر ہونے اور        لقد منّ اللہ علی المؤمنین اذ بعث فیہم رسولا من انفسھم--------    کے احسانِ عالم کے کھلے مظاھرہ کی مبارک گھڑی آن پہچی،،،، 
یعنی  چھٹھی صدی ۵۷۱ عیسوی میں گیارہویں ربیع الاول کے آفتابِ جہاں تاب کے افقِ مغرب میں روپوش ہوجانے کے بعد بارہویں ربیع الاول کی شب دوشنبہ کا چاند ظلمت شب کے دبیز پردے کو چیرتا ہوا روا ہوا راحت آگین کرنوں سے اٹھکھیلیاں کرتی ہوئی چاندنی رات گزر چکی تھی صبح صادق کا سہانہ وقت تھا نسیمِ سحر کے لطیف جھونکے گلہائے نازک کی ملائم پنکھڑیوں سے مس کرکے خفیف حرکت دے رہے تھے شبستانِ انتظار کی بلبلیں تمناؤں اور آرزوؤں کی ڈالیوں پر ،،   لیت و لعلّ    ،، کے نغمات گنگنا رہی تھیں ، شب کن فکاں کے دولھا کے اعزاز میں بہشتِ بریں کو عروسِ بہاراں بنایا جا چکا تھا ،،، چہار دانگ عالم میں دعائے خلیل کی ثمر آوری ،  اور ،،، اول ماخلق اللہ نوری،،،،،،،  کے ظہور کی خوشخبری پھیل چکی تھی ، آسمان خندہ بلب تھا خاکدانِ گیتی دلبرِ مشیت کے لئے فرشِ راہ بنی ہوئی تھی 

بالآخر ، حوادثاتِ زمانہ کے ہاتھوں ستم رسیدہ دنیا در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد آمنہ کی چوکھٹ پر جبینِ نیاز خم کرکے ،،،،، فلیبکو کثیرہ---- کی سراپا تفسیر بن کر بارگاہ صمدیت میں آخری بار اشکبار ہوئی اور اپنے آپ کو شاہ راہ مقبولیت کے بام عروج دیکھ رھی تھی ::::: کہ بتقاضائے ،،        کل امرٍ مرھونٌ بوقتہٖ -------- اپنہ دیرینہ حسرتوں اور آرزوؤں کے دامنِ حق طلب میں گلِ مراد پاکر ماضی کی کلفتوں اور حال کی تکلیفوں کو بھول گئی ، اور مستقبل کے حسین و پر امید تصورات میں کھو گئی ،،، 

یعنی ،، ایک نوری تن نومولود کی آمد پر خلوت گاہ آمنہ کے بامِ ور سے مرحبا مرحبا کی صدائیں بلند ہونے لگیں ، آمنہ کی گود دُر یتیم سے آباد ھوگئی ، رنگ عالم بدل گیا ، چمن ہستی کی۔مرجھائی کلیاں کھلیں ، سینۂ گیتی کا جھلسا ہوا دل بارانِ توحید کی سبزہ رو  بوندوں سے ہرا ہوگیا ، انسانیت کی خزاں رسیدہ زیست آشنائے بہار ہوگئی، گلوں کے پزمردہ چہروں پر بشاشت دوڑ گئی خاموش بلبلوں کے لبوں پر دلفریب مسکراہٹیں کھل گئیں، تشنہ کامانِ ہدایت کی تشنگی بجھی کفر و ضلالت کی ظلمتوں میں روپوش دنیا جگمگا اٹھی ، ایوانِ قیصر و کسری میں زلزلہ آگیا ، آتش کدۂ ایران بجھ گیا ، کسریٰ کے عظمت نشان  بارہ کنگن زمین بوس ہو گئے ، صنم۔کدوں میں نصب کئے گئے معبودانِ باطل اوندھے بل گر پڑے، ، شجر و حجر بزبانِ قال، ایک دوسرے کو مبارک باد دینے لگے ، حریم کعبہ سے ابھر نے والے آفتابِ جہاں تاب کے سامنے جھوٹے خداؤں کے چراغ گل ہوگئے، آفتاب نبوت نے قلم شعاعی سے ورقِ عالم پر آیتِ نور لکھ کر صفحۂ نور کو منور کردیا،،،، 

