Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, November 5, 2019

عورت احادیث کے آٸینے میں!!!


       *از۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 🖋🖋 ابو طالب بھاگلپوری*صداٸے وقت
==============================
          معاشرے اور سماج میں عورتیں مختلف ناموں سے متعارف اور پکاری جاتی ہیں۔جیسے *دادی، نانی، ماں، بہن، بیوی وغیرہ*۔ لیکن ان ناموں میں چار نام ایسے ہیں جن کے ساتھ عورتوں کی اکثریت متصف ہوتی ہیں۔

 *(1) بیٹی (2) بیوی (3) ماں اور (4) بہن* ۔ 
        یہی وجہ ہے کہ احادیث میں مذکورہ صفات کے ساتھ متصف عورتوں کے فضائل بنسبت دوسری عورتوں کے، بکثرت وارد ہوئے ہیں۔ 
         اس سلسلے کی روایات ملاحظہ فرمائیں: 
      (1) *بیٹی*: احادیث بیٹی کے تئیں دو عہد کی فضیلتیں بیان کرتی ہیں۔ 
       *عہد اول*: طفولیت سے شوہر کے گھر وداع ہونے تک۔ اس عہد میں بیٹیوں کی خاطر خواہ پرورش پر احادیث پرورش کرنے والوں کو کہیں تو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہی ہونے کا مژدہ سناتی ہیں، اور کہیں عذاب جہنم سے نجات اور پناہ کا پروانہ دیتی ہیں۔
          چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے فرماتے ہیں: *قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من عال جاريتين، دخلت أنا وهو الجنة كهاتين وأشار باصبعيه*. 
        رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے دو لڑکیوں کی کفالت کی، تو میں اور وہ -کفالت کرنے والا- دو انگلیوں کی طرح جنت میں جائیں گے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں انگلیوں سے اشارہ فرمایا۔ 
               (سنن ترمذی: ابواب البر والصلہ: 2/13۔  
           دوسری حدیث حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے فرماتی ہیں: 
      *قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من ابتلي بشئ من البنات، فصبر عليهن، كن له حجابا من النار*. 
          اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص بیٹیوں میں سے کسی ایک کے ذریعے آزمایا گیا یعنی ایک یا ایک سے زائد بیٹیاں عطا کی گئیں اور اس نے ان پر صبر کیا، تو وہ بیٹیاں اس شخص کے لئے دوزخ سے آڑ بن جائیں گی۔  
  (سنن ترمذی: ابواب البر والصلہ: 2/13 ) 
      *عہد ثانی*: مطلقہ یا بیوہ ہوکر شوہر کے گھر سے واپسی کے بعد کا عہد۔ 
       اس عہد میں بیٹیوں پر خرچ کرنے کو افضل ترین صدقہ میں شمار کیاگیا ہے۔
        چنانچہ حدیث میں ہے: 
   *ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: لسراقة بن جعثم، الا ادلك على أعظم الصدقة أو من أعظم الصدقة؟ قال بلي يا رسول الله ! قال: ابنتك مردودة إليك ليس لها كاسب غيرك* . 
      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سراقہ بن جعثم سے فرمایا: تمہیں اچھا صدقہ نہ بتاؤں؟ انہوں نے عرض کیا: کیوں نہیں یا رسول اللہ! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری اس بیٹی پر خرچ کرنا، جو بیاہ ہونے کے بعد دوبارہ تمہارے گھر لوٹادی گئی ہو۔  
  ( الادب المفرد للامام البخاری: 46)
        علاوہ ازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی بیٹیوں کے ساتھ سلوک و برتاؤ بھی اس بات کی ترجمانی کرتا ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بیٹیوں سے کس درجہ پیار و محبت تھا۔ روایت میں آتا ہے کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر کا ارادہ فرماتے وقت بالکل آخر میں اور واپسی پر سب سے پہلے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ملاقات فرماتے تھے۔ جس سے یہ بات بالکل واضح و عیاں ہوجاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کس درجہ محبت فرماتے تھے۔ 
      (2) *بیوی* : بحیثیت بیوی عورتوں کی فضیلت احادیث میں بکثرت وارد ہوئی ہے، چند احادیث پیش خدمت ہیں۔۔ 
      *عن عائشة رضي الله عنه قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ان اكمل المؤمنين إيمانا أحسنهم خلقا و الطفهم بأهله*. 
          حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مؤمنین میں کامل ترین ایمان والا وہ شخص ہے، جو سب سے زیادہ اچھے اخلاق والا ہے، اور وہ، جو اپنے گھر والوں کے ساتھ سب سے زیادہ نرم برتاؤ کرنے والا ہے۔ 
  ( سنن ترمذی: ابواب الایمان: 2/89)
        
