Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, November 9, 2019

بابری مسجد عدالتی فیصلہ۔۔۔۔٩نومبر ٢٠١٩

از/خورشید انور ندوی/صداٸے وقت۔
==============================
بڑی عجیب بات ہے کہ تاریخ کے بعض فیصلے عدالتوں میں ہوں لیکن یہ بالکل انوکھی بات نہیں ہے کہ ہر اہم عدالتی فیصلہ تاریخ کا حصہ بن جائے..

ملک کی سیاسی تاریخ کا یہ بھی ایک باب رہے گا کہ تمدنی حقوق کے تنازعہ میں حق کی معروضیت کس طرح اور کتنے مرحلوں میں آستھا کی نذر ہوجاتی ہے یا کردی جاتی ہے. سماجیات اور سیاسیات کے ماہرین، ناقدین اور دل چسپی رکھنے والے لوگوں کے لیے یہ بھی بحث و تبادلہ فکر کا موضوع ہے کہ مشترک معاشرہ میں معاشرہ کا مضبوط حصہ کمزور حصے پر اپنی برتری کس کس طرح ثابت کرتا ہے. سماجی نفسیات کی یہ بھی ایک دلچسپ دریافت کہی جائے گی کہ 86٪ کی اکثریت رکھنے والی اکثریت، 14٪ کی اقلیت سے اتنی خوفزدہ کیوں ہے؟ کیوں بار بار ہندو سنسکرتی ایک بکھری اقلیت کی مذہبی اور تہذیبی شناخت سے ڈرتی ہے؟ یہ ایک ہزار سال کی غلامی کی خلش ہے یا وہ اپنے ہی مذہبی تصورات اور سماجی تانے بانے سے بداعتماد ہے؟ قرین قیاس تو یہی ہے کہ اپنی یقینی اندرونی ٹوٹ پھوٹ سے بچاؤ کے لئے اس نے بیرون وجود ایک خیالی دشمن کا بت تراش لیا ہے. تاریخ کے ہر دور میں خوف، اتحاد کا محرک رہا ہے گوکہ یہ پائیدار کبھی نہیں ہوتا.. وحدت وہی مستحکم ہوتی ہے جو عقیدہ پیدا کرتا ہے. میں اپنی ذاتی تحلیل میں بابری مسجد کی شہادت اور اس کے طولانی قضیہ کو ہندوقوم پرستوں کے اسی خوف کے پیٹ سے جنما مانتا ہوں. آج کا فیصلہ، کسی معنی میں عدالتی فیصلہ نہیں. سابق کی ساری عدالتی کارروائیاں اور عدالت عالیہ (آلہ آباد) و سپریم کورٹ کے فیصلے کس طرح فیصلے کہے جائیں گے؟
عدالتوں کا کام بے طلب ثالثی پینل تشکیل دینا نہیں ہوتا.. درخواست گزار جو مراعات عدالت سے طلب نہیں کرتا عدالت اس کی تجویز نہیں دیتی.. کس فریق نے متبادل جگہ مانگی ہے؟ آخر فیصلہ میں پانچ ایکڑ زمین مسجد تعمیر کرنے کے لیے الاٹمنٹ کا حکم نامہ کیوں دیا گیا.. یہ قانون کی ثقافت میں فیصلہ نہیں تصفیہ ہے.
 مسلمانوں کو شکریہ کے ساتھ یہ مسترد کردینا چاہیے..عدالت کا فیصلہ پہلے ہی قبول کیا جاچکا ہے.
مسلمان اس قضیہ کو ہار جیت کا مسئلہ نہ تصور کریں..
اپنی قیادت کو (جیسی بھی ہے) بے رحم تنقید کا نشانہ نہ بنائیں. یہ باور کریں کہ سب نے اپنا رول اپنی بساط بھر ادا کیا، اس سے زیادہ کچھ کیا نہیں جاسکتا تھا.
جن لوگوں کی کچھ متبادل تجاویز تھیں اور مسئلہ کےحل کے لئے ان کی تجاویز عام طور پر قبول نہیں کی گئیں اب اس پر بلاوجہ واویلا نہ کریں، وہ گزرے وقت کی بات ہے.
مسلمان اس کو اپنی سبکی تصور نہ کریں یہ حالات کا جبر ہے.. اس سے گزرنا سیکھیں اور سماجی اصلاحات کی تحریک شروع کریں. تعلیم کا بے حد وسیع میدان ان کے سامنے ہے، کام کے مواقع بے شمار ہیں، دینی تعلیم بہت کم ہوگئی ہے عصری تعلیم میں دیگر ابنائے وطن کے مقابلے میں ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں، اعلی تعلیم کا تناسب انتہائی کم ہے اس پر انتھک کام کریں..
اپنے شہری حقوق سے پوری آگاہی حاصل کریں قانونی تقاضوں کا ادراک کریں.
سماجی خدمات کا دائرہ جس قدر ممکن ہو، دیگر کمزور طبقات تک وسیع کریں..
اسلام کی سادہ تفہیم اور سماجی اصولوں کی پاسداری کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کی تشریح کریں. اسلام میں سول کمٹمنٹ کی اہمیت اجاگر کریں..
سیاسی میدان میں شعور بیدار کریں، مختلف سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کا جائزہ لیں لیکن جارحانہ تنقید سے گریز کریں.. سیاست میں ہم فائنل دوڑ میں نہیں ہیں بلکہ سیاسی عمل کا ایک حصہ ہیں.. پہلے سے ہی مدمقابل نہ تیار کریں بلکہ بہتر سیاسی کارکردگی پر زور لگائیں.. مسلم سیاسی جماعتوں کی بہتات ہمیشہ نقصان دہ نہیں ہوتی،، تشکیل کے بعد ہی اتحاد وارتکاز کا مرحلہ آتا ہے.. سیاست میں جس سے اختلاف ہو اسی کو سارے مسائل کا ذمہ دار گرداننا کوئی مثبت رویہ نہیں. ایسا باور کرلینے سے خوداحتسابی ختم ہوجاتی ہے.
فیصلہ کے بعد مسلمانوں نے جس ضبط نفس، پابند قانون مہذب اور محتاط ردعمل کا اظہار کیا ہے وہ اس بات کا غماز ہے کہ ہم دیگر ابنائے وطن کے بے ہنگم انبوہ کے مقابلے میں بہت منظم فکر اور مہذب رویہ رکھتے ہیں.. یہ دانش ہے بزدلی نہیں، انتظار کیجئے جشن منانےوالے بہت جلد سوچنے پر مجبور ہوں گے. ان شاء اللہ.