جو لوگ خدا کے نام سے آگ بگولہ ھوجاتے تھے وہی لوگ ----   الا ان اولیاء اللہ ----- کہلائے ،،، جو رسولِ خدا کے سائے سے بھی گریزاں تھے وہی ----  والذین معہٗ ----- کہے گئے ، جو-----  یریدون لیطفؤ نور اللہ بافواہھم کے زمرۂ کفر میں شامل تھے وہی -----  اشدّآء علی الکفار ----- کے زمرۂ اصحاب میں شامل ہوگئے ،،،، جو درِ حق پر بھولے سے بھی نہ 
جھکتے تھے ،، وہی ،،،، تراھم رکعا سجدا ،،،،،، کی سراپا تصویر بن گئے ،،،،جن کے بارے میں       ---- وان کانو من قبل لفی ضلال مبین ---- کہا گیا تھا انھیں کے بارے میں----- اولٰئک ھم المھتدون----- کہا گیا ،،،،، جو ،،،،،، اولٰئک کالانعام بل ھم اضل------- کہلائے تھے ،،، وہی ،،، اولٰئک ھم خیر البریہ------ کہلائے،،،      جو انّا وجدنا آباءنا لھا عابدون ------  کا نعرہ لگاتے تھے      وہی،،، ربنا اننا آمنا ،،،،، کا ورد کرنے لگے،،،،،،،،،    جو لات و ہبل اور منات و عزیٰ کے دروں پر کاسۂ گدائی لئے ہوئے تھے ،،،،، وہی ،،،، یبتغون فضلا من اللہ ورضوانا ---- ----- کی فہرست میں مندرج ہوئے ،، جن کی زندگی ،،،، بل تؤثرون الحیاۃ الدنیا ----- کی آئینہ دار تھی ،،، وہ ،،، وللآخرۃ خیر لک من الاولی----- کے آئینہ دار ہوگئے ،،،،،،، جنھیں ،،،، لایحزنک الذین یسارعون فی الکفر ----- کہہ کر دھمکی دی گئی تھی ،،،، انھیں کو ،،،،،، لا تھنو ولا تحزنو ------ کہہ کر تسلی دی گئی ،،، جن کی ذات کبھی المغضوب علیھم ---- کے زمرہ میں شامل تھی ،،،، انھیں ،،،، رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ----- کی اعزازی سند ملی ،،، 

رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم نے ، ،،،، انک لعلی خلق عظیم ،،،، کے منصبِ جلیل پر فائز ہو کر حسب و نسب کے مابہِ الامتیاز کو مٹا کر ----    ان اکرمکم عند اللہ اتقٰکم -------- کا درس دیا ،،،،،، جانی دشمنوں پر قبضہ و تصرف کے باوجود ------ لا تثریب علیکم الیوم وانتم الطُلقاء ------- کہہ کر فلسفۂ آزادی کا انوکھا راز آشکارہ فرمایا ،،،،،،     پے بہ پے شورش و یلغار کرنے والوں کو دست بستہ مجبور پاکر ان کے سامنے ،،،،    والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس ------- کا عجیب و غریب شفقت و رحمت کا نمونہ پیش کیا ،،،،، 

الغرض ،،، تمام مخلوقات پر رحم و رافت اور الطاف و عنایت کے اس قدر مینھ برسائے کہ قیامت تک آنے والی نسلیں ،، عبد اللہ کے راج دلارے ، بی بی آمنہ کے جگر پارے دائی حلیمہ کی آنکھوں کے تارے اور بار گاہِ خدا میں سب سے پیارے کو اپنا محسنِ اعظم اور سراپا رحمۃٌ للعالمین تسلیم کرنے پر مجبور ہیں ،،،،،