      *عن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه: خير كم خير كم لأهله وأنا خيركم لأهلي وإذا مات صاحبكم فدعوه*. 
            حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں بہتر وہ شخص ہے، جو تم میں اپنی بیویوں کے حق میں بہتر ہے، اور میں تم میں اپنی بیویوں کے حق میں سب سے بہتر ہوں۔ اور جب تمہارا ساتھی دنیائے فانی سے رخصت ہو جائے، تو اس کو چھوڑدو۔ 
  ( مشکوٰۃ المصابیح: کتاب النکاح: 281) 
       *عن عبد الله بن عمر رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الدنيا كلها متاع وخير متاع الدنيا المرأة الصالحة*. 
           ابن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ساری دنیا متاع بے اور بہترین متاع دنیا نیک بیوی ہے۔ 
( مشکوٰۃ المصابیح: کتاب النکاح: 267) 
       مذکورہ بالا احادیث میں عورتوں کی فضیلتیں من حیث الزوجہ بیان کی گئی ہیں۔ ان کے علاوہ درجنوں احادیث انکے فضائل بیان کرتی ہیں *کما لایخفی من اہل العلم*۔
      (3) *ماں*: دین اسلام میں اللہ اور کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جس ہستی کے سب سے زیادہ حقوق انسانوں پر ہیں، وہ ہیں اولاد پر انکے والدین کے حقوق۔ اور ماں کا حق باپ کے مقابلے میں تین گنا بڑھا ہواہے، چنانچہ روایت میں ہے: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی فرماتے ہیں: *جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله! من أحق الناس بحسن صحابتي؟ قال: أمك. قال: ثم من؟ قال: ثم أمك. قال: ثم من؟ قال: ثم أمك. قال ثم من؟  قال: ثم ابوك* . 
         ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا: مجھ پر حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق کس پر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری ماں کا۔ انہوں نے پوچھا؟ پھر؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری ماں کا۔ انہوں نے پوچھا پھر؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری ماں کا۔ انہوں نے پوچھا؟ پھر؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے باپ کا۔ 
  ( بخاری شریف: کتاب الادب: 2/1366)
        حدیث بالا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء تین مرتبہ ماں کو حسن سلوک کا زیادہ حقدار قرار دیا ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ باپ کے مقابلے میں ماں کا حق اور اسکی فضیلت تین گنا زیادہ ہے۔ 
          (4) *بہن*: جس طرح بیٹی کی پرورش پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی خوشخبری سنائی ہے، اسی طرح بہن کے ساتھ حسن سلوک پر بھی دخول جنت کی بشارت حدیث میں منقول ہے۔ 
          چنانچہ ابوسعید خدری کی روایت ہے: *أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا يكون لاحد ثلاث بنات أو ثلاث أخوات، فيحسن إليهن إلا دخل الجنة*. 
          رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کی تین بیٹیاں یا بہنیں ہوں اور وہ انکے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرے ( ان کے تمام حقوق ادا کرے، انکے وجود کو اپنے لئے مصیبت اور باعث ذلت نہ سمجھے) تو وہ شخص جنت میں داخل ہوگا۔ 
           (ترمذی: 2/13) 
         مذکورہ بالا احادیث میں بیان کردہ فضائل لڑکیوں کے متعلق ہیں۔ لڑکوں کے فضائل و مناقب کے سلسلے میں احادیث خاموش ہیں۔  کسی حدیث میں بھی ایک بیٹے یا دو بیٹے اسی طرح ایک بھائی یا دو بھائی کی پرورش کو دخول جنت کا باعث یا جہنم سے پناہ کا سبب بتایا گیا ہو؛ جبکہ ہمارے معاشرے کا حال یہ ہے کہ، ہم اپنی بیویوں سے صرف اور صرف لڑکے کے خواہاں ہوتے ہیں، ہماری خواہش و تمنا یہ ہوتی ہے کہ ہمارے گھر صرف لڑکے ہی آنکھیں کھولیں، اگر ہماری خواہش و تمنا پائہ تکمیل تک پہنچ جاتی ہے، تو ہمارا چہرہ خوشی سے کھل جاتا ہے، لبوں پر مسکراہٹ اس طرح رقص کرتی ہے مانو کوئی کھویا ہوا گنج گراں مایہ برسوں بعد ہاتھ لگ گیا ہو۔ لیکن اگر ہماری چاہت کے خلاف ہمارے آنگن اور ہماری گود میں لڑکی جنم لیلے تی ہے،تو ہم بیحد غمزدہ اور افسردہ خاطر ہوتے ہیں، ہمارے چہرے کی رونق اور چمک دمک ماند اور پھینکی پڑجاتی ہے،لبوں پر مسکراہٹ کے بجائے گلے شکوے آنے لگتے ہیں، اور شیرنی تقسیم کرتے وقت لوگوں کو یہ خوشخبری اس انداز میں دیتے ہیں مانو کوئی بری خبر دے رہے ہوں۔ بلکہ قرآن کی زبانی " *وإذا بشر أحدهم بالانثي ظل وجهه مسودا و هو كظيم*"  کا منظر پیش کرتے نظر آتے ہیں۔           
          اگر بیٹی (عورت) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں منحوس ہوتی، تو یقیناً آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی فضیلت بیان نہ فرماتے؛ بلکہ امت کو اس سے بچنے کی ترغیب دیتے؛ لیکن آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے چونکہ فضیلت بیان فرمائی ہے، اس لئے عورتوں کے تعلق سے ہمارے خیالات و افکار بالکل غلط اور من گھڑت ہیں۔ 
          اللہ تعالیٰ ہمیں بیٹیوں کا قدردان بنائے، اور خانہ ساز اور باطل عقائد و نظریات سے ہماری حفاظت فرمائے۔ 
  
  *🌷آمین ثم آمین یارب العالمین🌷* 


 *ابو طالب، چمپانگر،    بھاگلپور، بہار*   
       
       *5/11/2019*